شہید حسن نصراللہ: ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ

 

ڈاکٹر سلیم خان

شہید حسن نصرا اللہ نے  بھی شہید اسماعیل ہنیہ کے بعد جام شہادت نوش فرما لیا ۔اس موقع پر 1992 کا ایک بیان یاد آتا ہے  جس میں حسن نصراللہ نے اپنے پیش رو کی شہادت پر کہا تھا کہ ’ہمارے سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی کوشہید کر کے انہوں نے ہماری مزاحمتی روح کو قتل کرنا چاہا۔ لیکن ان  کا خون ہماری رگوں میں ابلتا رہے گا، ہمارے عزم کو مضبوط کرے گا اور ان کے راستے پر چلنے کے لیے ہمارے جوش کو تیز کرے گا‘۔ ۲۲؍ سال   قبل شہید موسوی کی شہادت نے جو ولولہ پیدا کیا تھا وہی حسن نصرا اللہ کی شہادت کے نتیجے میں بھی جنم لےگا ۔ اس سے مجاہدین اسلام کا عزم و حوصلے میں اضافہ  ہو گا ۔حسن نصرا اللہ نے یہ بھی کہا تھا کہ’لوگ مر جاتے ہیں لیکن ان کا نظریہ زندہ رہتا ہے۔ حزب اللہ فاتح ہے۔‘ یقیناً شہیدحسن نصرا اللہ کی رحلت کے بعد بھی باذن اللہ تعالیٰ  اسرائیل کے خلاف  حزب اللہ کی فتح و کامرانی  کا سلسلہ جاری و ساری رہے گا ۔

شہیدحسن نصرا اللہ پر حملے سے  چار دن قبل ( 24ستمبر) کو جنوبی اور مشرقی لبنان پر بھاری بمباری کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا  کہ ہر کسی کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد اپنے آخری ایکس پیغام میں موصوف  نے اپنے مجاہدین کو خطاب کرکے کہا ’ہوسکتا ہے میں زیادہ عرصے آپ کے درمیان نہ رہوں، طریقہ کار طے کردیا گیا ہے چاہے ہم سب ختم ہوجائیں جدوجہد ختم نہیں ہوگی، چاہے ہمارے گھرتباہ ہوجائیں ہم مزاحمت کرنا نہیں چھوڑیں گے‘۔ ایسا دلیر قائد  جب جام شہادت نوش کرتا ہے تو اس کے پیروکار جذبۂ  شہادت سے سرشار ہوجاتے ہیں اور حزب اللہ  کے ایکس ہینڈل سے یہ پیغام  نشر ہوتا ہے ’  مایوسی اور شکست کا احساس نہ کرو۔ ہم ابا عبد اللہ کی اولاد ہیں! شہید سید حسن نے نوجوانوں کی ایک عمدہ نسل تیار کی ہے، ہم ان کے راستے کو جاری رکھیں گے۔ مزاحمت جاری  رہے گی!‘۔

حزب اللہ نےیہ بھی  کہا کہ دشمن کا مقابلہ ، غزہ و فلسطین کی حمایت، لبنان کے دفاع میں تنظیم کی قیادت  اپنا جہاد جاری رکھے گی۔حسن نصرا اللہ کو شہید کر کے طاقت کا توازن  بگاڑنے کی خواہش کرنے والے نیتن یاہو کو چاہیے کہ وہ حزب اللہ کے نائب سربراہ نعیم قاسم کا  بیان  سن کر اپنی خوش فہمی دور کرلے۔ المنار ٹی وی پر موصوف  نے ببانگ دہل کہا  کہ اگر اسرائیل لبنان میں زمینی کارروائی کرنے کا خواہاں ہے تو حزب اللہ اس کے مقابلے کے لیے تیار ہے۔اسرائیلی دشمن اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا۔ نعیم قاسم نے یاد دلایا کہ ’ جس طرح  ہم  2006 میں اسرائیل کے بالمقابل فتح یاب ہوئے تھے ویسے ہی پھر سے کامیاب ہوں گے۔ اس وقت  اسرائیل کو ناقابلِ تسخیر سمجھ لیا گیا تھا مگر حسن نصرا اللہ نے اسے کو ناکوں چنے چبودئیے اور وہ24؍ سال کے بعد ذلیل و خوار ہوکر لبنان سے  قبضہ چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا ۔  شہید حسن نصرا اللہ کے اس کارنامہ کو انسانی تاریخ کبھی بھی بھلا نہیں سکے گی ۔ امام کعبہ نے بھی اپنے خطبۂ جمعہ میں   اسے  سراہا تھا۔

