کھٹر کے کھٹارے نے بی جے پی کی لٹیا ڈبودی

ڈاکٹر سلیم خان
ہریانہ میں مودی کے منظورِ نظر سابق وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر فی الحال پارٹی کی آنکھ کا کانٹا بنے ہوئے ہیں ۔ وہ ساڑھے نو سال تک مرکزی حکومت کے آشیرواد سے اقتدار پر فائز رہے ۔ انہوں نے آنکھ موند کر مرکز کے ہر حکم کی تابعداری کرتے ہوئے سماج کے تمام طبقات کو ناراض کردیا۔ ریاست کی سیاست میں جاٹوں کا بول بالا ہے۔ وہ لوگ نہ صرف زراعت پر چھائے ہوئے ہیں بلکہ فوج فوج کے اندر بھی بڑی تعداد میں بھرتی ہوتے ہیں ۔دنیا بھر میں پہلوانی کرکے ملک کا نام روشن کرنے میں بھی وہ پیش پیش ہیں۔ مودی سرکار نے پہلے تو متنازع قانون بناکر کسانوں کو اور اگنی ویر کی اسکیم رائج کرکے جوانوں کو ناراض کردیا ۔ رہی سہی کسر عالمی شہرت یافتہ پہلوانوں کے احتجاج کو کچل کر پوری کردی ۔ اس دوران کانگریس نے جاٹ رہنما بھوپندر سنگھ ہُڈا کو وزیر اعلیٰ کا امیدوا ر بناکر ماسٹر اسٹروک کھیل دیا ۔ مندرجہ بالاوجوہات کی بناء پر منوہر لال کھٹر جیسے غیر مقبول رہنما کو اقتدار سے محروم کرکے عوام کی ناراضی کم کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ کام بھی بی جے پی نے ٹھیک سے نہیں کیا ۔
وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے بعد اگر ان کو گمنامی کی تاریکی میں ڈھکیل دیا جاتا تو عوام سوچتے انہیں سزا دی گئی مگر ان کونہ صرف رکن پارلیمان بلکہ مرکزی وزیر بنا دیا گیا ۔ یہ کسانوں کو زخم پر زخم دینے والی حرکت تھی۔ اعلیٰ کمان نے نئے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی کو اس قدر کم اہمیت دی کہ انہیں خود نہیں معلوم تھا کہ وہ کس حلقے سے انتخاب لڑ یں گے یعنی اقتدار سے ہٹانے کے باوجود پردے کے پیچھے سے سابق وزیر اعلیٰ ہی کی مرضی چلتی رہی ۔ اس حوصلہ افزائی کے نتیجے میں منوہر لال کھٹر نے کسانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے انبالہ میں اپنے کارکنا ن سے کہہ دیا کہ ’’ ہریانہ پنجاب کی سرحد پر جولوگ اس پار بیٹھے ہیں وہ کسان نہیں بلکہ ان کے نام پر مکھوٹا پہنے چند لوگ ہیں اور وہ نظام درہم برہم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔اصلی اور جعلی کا فرق کسان خوب جانتا ہے۔ وہ اپنے خیروخواہ ا ور بدخواہ کو پہچانتا ہے۔ پچھلے پارلیمانی انتخاب میں ہریانہ کے اندر بی جے پی کو دس سے پانچ پر پہنچا کر سبق سکھایا جا چکاہے۔ کسانوں کو سرحدوں میں تقسیم کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے درمیان صوبائی بارڈر تو دور ملکی سرحد بھی حائل نہیں ہوتی ۔ مشرقی پنجاب کا کسان کو سرحد پار پاکستانی کسانوں کو بھی اپنا دوست اور کھٹر جیسے لوگوں کو دشمن سمجھتا ہے۔
