دور ترقی اور شوشل میڈیا

 

محمد ولی اللہ قاسمی

جمعیۃ اسٹڈی سینٹر جمعیۃ علماء ہند

یہ دور ترقی پسند دور ہے، آگے بڑھ کر خود مینا اٹھانے کا دور ہے، دنیا کو مٹھی میں کرنے کا دور ہے، بالخصوص، اس دور میں تیزی سے ابھرتے ہوئے ڈیجیٹل منظر نامے میں سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ ایک طاقت ور اسباب بن کر ابھرا ہے جس نے ہمارے رابطے کو مربوط کر دیا اور معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک نئی شکل ایجاد کی۔ اس نے اپنی وسیع و عریض مقبولیت کے ساتھ عالمی رسائی کو سہل کر دیا، سوشل میڈیا نے اپنے پلیٹ فارم پر تمام براعظم کو لاکر رکھ دیا ہے، گویا کہ سوشل میڈیا انسانی زندگی کا جز بن چکا ہے۔

موجودہ وقت میں سوشل میڈیا کا اہم کردار یہ رہا ہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے لوگوں کو اپنے پلیٹ فارم پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔فیس بک، انسٹا گرام وغیرہ وغیرہ کے پلیٹ فارمز کے ذریعہ طویل فاصلہ کو بالائے طاق رکھ کر باہمی گفتگو اور خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ مرور زمانہ میں سوشل میڈیا نے اولاد آدم کو اپنے خیالات کا آزادانہ اظہار کرنے کا پلیٹ فارم دیا ہے۔

انسانی زندگی پر سوشل میڈیا کا اثر

موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے افراد کو اپنی رائے اور خیالات کا اظہار کرنے کار استہ ہموار کیا ہے۔ بلاگز، خبریں، صارفین سیاست اور سماجی مسائل لے کر ذاتی تجربات اور ذہنی تخلیق کوششوں تک مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔لیکن افسوس کہ اب سوشل میڈیا کا استعمال شہرت کے لیے کیا جاتا ہے اور اگر کسی کی تذلیل و تحقیر کرنی ہے تو بھی سوشل میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ بیماری موجودہ وقت میں فضلاء مدارس کے اندر زیادہ پائی جا رہی ہے کہ وہ اپنے اکابر اور اساتذہ کی تذلیل کرنے کے لیے یا تنقید کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیو کی شکل میں پوسٹ کرتے ہیں جب کہ علماء حق کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ کسی بھی علمی اختلاف کا جواب علمی انداز سے دیتے تھے اور پھر یہ ایک طویل تحریر کی شکل میں کتاب بن جاتی تھی لیکن اب موجودہ دور میں علماء نے اس طریقہ کو خیرآباد کہہ کر جہالت وذلالت والا طریقہ اختیار کیا ہے جسے خدا بھی ناپسند کرتا ہے۔

آج کے جدید دور میں جدید ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، گر اس کے فوائد کثیر ہیں تو نقصان بھی بےشمار ہیں۔

فوائد:

باہمی ربط و ضبط: سوشل میڈیا ہمہ وقت کہیں بھی ، کبھی بھی اپنے اہل و عیال اور دوست و احباب سے جڑے رہنے میں مدد کرتا ہے بلکہ سماجی ربط و ضبط کے ذریعہ تنہائی میں انجمن کا سامان مہیا کرتا ہے۔

معلومات عامہ : یہ کسی بھی موضوع پر فرقہ واریت سے مستثنی ہو کر مواد فراہم کرتا ہے مثلا صحت و تندرستی ، لوکیشن اور دیگر چیزوں کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔

علم و صحت: شوشل میڈیا پلیٹ فارم مختلف خیالات رکھنے والوں کی خدمت فراہم کرتا ہے جہاں ایک جیسے معلومات و تجربات رکھنے والے باہمی تعاون کرتے ہیں۔

مارکیٹنگ: شوشل میڈیا نے جہاں دنیا کے کسی بھی خطہ سے تعلق رکھنے والوں سے رابطہ کو بہ سہولت فراہم کیا ہے وہیں مارکیٹنگ کو بھی خوب فروغ دیا ہے ۔ اب انسان اتنا مصروف ہے کہ گھریلو سامان سے لے کر ذاتی ضروریات کا سامان بھی آن لائن آرڈ کرنے کو ترجیح دیتا ہے ۔

منفی اثرات:

دماغی کمزوری: حد سے زیادہ شوشل میڈیا کا استعمال کرنے والے افراد دوسروں کی ظاہری زندگی سے متاثر ہوکر ڈپریشن اور احساس کمتری کا شکار ہورہے ہیں اور اس میں خطرناک حد اضافہ ہورہا ہے۔

نیند میں خلل: سونے سے قبل شوشل میڈیا پر وقت گزارنا معمول کی نیند میں خلل پیدا کر سکتا ہے جس سے تکان اور سستی پیدا ہوتی ہیں اور مضر صحت ہیں۔

سائبر کرائم: شوشل میڈیا چوری غنڈہ گردی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، ایک غلطی سے سیکنڈ میں ہی اکاؤنٹ سے ایک خطیر رقم غائب ہو جاتی ہے بلکہ موجودہ وقت میں مذہبی منافرت کے لئے یا فرقہ وارانہ فساد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جس سے انسان کا دماغ و کاروبار بھی متاثر ہو سکتا ہے۔

عوام کی علماء سے بدظنی: شوشل میڈیا انسانی زندگی کا ایک جز بن گیا ہے لیکن اس پلیٹ فارم کے ذریعہ اب علماء کرام کی ذاتیات پر تنقید کے ساتھ اسکے ماضی اور اسکی خفیہ غلطی جس کا علم سوائے رب ذوالجلال کے کسی کو نہیں ہے اسے بھی اب بر سر عام کر دیا جاتا ہے جب کہ اکابر علماء کا ایک دستور رہا ہے کہ علمی اختلاف یا اقوال کا رد علمی دلائل کی روشنی میں کی جاتی تھی اور اس موضوع پر تحریر در تحریر لکھی جاتی تھی جس کی وجہ سے علم کے باب میں کتابوں کا اضافہ ہوتا تھا لیکن نوجوان فضلاءایسی فحش غلطی کے شکار ہو کر اپنی صلاحیت خراب کر رہے ہیں۔

Comments are closed.