دھماچوکڑی

حافظ مجاہد عظیم آبادی
ایڈیٹر: روح حیات سینٹر
8210779650 م
ایک دن صالح اور دانش صحن میں کیرم کھیلنے میں مشغول تھے۔ گوٹیاں جماتے ہوئے وہ اتنے مگن تھے جیسے دنیا میں بس یہی ایک اہم کام ہو۔ اتنے میں امی کی آواز گونجی، ”صالح بیٹے!”
صالح نے بغیر اپنی گوٹی چھوڑے کہا، ”جی امی!”
”بیٹا، برآمدے کا بلب تم نے اتارا ہے؟”
صالح کی آنکھیں اتنی بڑی ہو گئیں جیسے کوئی چوری پکڑ لی گئی ہو۔ ”نہیں تو، کیوں امی؟ کیا بلب وہاں نہیں ہے؟”
”نہیں ہے، اسی لیے تو پوچھ رہی ہوں!” امی کا لہجہ ایسا تھا جیسے ابھی صالح کو پکڑ کر پوچھا جائے گا کہ ”مانتے ہو یا نہ مانتے ہو؟”
اب دانش نے بھی کان کھڑے کیے اور صالح نے فوراً کہا، ”چھوڑیں امی، ہو سکتا ہے بلب فیوز ہو گیا ہو اور کسی نے نکال کر پھینک دیا ہو۔”
امی نے گھور کر کہا، ”بیٹے، یہ دو دن پہلے نیا بلب لگایا تھا، فیوز کیسے ہو سکتا ہے؟” امی کے چہرے پر وہی گھریلو جاسوس والی سنجیدگی تھی، جیسے ابھی کچھ بڑا انکشاف ہونے والا ہے۔
امی نے اب ایک ایک کرکے گھر والوں سے پوچھنا شروع کیا: فرحین آپی سے، پھر فردوس آپی اور آخر میں بھابھی سے۔ لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا، ”مجھے نہیں معلوم، میں نے کچھ نہیں کیا۔”
امی کو کچھ سمجھ نہ آیا، تو فوراً بوا کو آواز دی۔ بوا کو گھر کے سبھی افراد عزت دیتے تھے کیونکہ وہ گھر کی تاریخ کا ایک حصہ تھیں، جسے شاید خود بوا بھی بھول چکی تھیں۔
”بوا!” امی نے بلایا۔
بوا جلدی سے آئیں اور فوراً سوال داغا، ”بی بی جی، خیریت تو ہے؟”
”بوا، برآمدے کا بلب کہاں گیا؟” امی نے پوچھا۔
بوا کی آنکھیں ایسی ہو گئیں جیسے وہ زندگی میں پہلی بار کوئی بلب دیکھ رہی ہوں، ”بی بی جی، مجھے کیا پتا بلب کا؟ میرے کمرے میں تو دو دو بلب لگے ہیں!” پھر اچانک بوا کی سنجیدگی بڑھ گئی اور وہ رازدارانہ لہجے میں بولیں، ”بی بی جی، میں تو کہوں یہ کسی انسان کا کام نہیں، یہ جنات کا کام ہو سکتا ہے!”
یہ سننا تھا کہ صالح اور دانش ایک ساتھ ہنسنے لگے۔ ”کیا جنات اب بلب چوری کرنے لگے ہیں؟ وہ بھی سو واٹ کا؟” صالح نے مذاق کرتے ہوئے کہا۔
بوا نے غصے سے کہا، ”صالح میاں! یہ ہنسی مذاق کی بات نہیں، جنات ایسی حرکتیں کرتے ہیں، اور خاص طور پر رات میں۔”
دانش نے مزید شرارت سے کہا، ”میرا خیال ہے کہ یہ کوئی پڑھا لکھا جن ہو گا، جسے رات کو پڑھائی کے لیے روشنی کی ضرورت تھی!”
