ناموسِ رسالت ﷺ اور ہماری ذمہ داریاں

ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی
چیف ایڈیٹر: ہفت روزہ ”آب حیات“ بھوپال، ایم پی
9826268925
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں. لہٰذا وہی سب سے زیادہ قریب بھی ہیں یہاں تک کہ جان سے بھی زیادہ قریب، حقدار اور ولی بھی ہیں۔
بدین اور بد زبان یتی نرسنگھانند نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جو گستاخانہ کلمات کہے ہیں وہ قطعاً ناقابل برداشت ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے بد دہن اور بد زبان شخص کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔
شرعی وفقہی طور پر ایسے گستاخ رسول کی وہی سزا ہے جو مرتد کی سزا ہے، عہد رسالت میں یہ سزا جن ملعونوں پر نافذ کی گئی، احادیث، سیرت النبی اور فقہی کتابوں میں اس کی مکمل تفصیل مذکور ہے ، اس موضوع پر شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کی الصارم المسلول اور قاضی عیاض کی الشفاء بتعریف حقوق المصطفی میں مفصل کلام موجود ہے؛ لیکن موجودہ حالات میں اقلیتی ودیگر جمہوری ممالک میں چونکہ ان سزاؤں کی تعمیل کروانے میں مشکلات ہیں اس لیے سردست عملی وفکری طور بھی ایسے افراد اور ایسی ذہنیت کا تعاقب کیا جائے،( اگر ایسے ملعون کی بات پہلے مشتہر ہوچکی ہو،،) اگر ان کے ہفوات پہلے سے مشتہر نہ ہو تو ایسے آڈیو، ویڈیو اور گستاخانہ تحریروں اور خاکوں کی تشہیر وترویج سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے.
ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا اہل ایمان کی کامیابی کی ضمانت ہے.. یہ ضمانت خود اللہ رب العالمین نے دی ہے۔سورہ اعراف:۱۵۷ میں ہے:
ترجمہ :تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔
مسلمان عملی اعتبار سے خواہ کتنے بھی گئے گزرے کیوں نہ ہوں لیکن اپنے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شان میں کسی طرح کی گستاخی ہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔ یقیناً مسلمانوں نے دولت، عظمت، وجاہت، شوکت و سطوت اور اقتدار و حکومت سب کچھ کھودی ہے مگر اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب تک ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمانوں کے دلوں کے اندر رسول اللہ ﷺ کی عقیدت و محبت اسی طرح زندہ و پائندہ ہے، جس طرح ماضی میں تھا اس لیے مسلمان اپنى جان تو دے سكتے ہیں، لیکن حضور ﷺ کی شان میں گستاخی اور دریدہ دہنی ہرگز برداشت نہیں کرسکتے۔
پوری دنیا کے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ کائنات میں اللہ رب العزت کے بعد سب سی اعلیٰ اور مبارک ہستی حضور ﷺ کی ہے ان سے محبت و عقیدت مسلمانوں کےایمان کا جزو ہے کوئی بھی مسلمان اس وقت تک کامل مؤمن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کے دل میں اس کے والدین، بال بچوں اور تمام لوگوں سے زیادہ حضور ﷺ کی محبت نہ ہوجائے یعنی محبت رسول ﷺ ایمان واسلام کی علامت اور نشانی ہے۔
آج دشمنان اسلام مسلمانوں کے قومی وجود و شعور، تشخص اورشعار کو مٹانے کے لیے عالمی سطح پر اپنی بے پناہ مادی نظریاتی اور ایجادی قوتوں کو کام میں لارہے ہیں تاکہ کسی طرح مسلمانوں کا مذہب اسلام اور حضور ﷺ سے اطاعت و پیروی، محبت وعقیدت اور غلامی کا رشتہ مخدوش اور کمزور پڑ جائے اور مسلمان بھی دیگر قوموں کی طرح محمد ﷺ کو مجسم خدا، دیوتا، اوتار یا انسان کے بھیس میں خدا اور فرشتہ سمجھنے لگے؟
دشمنانِ اسلام کا حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی وجہ؟
