ظریفانہ: سناتن کا عروج اور بی جے پی کا زوال

ڈاکٹر سلیم خان
للن ناگپوری نے کلن احمد آبادی سے کہا تم نے اپنےجانبازچیتے کا نیا بھاشن سنا یا نہیں ؟ مزہ آگیا بلکہ موڈ بن گیا ۔
ارے بھیا سرینگر کے شیرِ کشمیر اسٹیڈیم میں بھیگی بلی بن کر مخالفین کو کوسنے والی تقریر دیکھ کر میرا تو موڈ ہی خراب ہوگیا۔
اوہو کلن میں پردھان جی کی نہیں بلکہ اپنے ناگپوری چیتے بھاگوت کی بات کررہا تھا ۔
ارے ہاں قومی انتخاب میں پارٹی کی ناکامی کے بعد وہ کچھ زیادہ ہی اچھل کود کررہا ہے لیکن میں ان کو سنجیدگی سے نہیں لیتا ۔
کیا بات کرتے ہو؟ اپنے سرسنگھ چالک کے بارے میں ایسی بات کہنے سے پہلے تمہاری زبان کیوں نہیں جل گئی ؟
کلن بولا بھیا ان کا تو ایسا ہے کہ آج کچھ کہتے ہیں اگلے دن اس کے بالکل متضاد بیان دے دیتے ہیں ۔ مجھے تو وہ کنفیوژڈ آدمی لگتا ہے ۔
للن قہقہہ لگا کر بولا تم نے صحیح کہا ، دوسروں کو کنفیوژ کرنے کے لیے کبھی کبھار ایسا بھی کرنا پڑتا ہے۔
اچھا تو ٹھیک ہے تم کنفیوژ ہونے کے لیے ان کی باتیں سنو اور سر دھنو مجھے اس بک بک میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔
ارے بھیا وہ جیسے بھی ہیں ہمارے سرسنگھ چالک ہیں اور جب تک اس عہدے پر فائز ہیں ان کا احترام تو کرنا ہی پڑے گا نا؟
کلن بولا اچھا اب بلا وجہ کی تعریف و توصیف چھوڑو اور یہ بتاو کہ آخر وہ کون سا بیان ہے جس نے تمہیں بلیوں اچھلنے پر مجبور کردیا؟
ارے بھیا انہوں نے اعلان کیا ’یہ کہا جاتا ہے کہ سناتن دھرم کے عروج کا وقت آگیا ہے۔ یہ آ گیا ہے۔ ہم اس کے گواہ ہیں‘۔
یار یہ عجیب آدمی ہے ۔ دوسال قبل جب ہمارے 303؍ ارکان پارلیمان اور 62؍ پکے حامی تھے تو یہ ڈرا رہا تھا کہ سناتن خطرے میں ہے اور اب ۰۰
اچھا چھپن ّ انچ والے پردھان جی کے ہوتے سناتن یا ہندوتوا خطرے میں کیونکر ہوسکتا ہے؟
للن ایک کام کرو تم گوگل میں تریپورہ کے اندر موہن بھاگوت کی 27 اگست2022والی تقریر کھول کر پڑھ لو سب پتہ چل جائے گا ۔
للن نے کہا دیکھو بھیا تم مجھے محنت کرنے کے لیے نہ کہو سیدھے بتاو کہ بھاگوت جی نے کیا کہا تھا؟
انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اپنے مذہب کی حفاظت کرنی چاہیے اور اگر ضرورت پڑنے پر اس کے لیےاپنی زندگی تک قربان کردینی چاہیے۔
للن نے کہا یار ہم اپنی جان کیوں دیں؟ اس کام کے لیے اپنے اگنی ویر کافی ہیں ۔ ویسے بھی ہم لوگ قربانی وربانی میں یقین نہیں رکھتے ۔
اور ہاں بھاگوت نے یہ بھی کہا تھا کہ سناتن دھرم سب کو اپنا مانتا ہے۔ یہ کسی کو تبدیل نہیں کرتا۔
للن نے سوال کیا اچھا تو یہ ہر دوسرے دن گھر واپسی کی خبر آتی ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟
ارے بھائی میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ کنفیوژڈ آدمی ہے لیکن تم نہیں مانے ۔
