آسام اکورڈ کے Caluse 6 پر جسٹس بپلب کمار شرما کمیٹی کی سفارشات آئینِ ہند سے متصادم ـ

آسام سرکار مسلمانوں کو زمین کے مالکانہ حقوق و دیگر آئینی حقوق سے محروم کرنے اور ان کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی سازش کر رہی ہے، ہم اس کے خلاف کورٹ جائیں گے: مولانا بدرالدین اجمل
نئی دہلی/ گوہاٹی(پریس ریلیز)آل انڈیونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے قومی صدر و سابق رکن پارلیمنٹ اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل نے آسام اکورڈ کے clause 6 کو ممکنہ طور پر نافذ کرنے سے متعلق جسٹس بپلب کمار شرما کمیٹی کی سفارشات کو آئینِ ہند سے متصادم قرار دیتے ہوئے وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ کمیٹی کی سفارشات کو بنیاد بناکر مسلمانوں کو زمین کے مالکانہ حقوق کو سلب کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں سیکنڈ کلاس کا شہری بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک کا آئین یہاں کے ہر ایک شہری کو مساوی حقوق دیتا ہے ، اسی طرح آسام اکورڈ کے مطابق جو لوگ 25 مارچ 1971 سے پہلے پہلے آسام میں آگئے ان سب کو ہندوستانی تسلیم کیا گیا ہے اور اسی بنیاد پر آسام میں NRC تیار ہوا ہے، مگر جسٹس بپلب کمیٹی کی سفارشات ان سب سے متصاد م ہے کیونکہ اس نے 1951 سے پہلے آسام میں رہنے والے افراد کو تمام مراعات دینے کی سفارش کی ہے جیسے سرکاری نوکری میں ریزرویشن، پارلیمنٹ، اسمبلی کی سیٹ اور دیگر آئینی عہدوں میں ریزرویشن کا حقدار صرف ان لوگوں کو مانا ہے جن کے باپ دادا نام1951 میں آسام میں تھے، اسی طرح زمین کا ترجیحی طور پر مالکانہ حقوق صرف انہی لوگوں کو ہوگا ۔کمیٹی کی سفارشات کے مطابق 1951 اور 24 مارچ 1971 کے درمیان آسام میں آجانے والے لوگ ہندوستانی تو ہوں گے مگر آسامی نہیں ہوں گے اس لئے ان کو وہ مراعات حاصل نہیں ہوگی۔مولانا نے کہا کہ 1951 اور 1971 کے درمیان لاکھوں مسلمان آسام میں آئے تھے جو قانونی اعتبار سے ہندوستانی ہری قرار دئے گئے تھے، اب اگر جسٹس بپلب کمیٹی کی یہ سفارشات نافذ ہوگی تو وہ تمام لوگ دوسرے درجہ کے شہری بن جائیں گے اور بہت سے آئینی حقوق سے محروم ہو جائیں گے، جس سے ایک بھید بھائو اور تعصب کا ماحول بن جائے گا، اس لئے ہم لوگ اس کمیٹی کی سفارشات کو مسترد کرتے ہیں اور اگر زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم عدالت جائیں گے ۔مولانانے مزیدکہا کہ یہ کمیٹی مرکزی وزارت داخلہ نے 2019 میں تشکیل دی تھی اور کمیٹی نے اپنی رپورٹ فروری 2020 میں ہی جمع کردیا تھا مگر ابھی تک وزارت داخلہ نے اس رپورٹ کو قبول نہیں کیا ہے اور نہ اس کو نافذ کرنے کی بات کی ہے مگر آسام کے وزیر اعلی اس رپورٹ کو نافذ کرنے کے لئے بے چین ہو رہے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنی کابینہ میں یہ فیصلہ لے لیا کہ کمیٹی کی سفارشات کا جو حصہ ہمارے دائرہ اختیار میں آتا ہے اسے ہم نافذ کریں گے اور مابقیہ کے لئے مرکزی حکومت سے درخواست کریں گے۔سوال یہ ہے کہ جب کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات کو اسے بنانے والی مرکزی وزارت داخلہ نے قبول ہی نہیں کیا ہے تو آسام سرکار اسے نافذ کرنے کے لئے اتنا بے چین کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سرکار ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے اور اگلے سال ہونے والے الیکشن میں شکست کا خوف ستا رہا ہے اسلئے اس معاملہ کو ہوا دیکر لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر آسام سرکار اس کمیٹی کی متضاد اور متنازع سفارشات کو نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ہم اس کے خلاف کورٹ جائیں گے اور اس کے خلاف لڑیں گے کیونکہ یہ ہندوستان کے موجودہ آئین کے خلاف ہے اور مسلمانوں کے خلاف سازش رچنے کے لئے ایک ہتھیار کی مانند ہے جسے بنیاد بناکر آسام کی مسلم دشمن سرکار مسلمانوں کو آئینی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کرے گی۔دراصل آسام اکورڈ میں ایک Caluse 6 ہے جو کہ آسام کے لوگوں کے لئے خصوصی مراعات اور آسام کے کلچر کے تحفظ کے لئے اقدام کئے جانے سے متعلق ہے۔ 2019 میں جب متنازع شہریت ترمیمی بل پارلیمنٹ سے پاس ہوا تھا تو اس وقت آسام میں ہونے والے احتجاج کو دبانے کے لئے مرکزی وزارتِ داخلہ نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس بپلب کمار شرما کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جسے یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ آسام اکورڈ کے Clause 6 کو نافذ کئے جانے کی ممکنہ صورت اور طریقہ کار سے متعلق رپورٹ اور سفارشات پیش کرے۔ اس کمیٹی نے تقریبا ایک سال کے عرصہ میں اپنی رپورٹ تیار کرکے مرکزی وزارتِ داخلہ کو سونپ دیا مگر چونکہ اس رپورٹ میں آئینِ ہند سے متصادم سفارشات جس پر عمل کرنے کے لئے آئین میں ترمیم کرنا ضروری ہے اسلئے یہ رپورٹ ٹھنڈہ بستہ میں ہے مگر آسام سرکار اس معاملہ کے ذریعہ اپنا ووٹ بینک تیار کرنا چاہتی ہے اسلئے وہ اس کو نافذ کرنے کا اعلان کر ہی ہے۔

Comments are closed.