خود ساختہ قائد ملت کے ذریعہ مسلمانوں کی سودا بازی اور اکابرین کی خاموشی: ایک لمحۂ فکریہ

ساجد حسن رحمانی
ریسرچ اسکالر : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ
ہندوستان میں جس طرح میدان سیاست میں وراثت کا نظام قائم ودائم ہے ، اسی طرح دینی مدارس اور ملی تنظیموں میں بھی وراثت کا مکمل غلبہ ہے ، اگر کسی تنظیم یا مدرسہ کو کوئی عالم یا غیر عالم عام مسلمانوں کے خون وپسینہ کی کمائی اللہ کے نام پر لے کر قائم کرتاہے یا پہلے سے قائم شدہ اداروں کو سینجتا اور پروان چڑھاتا ہے تو وہ خود بھی اور اس کی نااہل اولاد بھی اس تنظیم یا مدرسہ کو موروثی جائیداد سمجھ بیٹھتے ہیں اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ محنت تو ہماری ہے ، لیکن پیسہ عوام الناس کے خون وپسینہ کی کمائی ہے ، اور اس طرح بہت سے دینی وملی اداروں کے بانیان اپنی زندگی ہی میں اپنے نور نظر کو اس ادارہ کی مسند صدارت پر قبضہ دلادیتے ہیں اور اگر کسی ادارہ کابانی اپنی شرافت اور پرہیزگاری پر آنچ آنے کے خوف سے اپنی زندگی میں اپنے فرزند کو مسند صدارت پر فائز نہیں کرپاتا ہے تو وہ اس کے لیے ایک ٹھوس اور منظم راہ ہموار کرکے اس عالم فانی سے عالم جاودانی کو سدھار تاہے، تاکہ اس کی وفات کے بعد بآسانی اس کا لخت جگر منصب اہتمام پر فائز ہوجائے اور پھر اس کا لخت جگر خود کو حاکم بااختیار سمجھ کر اس ادارہ میں پہلے سے کام کرنے والے افراد پر حکومت کرتاہے اور بیچارے ملازمین کوئی راہ دیگر نہ ہونے کی وجہ سے نہ خواہی کے باوجود اس کی تملق و چاپلوسی کرتے اور اس کے ظلم وستم اور ذہنی استحصال کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ، نیز تنظیم کا وہ وراثت یافتہ نااہل ذمہ دار بھی چند دنیوی مفاد کی خاطر اپنی عیاری و مکاری سے حکومت کی نظر میں خود کو مسلمانوں کا بحیثیتِ قائد پیش کرنے میں بھی کامیاب ہوجاتاہے اور اس طرح حکومت بھی یہ یقین کر بیٹھتی ہے کہ فرزندانِ اسلام اس کی باتوں کو اپنا جزو ایمان سمجھ کر ان پر مر مٹنے کو تیار ہوجائیں گے اور اس نا اہل قائد کے خلاف ایک حرف بھی بولنے کو حرام سمجھیں گے ، اس لیے حکومت ایسے نااہلوں کی خوب عزت واحترام کرتی ہے ، اور پھر ان سے مذموم اور ناقابلِ برداشت و معافی قول وفعل کا ارتکاب کرواتی ہے –
ابھی حال ہی میں خود ساختہ قائد ملت مولانا محمود مدنی صاحب کو ایک گودی میڈیا کا اینکر بلاکر ان کا انٹرویو لیتا ہے اور پھر وہ مسکرا مسکرا کر اس سے اویسی صاحب کے خلاف الٹی سیدھی باتیں دل کھول کر کرتے ہیں ، نیز بات یہیں پر نہیں رکتی ہے ؛ بلکہ رفتہ رفتہ بات مسلمانوں کے وجود سے کھیلنے والے قانون *این آر سی* تک پہنچ جاتی ہے ( یہ وہی قانون ہے ، جس کے خلاف چار / پانچ سال قبل پورے ہندوستان میں احتجاجات منعقد کیے گئے تھے اور بہت سے مسلمانوں نے اپنی جان گنوائی تھی ، عورتیں اپنے گھر بار کو چھوڑ کر کئی مہینے بشمول دسمبر اور جنوری کی سردی اور سردی کی بارش میں بھی مظاہرہ گاہ میں بیٹھنے پر مجبور ہوئی تھیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ وطالبات نے پولیس کی لاٹھیاں کھائی تھیں اور اپنے اوپر چھوڑے جانے والے آنسو گیس کی پریشانیوں کو جھیلا تھا )