منوہر لال کھٹر یہ بھول گئے کہ پنجاب کا راستہ بند کرنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی کسانوں کی ناراضی کے سبب انہیں اپنا عہدہ گنوانا پڑا ۔ انہوں نے ہائی کمان کی ہدایت پر سرحد تو بند کردی مگر اس کے لیے وزیر اعظم کو موردِ الزام ٹھہرانے کی جرأت نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ بارڈر بند ہونے سے انبالہ کے لوگوں کو ہونے والی پریشانی کا یہ جواز پیش کردیا کہ مظاہرین ان کی مستحکم حکومت کو گرانا چاہتے تھے ۔ اس لیے شمبھو بارڈر پر کیل کانٹے بچھائے گئے ۔ اس حماقت کی وجہ سے انبالہ میں کسانوں کےعلاوہ بی جے پی کا کٹر حامی اورکھٹر کی اپنی برادری سے تعلق رکھنے والا تاجرطبقہ بھی بے شمار پریشانیوں میں مبتلا ہو گیا۔ ان سرمایہ داروں کو منانے کے چکر میں کھٹر نےکسانوں کو مزید ناراض کردیا۔ ان کا خیال ہے کہ پنجاب کے سکھ کسانوں کو ریاست میں قدم نہیں رکھنے سے روکنے کے سبب ہریانہ کے لوگ خوش ہیں ۔
کھٹر کا یہ دعویٰ اگر درست ہوتا تو ان کو صفائی نہیں پیش کرنی پڑتی ۔ ان سے استعفیٰ لے کر ہٹایا نہیں جاتا بلکہ انہیں کی قیادت میں ریاستی الیکشن لڑاجاتا ، نہ بی جے پی نشستیں نصف ہو جاتیں اور بی جے پی ہار کی کگار نہیں کھڑی ہوتی۔ منوہر لال کھٹر اب سپریم کورٹ کے پالے میں گیند ڈال کر اس سےامیدیں وابستہ کررہے ہیں۔ وہ عوام سے کہہ رہے ہیں کہ بہت جلد عدالتِ عظمی اس مسئلہ کو حل کردے گی۔ سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں کون گیا اور کیوں گیا؟ ہریانہ اور پنجاب کے درمیان ہندپاک سرحد سے زیادہ پختہ رکاوٹیں ڈال کر عوام کو تقسیم کرنے والی بی جے پی کی بزدل سرکار کے خلاف ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ شمبھو بارڈر پر لگائے گئے کیل کانٹے ہٹا دئیے جائیں۔ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی مخالفت میں ہریانہ کی کھٹر سرکار نے عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کیا یعنی وہ چاہتی ہے کہ یہ رکاوٹ اور ان کے سبب پیدا ہونے والی مشکلات جاری و ساری رہیں۔ ہریانہ کے لوگ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں اس لیے سابق وزیر اعلیٰ کا عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا کسی کام نہیں آئے گا ۔
منوہر لال کھٹر نے پچھلے دس سالوں کے اندر کسانوں اور جاٹوں میں اپنی شبیہ اس قدر خراب کرلی ہے کہ وہ ان کے درمیان انتخابی مہم چلانے کی خاطر جانے کی ہمت ہی نہیں کرسکتے اسی لیے انبالہ پہنچ گئے جہاں پچھلے ۶؍ مرتبہ سے انل وِ ج کامیاب ہو رہے ہیں یعنی تیس سالوں سے بی جے پی کا دبدبہ قائم ہے۔ اس بار بھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے انہیں قسمت آزمائی کا موقع دیا ہے مگر حالات قدرے بدلے ہوئے ہیں۔ پہلے انل وِ ج کامیاب ہوتے تھے تو بی جے پی ہار جاتی تھی لیکن دس سال قبل پہلے منظر پلٹ گیا اور بی جے پی اقتدار میں آ گئی۔ اس وقت ’ہر ہر مودی گھر گھرمودی‘ کا ماحول تھا ۔ انہوں نے غیر روایتی طور منوہر لال کھٹر کو وزیر اعلیٰ بنا دیا توکسی میں اعتراض کی یہ ہمت نہیں ہوئی ۔ پانچ سال بعد منوہر لال کھٹر نے اکثریت گنوادی تو جے جے پی کے دشینت چوٹالا کے ساتھ حکومت سازی کرنی پڑی۔ اس وقت دشینت کے ساتھ کانگریس بھی اقتدار میں آسکتی تھی اس لیے دباو کے اندر انل وِج سمیت سب نے خاموشی سے جو ملا اسے لے لیا ۔