دشمنانِ اسلام حضور اکرم ﷺ کی شان مبارک میں اس طرح کے گستاخانہ بیانات کوئی دیوالیہ پن، اسلامی اصولوں اور اسلامی قوانین سے عدم واقفیت اور لاشعوری کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پس پشت صہیونی اور اسلام دشمنوں کی بہت ہی منظم اور گہری سازش ہوتی ہے۔ سطحی طور پر تو اہانت رسول والے بیانات کا مقصد مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور سیاسی فائدہ اٹھانا ہوتا ہے؛ کیوں کہ ایسا کرنےوالےجانتےہیں کہ گستاخانہ بیانات دینے یا اس موضوع پر کتاب لکھنے سے مسلمان اشتعال میں آئیں گے، احتجاج و مظاہرے کریں گے، میڈیا میں خبریں آئیں گی اور وہ رات و رات شہرت کے آسمان تک پہنچ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی اور بےادبی جیسے اشتعال انگریز بیانات انٹرنیٹ پر بہت موجود ہے اور دن بدن اس ذخیرے میں اضافہ ہو رہا ہے، کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اکھل بھارتیہ ہندو سماج پارٹی اور اس کے کار گزار صدر کملیش تیواری کو کون جانتا تھا؛ لیکن ہم لوگوں نے ان اشتعال انگیز اور اہانت آمیز بیانات کو شیئر کرکے اسں ناپاک اور گستاخ رسول اور اس کی تنظیم کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
ایسے نازک وقت میں مسلمانوں کی عقل و شعور کا بھی امتحان ہوتا ہے کہ وہ ایسے عناصر کے مقاصد کو سمجھتے ہیں یا نہیں۔ دوسری بات حضور اقدس ﷺ کی شان اقدس میں اس طرح کے شرمناک اور شر انگیز بیانات کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے، بلکہ ایسی سازشوں کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد سے لے کر اب تک جاری ہے، اسی بات کو قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کہا ہے: "اور البتہ ضرور بالضرور آپ سنیں گے اہل کتاب سے اور مشرکین سے بہت بدگوئی”
جس طرح مدینہ منورہ میں یہود حضور اکرم ﷺ کی شان اقدس میں دریدہ دہنی، گالی گلوچ اور آپ ﷺ کی معصوم اور پاک ذات کی ہجو میں اشعار کہہ کر آپ ﷺ کو مطعون کرتے تھے، ٹھیک اسی طرح ہر زمانے میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین اپنے آبا و اجداد کی پیروی کرتے ہوئے حضور اکرم ﷺ کے تعلق سے مسلمانوں کی دل شکنی کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ کبھی ناموس رسالت پر حملہ بول کر کبھی آپ ﷺ کی توہین آمیز کارٹون کی اشاعت کر کے تو کبھی آپ پر فلم بنا کر، دراصل اس کے پس پشت ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا بھی حضور اکرم ﷺ کے متعلق وہی نظریہ ہو جائے جو ہمارا ہے؛ کیوں کہ مسلمانوں کا اپنے نبی و رسول کے متعلق جو نظریہ ہے وہ نہایت معتدل اور افراط وتفریط سے پاک ہے، مسلمانوں کے لئے نبی و رسول اپنی مافوق البشری خصوصیات کی وجہ سے فوق البشر اور کائنات کی بہترین مخلوق تو ہوتے ہیں؛ لیکن ان کی شرکت خدا کی خدائی میں نہیں ہوتی، نبی و رسول اپنی معصومیت اور دیگر مقدس خصوصیات کے باوجود خدا کا بندہ ہوتا ہے، ان پر اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت لازم ہوتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت عام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ مسلمان اپنے رسول کو خدا کا برگزیدہ بندہ معصوم نیک اور خدا کی قدرت سے فیض پاکر برکتوں، سعادتوں اور ہدایتوں کا مرکز اور اللہ رب العزت کی اجازت سے عجیب وغریب امور صادر کرنے والا تو سمجھتا ہے؛ لیکن خدا یا خدا کا اوتار اور دیوتا یا فرشتہ نہیں سمجھتا۔ اور نہ ہی یہود کے طریقے سے مسلمان اپنے پیغمبر کو ایک پیشن گوئ کے سوا ہر حیثیت سے معمولی انسان سمجھتے ہیں۔ یہود کے عقیدے کے مطابق انبیاء ہر قسم کے گناہ بھی کرتے تھے اور کفر بھی کرتے تھے اور وہ بداخلاقیوں کے بھی مرتکب ہوئے تھے(نعوذبالله)