*اور مولانا محمود مدنی صاحب برملا کہتے ہیں کہ این آر سی نافذ ہونا چاہیے ، جمعیۃ علماء ہند کا موقف یہی ہے اور جمعیۃ علماء ہند اس قانون کے نفاذ کا حکومت سے مطالبہ کرتی ہے*
اب آپ ہی بتائیں کہ چند دنیوی مفاد کی خاطر جو ہمارے وجود سے کھیلے وہ ہمارا دشمن ہے یا ہمارا قائد ؟ کیا مسلم عوام جمعیۃ علماء ہند کو خون وپسینہ کی کمائی سے چندہ اسی لیے دیتی ہے کہ ان پیسوں سے ان کے وجود کو خطرہ میں ڈالنے کے لیے ایک منظم لائحہ عمل تیار کیا جائے ، جو لوگ بھی مولانا محمود مدنی صاحب کی جمعیۃ سے منسلک ہیں یا ان کا کسی بھی طرح تعاون کررہے ہیں ، انہیں مذکورہ بالا سوالات پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ، اور خود ساختہ قائد مولانا محمود مدنی صاحب سے ہندوستان کا مسلمان یہ تاکیدا کہہ رہاہے کہ آپ براہ مہربانی آئندہ مسلمانوں کی سودا بازی ہرگز ہرگز نہ کریں ، اگر آپ کو *این آر سی* کا قانون صحیح لگتاہے تو اس قانون کو اپنے اہل خانہ پر لاگو کروالیجیے ، لیکن ہندوستانی مسلمان اس قانون کی حمایت میں نہ کل تھا ، نہ آج ہے اور نہ ہی مستقبل میں رہے گا ؛ کیوں کہ یہ سیاہ قانون ہمارے وجود سے کھیلنے والا قانون ہے –
مولانا محمود مدنی صاحب کے اس بیان سے عوام میں تو غم وغصہ کا اظہار دیکھنے کو ملا ، لیکن جو اکابرین اور دانشورانِ قوم وملت ہیں وہ ساکت و صامت ہیں سوائے دو چار کو چھوڑکر – کیا ہمارے اکابرین اور دانشورانِ قوم وملت مولانا محمود مدنی صاحب کے اس مذمتی بیان کے خلاف یہ سوچ کر نہیں بول رہے ہیں کہ اگر خاموش رہیں گے تو مستقبل میں محمود مدنی کے جمعیۃ میں کوئی عہدہ مل جائے گا؟؟ یا ان کی بزدلی ان کے لیے مانع بن رہی ہے ؟ یا وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر رد عمل کا اظہار کردیا تو فی الوقت ہم جس عہدہ یا منصب پر ہیں ، اس پر رہنا مشکل ہوجائے گا ؟؟ خیر ! اکابرین اور دانشوروں کی خاموشی کی جو بھی وجہ ہو ؛ لیکن ان کی خاموشی باالکل بھی مناسب نہیں ہے ، انہیں تو میدان میں نکل کر مولانا محمود مدنی کا اس وقت تک مکمل طورپر بائیکاٹ کردینے کا اعلان کردینا چاہیے ، جب تک وہ اپنے قول سے رجوع نہ کرلیں اور معافی نہ مانگ لیں ، جس طرح ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکمل بائیکاٹ کو اس وقت تک برقرار رکھا گیا تھا جب تک کہ قرآن مجید نے ان کی توبہ کی قبولیت کی بشارت نہ سنادی – تاکہ مستقبل میں پھر کوئی دوسرا محمود مدنی چند دنیوی مفاد کی خاطر حکومت کے ہاتھوں مسلمانوں کی سودا بازی کرنے کی ہرگز ہرگز جرأت نہ کرسکے –
(*نوٹ*: *امید ہے کہ میری اس تحریر کو آپ بے جا عقیدت سے خود کو خالی کر کے سنجیدگی سے پڑھیں گے* )
Comments are closed.