یہ سن کر سب کی نظریں میز پر پڑے ٹیبل لیمپ کی طرف گئیں، لیکن وہ اپنی جگہ موجود تھا۔
شام کو جب ابو اور مجاہد بھائی دفتر سے واپس آئے تو امی نے فوراً انہیں بلب کے غائب ہونے کا بتایا۔ ابو نے لاپرواہی سے کہا، ”کوئی بات نہیں، نیا بلب آجائے گا۔” اور وہ آگے بڑھ گئے جیسے یہ کوئی بہت ہی معمولی بات ہو۔
اگلے دن ایک اور عجیب واقعہ پیش آیا۔ شگفتہ آپی کسی دعوت میں جانے کے لیے تیار ہو رہی تھیں۔ جب انہوں نے اپنی پسندیدہ سینڈل نکالی تو دیکھا کہ ایک جوڑی غائب ہے۔ انہوں نے پورے کمرے کا کونہ کونہ چھان مارا، یہاں تک کہ الماری کے نیچے بھی جھانکا، لیکن سینڈل کا دوسرا پیس نہ ملا۔ یہ ایسا تھا جیسے سینڈل کو بھی دعوت میں جانے کی جلدی ہو اور وہ خود نکل گئی ہو!
شگفتہ آپی کا موڈ خراب ہو چکا تھا، لیکن آخر کار انہوں نے بھائی کی چپل پہن لی، حالانکہ وہ چپل بالکل ان کی ڈریس کے ساتھ نہیں جا رہی تھی۔ وہ منہ بنائے ہوئے دعوت میں چلی گئیں۔
اگلے دن پڑوس کی ایک خاتون نے اطلاع دی کہ شگفتہ آپی کی سینڈل برآمدے کی چھت پر پڑی ہے! یہ سن کر سب حیران ہو گئے۔ چھت پر؟ وہ سینڈل کیسے پہنچی؟ کیا وہ اڑ کر گئی تھی؟
بوا فوراً بول پڑیں، ”بی بی جی، یہ چڑیل کا کام ہے!”
”اور کیا!” صالح نے ہنستے ہوئے کہا، ” ’’لیجیے، ایک شگفتہ آپی کم تھیں کہ اب چڑیل بھی آگئی!‘‘
امی نے صالح کو غصے سے ڈانٹا، ”صالح، تم ادب سیکھو، یہ مذاق کا وقت نہیں!”
صالح نے معصومیت سے کہا، ”امی، آپ نے پچھلے ہفتے بھی یہی کہا تھا، اور میں نے فوراً اردو ادب کا مطالعہ شروع کر دیا تھا!”
امی یہ سن کر مسکرائیں، لیکن پھر سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے کہا، ’’یہ کوئی عام بات نہیں ہے، کسی پیر صاحب کو بلانا پڑے گا۔‘‘
پھر اگلے ہی دن ایک اور حیران کن واقعہ پیش آیا۔ مجاہد بھائی گھر میں چیختے ہوئے داخل ہوئے، ”میرا نیا قلم کس نے نالی میں پھینک دیا؟”
امی نے سکون سے جواب دیا، ”بیٹا، شاید تم ہی سے گر گیا ہو گا۔”
مجاہد بھائی کا چہرہ لال پیلا ہو گیا، ”کیا میں نالیوں میں جھانکتا پھرتا ہوں کہ میری جیب سے قلم نالی میں گر جائے؟”
اب سب گھر والے حیران تھے کہ آخر یہ سب حرکتیں کون کر رہا ہے؟ صالح نے چپکے سے دانش کو اشارہ کیا اور دونوں نے ہنستے ہوئے کہا، ”کہا تھا نا، یہ پڑھا لکھا جن ہے!”
بوا نے فوراً سنجیدگی سے کہا، ”بی بی جی، میں تو کہتی ہوں، کسی پیر صاحب کو بلا لیں۔ یہ جنات کی حرکتیں ہیں۔”
ابو نے اس بات پر ہنستے ہوئے کہا، ”ہاں، ہاں، بلاؤ پیر صاحب کو اور پوچھو کہ جنات کا بلب کیوں خراب ہو گیا!”