جی ہاں یار یہ سمجھنا تو مشکل ہے کہ اس وقت سناتن دھرم زوال پذیر تھا اور اب عروج پر آگیا ۔
اوہو للن سمجھتے کیوں نہیں ۔ دراصل پردھان جی کے عروج میں بھاگوت کا زوال اور اُن کی پستی میں اِن کی بلندی ہے ! کیا سمجھے؟
یار کلن مجھے یاد پڑتا ہے کہ بھاگوت جی نے ایک بار کہا تھا کہ ’ سچے دل سے پوجا کرناانسان کو اپنے بھگوان کی طرف لے جاتا ہے‘۔
جی ہاں میں نے بھی وہ ویڈیو دیکھی تھی لیکن تروپتی جیسے مندر میں پوجا پاٹ کے بعد مویشی کی چربی اور مچھلی کے تیل والے لڈو کھانا کیسا ہے؟
للن نے کہا ارے یہ تو مہاپاپ ہے ، ہندو ہردیہ سمراٹ پردھان جی کے ہوتے یہ نہیں ہوسکتا؟
اپنی سرکار کے حامی چندرا بابو نائیڈو نے الزام لگایا کہ تروپتی بالاجی کے مندر میں یہ ہورہا تھا اور اس کے لیے وائی ایس آر کی سرکار ذمہ دار تھی۔
یار لیکن کیا اپنے مندر کے سادھو سنت اتنے بھولے بھالے ہیں کہ ان کو پتہ نہیں چلا، یا پھر وہ بھی اس بد عنوانی میں ملوث تھے؟
کلن بولا بھیا یہ تو مجھے نہیں پتہ لیکن رام مندر کے پران پرتشٹھان کے وقت تروپتی سے چار ٹن یعنی ایک لاکھ لڈو ایودھیا میں بھی بنٹے تھے ۔
اچھا تب تو سبھی کا دھرم بھرشٹ ہوگیا ہوگا ۔ وہاں تو یوگی کے ساتھ اپنے شیر اور چیتا یعنی پردھان اور بھاگوت دونوں موجود تھے ۔
ہاں یار اچھا ہی ہوا جو شنکر اچاریہ نہیں آئے ورنہ ان کا بھی دھرم بھرشٹ ہوجاتا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سناتن کا کون سا عروج ہے؟
بھیا لڈو کو چھوڑو بھاگوت نے امریکہ، چین اور روس کو نشانہ بناکر کہا کہ وہ طاقتور قومیں دنیا پر راج کرنا چاہتی ہیں ہم روحانیت کا احساس دلاتے ہیں ۔
کلن بولایہ کیسی روحانیت ہے کہ ڈبل انجن سرکار میں ایک فوجی کی منگیتر کے ساتھ اوباش نوجوان چھیڑ چھاڑ اور پولیس والے بدسلوکی کرتی ہے۔
ہاں یار پردھان جی نے اڑیشہ میں اپنی سالگرہ منائی اور خواتین کو بااختیار بنانے کا نعرہ لگایا مگر افسوس کہ اس کے فوراً بعد یہ سانحہ رونما ہوگیا ۔
کلن نے کہا اور وہ مظلوم عورت نہ صرف فوجی کی منگیتر بلکہ وکیل ہونے کے ساتھ اپنی تجارت کرتی تھی ۔
اچھا اس کے باوجودڈبل انجن پولیس تھانے میں اس کے ساتھ بد سلوکی ہوگئی تو عام لوگوں کا کیا حال ہوگا ؟ یار یہ تو بڑی شرمناک صورتحال ہے۔
کلن نے کہا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے اس سے قبل شہر اندور میں فوجی اہلکاروں اور ان کی خاتون ساتھی کے ساتھ ایسا خوفناک واقعہ پیش آچکا ہے۔
للن نے حیرت سے بولا اچھا میں تو دن رات کولکاتہ کی ویڈیو دیکھتا رہا مگر اپنی ڈبل انجن سرکار میں یہ کیسے ممکن ہے ؟
ارے بھیا کولکاتہ کے بارے میں تو سی بی آئی نے عدالت کے اندر کہہ دیا کہ اسے اس معاملے میں اجتماعی عصمت دری کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
للن نے چونک کر سوال کیا ، کیا بکتے ہو ۔کہیں ممتا نے سی بی آئی کو ڈرا دھمکا کر خرید تو نہیں لیا؟