حزب اللہ کے نائب سربراہ نعیم قاسم نے  اپنے خطاب کے آغاز تعزیت سے کیا اور بولے ’حسن نصراللہ ایماندار آدمی تھے، وہ جہاد اور فلسطین کے حامی تھے، ان کا پیغمبر اسلام پرکامل  ایمان  تھا، وہ ان سے محبت کرتے تھے نیز آزادی اور فلسطین سے  بھی محبت کرتے تھے۔‘ اس کے ساتھ قاسم نے عزم  کیا کہ  ’ہم مضبوط ہیں اور ہم اسرائیل کے اس خواب کو پورا نہیں ہونے دیں کہ وہ ہمیں نشانہ بنائے۔ کیوں کہ ہم قربانی سے نہیں ڈرتے۔‘ حماس نے  بھی شہید حسن نصراللہ پر اسرائیلی حملے کی مذمت میں کہا ہےکہ ’ہم اس وحشیانہ صہیونی جارحیت اور رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنانے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ہم اسے بزدلانہ دہشت گرد کارروائی قرار دیتے ہیں اور شہید حسن نصراللہ کی موت پر حزب اللہ اور لبنان میں اسلامی مزاحمت کے بھائیوں کے ساتھ تعزیت اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں‘۔ ان دوطرفہ بیانات میں   حماس اور  حزب اللہ کے درمیان فکر و عمل کی زبردست ہم آہنگی کا  اظہار موجود ہے۔

 دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مجاہدین اسلام کے علاوہ دیگر انصاف پسند لوگوں نے بھی اپنے اپنے انداز میں شہید حسن نصراللہ کی تئیں عقیدت کے پھول نچھاور کیے  لیکن ان کی شہادت کو اسرائیلی وزیر اعظم نے تاریخی موڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’حسن نصراللہ کا قتل خطے میں طاقت کا توازن بدلنے کے لیے ضروری تھا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے  کہ حسن نصرا اللہ خطے میں اسرائیل اور امریکہ کے قائم کردہ  طاقت کے تواز ن کو بگاڑ رہے تھے ، اس لیے انہیں  شہید کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔  یاہو کا دعویٰ ہے کہ  اسرائیل نے بدلہ لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسرائیل انتقام لے سکتا ہے تو حماس کیوں نہیں ؟ اس نے جب ۷؍ اکتوبر کو صہیونیوں سے بدلہ لیا تو وہ دہشت گردی کیونکر قرار پائی؟ یاہو کہتا ہے کہ ’ جو آپ کو مارنے کے لیے کھڑا ہو، پہل کرکے اسے مار ڈالو‘۔ یہی تو حماس نے کیا تو اس پر سال بھر سے ہائے ماتم کیوں کیا جارہا ہے؟

۷؍ اکتوبر کے بعد جب اسرائیل نے بے قصور شہریوں پر بے دریغ بمباری شروع کی تو اس کے جواب میں حزب اللہ اسی وقت  سرگرم عمل ہوگئی اور شہید حسن نصرا اللہ میدانِ عمل میں آگئے لیکن اسرائیل نے حملے میں  قدر تاخیر کیوں کی ؟ دراصل پچھلے سال نیتن یاہو نے جن اہداف کا اعلان کیا تھا اس میں  سب سے پہلے اپنے یرغمالیوں کو بزورِ قوت چھڑانا تھا ۔ اس میں وہ پوری طرح ناکام رہا ۔ بات چیت کی مدد سے تو  کچھ چھوٹےمگر اسرائیلی فوج کسی کو چھڑا نہیں سکی۔  اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے باوجود حماس کے صفایہ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا   بلکہ وہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگئی ۔ اسرائیل کو توقع تھی کہ بمباری سے گھبرا کر فلسطینی غزہ چھوڑدیں گے لیکن  کسی کے من میں  غزہ چھوڑنے کا خیال تک نہیں آیا۔  ان تمام ناکامیوں کے تناظر میں ۷؍ اکتوبر کو متوقع  صہیونی احتجاج کو بے اثر کرنے کے لیے ایک  بڑی خبر درکار تھی اور اس کی خاطر حسن نصرا اللہ کو شہید کرکے اپنی پیٹھ تھتھپانے کی کوشش کی گئی ۔