مسلمانوں کے نزدیک رسول کی حیثیت نہ خدا کی ہوتی ہے اور نہ ہی عام انسانوں کی طرح بلکہ انسان کے لیۓ جتنے اوصاف وکمالات ممکن ہوں انسان کے ایک پیغمبر انسان رہتے ہوئے بھی غیر انسانوں سے بلند تر اور علانیہ ممتاز ہوتا ہے اور اخلاقی روحانی، دماغی، قلبی علمی اور عملی حیثیت سے بھی عام انسانوں سے بلندتر اور ممتاز ہوتے ہیں۔
دراصل غیر مسلم اقوام اسی افراط وتفریط کا شکار ہوکر رسول اللہ ﷺ کے تعلق سے مسلمانوں کی دل شکنی کرتے رہتے ہیں تاکہ مسلمان بھی ہماری طرح اپنے نبی کو خدا بنالے یا پھر نبی کو ہر حیثیت سے معمولی انسان یا خدا کا اوتار سمجھنے لگے، اس لیے مسلمانوں کو ایسے مواقع پر جوش کے بجائے نہایت ہوشمندی سے کام لینا چاہیے، خواہ مخواہ نوپورشرما اور نوین جندل جیسے نامعلوم بدبخت شخص کے سر پر انعام کا اعلان کر کے اس کو تحفظ و شہرت فراہم نہیں کرنا چاہیے۔
کیونکہ جو شخص ہماری اسلامی حکومت کے حدود سے باہر ہو اس پر قتل کے حکم کے نفاذ کا اعلان خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
جسے قتل کرنا ہوتا ہے وہ پہلے سے اعلان نہیں کرتا اگر ایران یا کسی اور حکومت کو سلمان رشدی جیسے ملعون کو قتل کرنے سے پہلے دلچسپی ہوتی تو وہ اعلان کرنے سے پہلے اپنے کسی ایجنٹ کے ذریعے یہ کام کراسکتی تھی؛ لیکن ایران کو اس اعلان سے سیاسی فائدہ اٹھانا تھا جو پہلے بھی اٹھایا گیا اور آج بھی اٹھایاجارہا ہے اور اس ملعون کو اس کی وجہ سے ساری دنیا میں وی آئی پی ٹریٹ ملتا رہا اور اس وجہ سے آج بھی اس کی کتابیں زیادہ فروخت ہو رہی ہیں اگر ایران کی طرف سے یہ اعلان نہ ہوتا تو پورا یقین تھا کوئی غیور مسلمان اب تک اس ملعون کا وہی انجام کرتا جو گستاخ رسول چارلی ایبدو اور کملیش تیواری کا ہوا۔
یقیناً احقر کے نزدیک جو شخص حضور اقدس ﷺ کو گالی دے یا آپ کی شان اقدس میں توہین آمیز کلمات کہے یا آپ کی ذات یا نسب یا دین یا آپ کی عادت شریفہ میں نقص وعیب نکالے اس کی سزا قتل ہے اور ایسے بد بختوں کا انجام ایسا ہی ہونا چاہیے جیسا کہ عصما نامی یہودن، کعب ابن اشرف، عبداللہ ابن ابی الحقیق اور ابن شبینہ، ابوجہل، ابورافع، کانتلہ، قریبہ، سونوڈنگر، لارس ویلکس، ایمانوئیل میکرون، ریچی فالڈ، راج پال، ڈائویلٹ، چلچل سنگھ کاہوا۔ اس بارے میں حضور ﷺ کا قول "اس معاملے میں دوبکریاں سینگوں کو نہ ٹکرائیں” یعنی اس کا خون رائیگاں ہے۔
سورہ الحجر – 95 اللہ رب العزت کا اعلان ہے:
کہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنےوالوں سے ہم خود نمٹ لیں گے۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کے اندر کفارِ قریش کے پانچ سردار (1) عاص بن وائل سہمی (2) اسودبن مُطَّلِب (3) اسود بن عبدیغوث (4) حارث بن قیس اور ان سب کا افسر (5) ولید ا بنِ مغیرہ مخزومی ، یہ لوگ نبی کریم ﷺ کو بہت ایذا دیتے اور آپ ﷺ کا مذاق اڑایا کرتے تھے، اسودبن مُطَّلِب کے خلاف نبی کریم ﷺ نے دعا کی تھی کہ یارب! اس کو اندھا کردے۔ ایک روز تاجدارِ رسالت ﷺ مسجدِ حرام میں تشریف فرما تھے کہ یہ پانچوں آئے اور انہوں نے حسبِ دستور طعن اور مذاق کے کلمات کہے اور طواف میں مشغول ہوگئے۔ اسی حال میں حضرت جبریل امین علیہ السلام نبی کریم ﷺکی کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے ولیدبن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص کے قدموں کی طرف اور اسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبدیغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ کیا اور کہا : میں ان کا شردفع کروں گا۔ چنانچہ تھوڑے عرصہ میں یہ لوگ ہلاک ہوگئے۔
ولید بن مغیرہ تیر فروش کی دوکان کے پاس سے گزرا تو اس کے تہہ بند میں ایک تیر کی نوک چبھ گئی ، لیکن اُس نے تکبر کی وجہ سے اس کو نکالنے کے لئے سر نیچا نہ کیا، اس سے اس کی پنڈلی میں زخم آیا اور اسی میں مرگیا۔