اگلے دن مجاہد بھائی اور بھابی کسی عزیز کے گھر سے واپس آئے تو ان کے کمرے کا حال دیکھ کر حیران رہ گئے۔ گلدان ٹوٹا ہوا تھا، تکیے زمین پر بکھرے ہوئے تھے، اور ایک چپل، جو نہ جانے کس کی تھی، بستر پر بڑے آرام سے رکھی ہوئی تھی جیسے وہ وہاں آرام کرنے آئی ہو!
یہ دیکھ کر بھابی خوف کے مارے کانپنے لگیں۔ فوراً پورا گھر جمع ہو گیا اور ہر کوئی اپنی اپنی قیاس آرائیاں کرنے لگا۔ بوا نے فوراً کہا، ”بی بی جی، میں تو کہتی ہوں، یہ جنات کا کام ہے۔”
یہ سنتے ہی صالح نے کہا، ”امی، یہ جن تو بہت بدتمیز نکلے! اتنے بڑے بڑے کام کر کے ہمیں بتا بھی نہیں رہے!”
اسی دوران لائٹ چلی گئی، اور پورا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ اچانک سعدیہ آپی کی زوردار چیخ سنائی دی، ”امی! یہاں جن ہے، اُس نے میرا ہاتھ چھیل دیا!”
یہ سننا تھا کہ سب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ سب لوگ برآمدے کی طرف دوڑ پڑے، جہاں سعدیہ آپی کھڑی کانپ رہی تھیں اور مسلسل چیخ رہی تھیں۔
ابو نے جلدی سے کہا، ”صالح، موم بتی لاؤ!”
صالح نے سنجیدگی سے کہا، ”ابو، شاید جنات کو اندھیرے میں رہنا پسند ہے!”
ابو نے حیرت سے پوچھا، ”کون جن؟”
دانش نے کہا، ”ابو، بوا کا کہنا ہے کہ ہمارے گھر میں جنات کا دورہ ہے!”
امی نے یہ سن کر کہا، ”پتا نہیں کیا ہو رہا ہے اس گھر میں۔”
پھر صالح، دانش اور صنوبر آپی نے اس معاملے کو حل کرنے کا فیصلہ کیا۔ صنوبر آپی کٹھ پتلیوں کی ماہر تھی، اور صالح نے انہیں خاص طور پر بلایا تھا تاکہ بوا کی حقیقت کا پتا لگایا جا سکے۔ رات کو جب سب لوگ سونے کا ڈرامہ کر رہے تھے، صنوبر آپی نے اپنی کٹھ پتلیوں کا کھیل تیار کر رکھا تھا۔
رات کو جب سب سو رہے تھے، صالح نے ایک آواز سنی۔ وہ چپکے سے اٹھا اور دانش اور صنوبر آپی کو جگایا۔ تینوں نے دیکھا کہ ایک سایہ باورچی خانے کی طرف جا رہا تھا۔ یہ بوا تھیں، جو چپکے سے مختلف چیزیں ادھر ادھر کر رہی تھیں۔
صالح نے فوراً اشارہ کیا، اور صنوبر آپی نے اپنی کٹھ پتلی کی مدد سے بوا کو ڈرا دیا۔ اس کٹھ پتلی کو دیکھتے ہی بوا کی چیخ نکل گئی، اور انہوں نے ڈرتے ہوئے کہا، ”حضرت جن، معاف کر دو! مجھے عرفان صاحب نے کہا تھا کہ گھر میں جنات کا خوف پھیلاؤ تاکہ مکان خالی ہو جائے!”
یہ سنتے ہی صالح، دانش اور صنوبر آپی ہنسنے لگے، لیکن انہوں نے بوا کو معاف کر دیا اور حقیقت امی کو بتا دی۔
اگلے دن، امی نے سب گھر والوں کو جمع کیا اور کہا، ”دیکھو، ہمیشہ حقیقت جاننے کی کوشش کرو۔ ہر چیز کا تعلق جنات سے نہیں ہوتا، بعض اوقات انسان خود جنات سے بھی زیادہ چالاک ہوتے ہیں!”
یہ سن کر سب ہنسنے لگے، اور گھر میں پھر سے خوشی اور سکون لوٹ آیا۔
Comments are closed.