حماس کے ساتھ جنگ جاری رکھنا نیتن یاہو کی سیاسی ضرورت ہے اس لیے کہ   امن کی حالت میں اقتدار سے محروم ہوکراس کا جیل جانا لازمی ہے۔ جنگ جاری رکھنے کے لیے امریکہ کا اسلحہ ، دولت اور دیگر سفارتی حمایت  کافی نہیں ہے ۔ اس کے لیے ایران کو اکسانے کی بار ہا کوشش کی گئی تاکہ وہ  حملہ ہوتے ہی امریکہ کے آگے ہاتھ پیر جوڑ کر  فوجی منگوائے جائیں ۔ امریکی نشریاتی ادارے بلومبرگ کے مطابق ایران اب ہزاروں جنگجوؤں کو لبنان اور شام کے سرحدی علاقوں میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں امریکہ  نے مشرق وسطیٰ میں اپنی فوج بھیجنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس حوالے سے وزیردفاع لائیڈ اسٹن نے اعتراف  کیا کہ امریکہ خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ  کی خاطراقدامات کررہا ہے۔ پینٹاگون ترجمان میجر جنرل پیٹرک رائیڈر نے خطے میں تعیناتی کے لیے فوج کو  ہائی الرٹ پر رکھنے کی تصدیق کردی۔ یہ کمال منافقت ہے کہ صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ میں ہر قیمت پر  جنگ کو روکنے پر زور دیتے  ہیں ا ور نیتن یاہو لبنان پر حملے جاری رکھنے کا اعلان کرتا ہے۔

16 فروری  1992 سے پہلے دنیا سید حسن نصرا للہ کے نام سے واقف  نہیں تھی ۔صیہونیوں  کے ہوائی حملے میں جب  حزب اللہ کے سربراہ  سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد 32 سالہ حسن نصراللہ  کو تنظیم  کے سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا ۔ ان کے  دور میں حزب اللہ نے اپنی عسکری صلاحیتوں میں زبردست  اضافہ کیا اور صیہونی حکومت کے خلاف ایک بے مثال آپریشن کی بدولت سن 2000 میں جنوبی لبنان سے صیہونی حکومت کے انخلاء شروع ہوا ۔ شہید سید حسن نصر اللہ کو دوسری بڑی کامیابی   جولائی 2006 کی 33 روزہ جنگ میں ملی تھی ۔  اس  میں  صیہونی حکومت کو بہت زیادہ نقصان ہوا  اور اسرائیل  جنوبی لبنان سے  مکمل انخلاء پر  مجبور کر دیا گیا ۔ اس کے بعد  وہ  صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی مزاحمت کی علامت بن  گئے۔

شہیدحسن  نصراللہ کی قیادت میں 7؍ اکتوبر 2023 کو طوفان الاقصی آپریشن کے حزب اللہ شامل ہوگئی۔  اسرائیل کے خلاف  مزاحمت کے ساتھ حماس  کی  حمایت اور یکجہتی آخری سانس تک جاری رہی یہاں تک کہ  27 ستمبر 2024 بروز جمعہ کو بیروت کے جنوبی مضافات میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر پر صیہونی فضائی حملے میں موصوف  شہید ہو گئے۔شہید حسن نصرا اللہ نے اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کی مانند ۸؍ سال کوما کی حالت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے بجائے شیر کی مانند میدانِ جنگ میں جامِ شہادت نوش کیا تو بے ساختہ فیض احمد فیض کا یہ شعر یاد آگیا ؎

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا،وہ شان سلامت رہتی ہے        یہ جان تو آنی جانی ہے،اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

 

 

Comments are closed.