عاص بن وائل کے پاؤں میں کانٹا لگا اور نظر نہ آیا، اس سے پاؤں ورم کرگیا اور یہ شخص بھی مرگیا ۔
اسود بن مطلب کی آنکھوں میں ایسا درد ہوا کہ دیوار میں سر مارتا تھا اسی میں مرگیا اور یہ کہتا مَرا کہ مجھ کو محمد ﷺ نے قتل کیا۔
اور اسود بن عبدیغوث کو ایک بیماری اِسْتِسْقَاء لگ گئی ، کلبی کی روایت میں ہے کہ اس کو لُولگی اور اس کا منہ اس قدر کالا ہوگیا کہ گھر والوں نے نہ پہنچانا اور نکال دیا، اسی حال میں یہ کہتا مرگیا کہ مجھ کو محمد ﷺ کے رب العزت نے قتل کیا ۔
اور حارث بن قیس کی ناک سے خون اور پیپ جاری ہوا ،وہ اسی میں ہلاک ہوگیا انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔1
اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو اپنی زندگی میں ہی سزا دی اور نبی ﷺ کے سامنے بتا دیا کہ ہم نے ان کا یہ حشر کر دیا ہے ، اور روز قیامت تک جو کوئی نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرے گا ، یقینا رب العزت اسے ہر گز معاف نہیں کرے گا اور سزا ضرور دے گا ، نبی كریم كی گستاخی كرنے والے دنیا اور آخرت دونوں میں ذلیل وخوار هوں گے، جیساكه فرمان الہی سورہ احزاب 57 میں ہے :
بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا ہے۔
خواہ مخواہ ایسے ملعون اشخاص پر انعام کا اعلان جاری کرکے سیاسی مفاد حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں اس جرم کی سزا پھانسی نہیں ہے؛ لہٰذا ہماری طرف سے اس طرح کا مطالبہ کرنا ایسے بد بختوں کے لیے بیش از بیش حفاظت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس لیےمسلمانوں کو ایسے مواقع پر ایکشن پلان نہایت دانشمندی کے ساتھ کرنا چاہیے۔ صرف وقتی احتجاج اور مظاہرے کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔
فی الوقت ہمیں نہایت مضبوطی کے ساتھ تحفظ ناموس رسالت کے لئے ایک عالمگیر تحریک چلانی چاہیے جس میں بالعموم تمام مسلمان عالم اور بالخصوص عالم اسلام کے حکمرانوں کے ذریعے باہمی اتفاق کے ساتھ "یو این او” کو ایسے قوانین وضع کرنے پر مجبور کیا جائے جس میں توہین رسالت کو ناقابل معافی جرم قرار دے کرگستاخ رسول کو تختہ دار تک پہنچایا جا سکے۔ دوسرےایک مشن اور تحریک کے تحت رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو انسانیت کے سامنے پیش کرنے کی اس وقت کی اہم ضرورت ہے ہم لوگوں کو بتائیں کس طرح آپ کی پوری زندگی عفو و درگزر، رحمت ومؤدت، شفقت ودلداری، حسن معاملات، عدم تشدد، انسانیت نوازی اور خیر پسندی میں گزری ہے۔ جب ہم آپ کے ان فکروں کی دعوت لوگوں تک پہنچائیں گے تو لوگ اس بات کا فیصلہ خود کریں گے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والے صرف ہندوستان کے ہی نہیں پوری انسانیت کے دشمن ہیں کیونکہ جس ذات والاصفات کے بارے میں الزام تراشی کررہے ہیں خدا تعالیٰ نے اسے ساری دنیا انسانیت کے لۓ رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی امت کے لئے ایک سایہ دار درخت کی مانند ہے اور اس شجرطیبہ کا سایہ قیامت تک امت پر دراز رہے گا، امت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی ٹھنڈی چھاؤں سے متمتع ہوتی رہے گی، اس شجر سایہ دار اور ثمربار کا فیض رحمت امت کو ہمیشہ مستفیض کرتا رہتا ہے، اب امت کا فرض ہے کہ اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری کریں تاکہ اس پر کبھی خزاں نہ آئے اور دشمنان رسول ﷺ اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں۔
بلغ العلی بکمالہ
کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ وآلہ
Comments are closed.