کسان تحریک کے سبب ہریانہ میں عوامی ناراضی کے سبب پارلیمانی انتخاب سے قبل بی جے پی نے منوہر لال کھٹر کو ہٹا کر پارلیمانی الیکشن لڑا یا ۔ وہ پہلا موقع تھا جب دریدہ دہن انل وج کے دل میں وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش پیدا ہوئی لیکن ہائی کمان نے پسماندہ رائے دہندگان کی ناز برداری کے لیے نائب سنگھ سینی پر داوں لگایا ۔ اس فیصلے سے ناراض ہوکر انِل وِج نے واک آوٹ کر کے اپنی ناراضی جتائی تھی۔حالیہ صوبائی الیکشن سے قبل ایک پریس کانفرنس میں انِل وِج نے کہہ دیا کہ ، "میں سب سے سینئر لیڈر ہوں۔ میں اپنی سنیارٹی کی بنیاد پر وزیراعلیٰ بننے کا دعویٰ پیش کروں گا۔ پارٹی مجھے بناتی ہے یا نہیں یہ اس کا فیصلہ ہوگا‘‘۔ بی جے پی رہنماوں کے دل سے چونکہ ہائی کمان کا ڈر نکل چکا ہے اس لیے اب وہ اپنے دلی جذبات کا کھلے عام اظہار کرنے لگے ہیں۔ انل وِج سے پہلے گروگرام کے رکن پارلیمان اور مرکزی وزیر راؤ اندرجیت سنگھ بھی اپنا دعویٰ پیش کرچکے ہیں ۔ انل وج کا دعویٰ ہے کہ اگر ان کو موقعہ دیا گیا وہ ریاست کو مکمل طور پر تبدیل کردیں گے لیکن انہیں موقع دینا یا نہ دینا یہ پارٹی قیادت کا استحقاق ہے اس کے باوجود وہ اپنا دعویٰ پیش کریں گے۔
انل وِج بہت غلط وقت میں موقع مانگ رہے ہیں کیونکہ امسال 29 جون کو مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پنچکولہ میں ہریانہ اسمبلی انتخابات نائب سنگھ سینی کے چہرے پر لڑنے کا اعلان کیاتھا۔ ویسے کئی سینئر لیڈروں سینی کی نامزدگی پر ناراضگی ظاہر کرچکے ہیں۔ دو ملا کے بیچ میں مرغی حرام ہوجاتی ہےیہاں تو تین دعویدار وں میں رسہ کشی ہے۔ اس آپسی سر پھٹول کےسبب نہ انتخاب میں کامیابی ملے گی اور نہ موقع ، یعنی نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔ ہریانہ میں جاٹوں کے بعد سب سے بڑی تعداد دلت رائے دہندگان کی ہے۔ ان کو رجھانے کی خاطر پہلے بھوپندر سنگھ ہُڈا اور شیلجا کماری میں لڑائی لگانے کی کوشش کی گئی بلکہ ان کے بی جے پی میں شامل ہونے کی افواہ بھی اڑا دی گئی ۔
شیلجا نے اپنے انٹرویو میں یہ کہہ کر ساری افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ والد کی مانند ان کی بھی لاش کانگریس کے پرچم میں لپٹ کر دنیا سے جائے گی۔ اس کے بعد راہل گاندھی نے اپنے اسٹیج پر شیلجا کے ساتھ ہُڈا کو جمع کرکے تمام قیاس آرائیوں کو ختم کردیا ۔ شیلجا اور ہُڈا تو ساتھ آگئے مگر کھٹر کو مودی جی اپنے اسٹیج پر نہیں لاسکے جس شخص کی بدعنوانی نے ہریانہ کو بیروزگاری میں سرِ فہرست پہنچا دیا ہے اس کو ساتھ لینا اپنے آپ کوسیاست کی دنیا میں بیرزگار کرنے جیسا ہے۔ پارلیمانی انتخاب کے بعد ہریانہ صوبائی سطح پر برانڈ مودی ناکام ہورہا ہے اور اس ناکامی سے بی جے پی کے صوبائی سطح پر شکست کا جو آغاز ہوگا وہ گجرات کی ناکامی پر ختم ہوگا۔ ہریانہ میں گودی میڈیا بھی بی جے پی کی کامیابی کے اعلان سے کترا رہا ہے اس کے باوجود بھی اگر کوئی چمتکار ہوجائے تو کیا کہا جاسکتا ہے؟
Comments are closed.