دیکھو بھیا اگر تمہارا خیال درست ہے تو ماننا پڑے گا کہ امیت شاہ سے زیادہ طاقتور ممتا ہے کیونکہ سی بی آئی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔
للن نے پوچھا اب ممتا اور شاہ کو چھوڑو اور یہ بتاو کہ مہاکال کے مدھیہ پردیش میں فوجیوں کے ساتھ کیا ناانصافی ہوگئی؟
بھیا 11 ستمبر کو دو فوجی اہلکار اور اپنی خاتون ساتھیوں کے ساتھ پکنک کے لیے’جام گیٹ‘ کے قریب پرانی فائرنگ رینج میں بیٹھے تھے ۔
للن نے کہا اچھا تو اس پر کسی کو کیا اعتراض تھا؟
وہاں اچانک 6 بدمعاش پہنچ گئے۔انہوں نے متاثرین کو باندھ کر مار پیٹ اور لوٹ مار کے بعد ایک عورت کی آبرو ریزی بھی کی۔
یار کمال ہے فوجیوں کے ساتھ ایسا کرنے کی جرأت کون کرسکتا ہے؟
کلن بولا ان کی دلیری کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ایک فوجی اور خاتون ساتھی کو یرغمال بناکر دوسرے فوجی کو 10 لاکھ روپے لانے کے لیے بھیج دیا۔
اچھا تو آگے کیا ہوا؟ کیا 10 لاکھ روپئے ادا کر نے کے بعد رہائی ہوئی ؟
جی نہیں اس فوجی نے اپنے اعلیٰ افسر کو فون کردیا اور فورس آگئی مگر تب تک دوسری خاتون ساتھی کی بندوق کی نوک پر عصمت دری ہوچکی تھی۔
للن نے سوال کیا لیکن یار یہ بتاو اس دوران اپنی بلڈوزر سرکار کیا کررہی تھی؟ ایسا جنگل راج تو لالو یادو کے بہار میں بھی نہیں تھا ۔
ارے بھائی اندور کے انچارج تو خود وزیر اعلیٰ موہن یادو ہیں اور وہی ریاست کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ ان کو تو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے ۔
للن بولا بھائی یہ تو ناممکن ہے اس لیے کہ ہماری طرح ان کو بھی سنگھ کی شاکھا میں چکنا گھڑا بنادیا گیا ہوگا ۔
کلن نے تائید کی اور بولا جی ہاں وہ تو ہے اسی لیے شرم و حیا سے ہمارا کوئی وا سطہ نہیں ہے اور ہم لوگ مستعفی ہونے کی جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔
دیکھو بھیا بھاگوت کہتے ہیں دھرم زندگی کی بنیاد ہے، دھرم توازن اور آزادی فراہم کرکے کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ اب تم کیا کہتے ہو؟
کلن بولا میں پوچھتا ہوں کہ اگر سناتن دھرم کا عروج آگیا ہے تو آزادی اور کامیابی کہاں غائب ہوگئی؟
للن نے کہا بھائی بھاگوت جی کا کہنا ہےجسم، دماغ، عقل اور روح میں ہم آہنگی سے انسان زندہ رہتا ہے۔ یہ توازن بگڑ جائے تو دیوانہ ہو جاتا ہے۔
کلن نے سوال کیا اچھا اگر یہ توازن ختم ہوجائے تو کیا ہوتا ہے؟
بھیا بھاگوت کے مطابق اگر یہ ختم ہوجائے، تو انسان مر جاتا ہے۔
کلن بولا یار مجھے تو لگتا ہے ہمارے معاشرے میں یہ توازن پوری طرح تہس نہس ہوچکا ہے اس لیے ہم لوگ من حیث القوم مرچکے ہیں ۔
کلن کی تلخ بیانی کا للن نے پاس کوئی جواب نہیں تھا اس لیے ہر سوُ ایک خوفناک سناٹا چھا گیا۔
Comments are closed.