کشمیری مسلمانوں کی بصیرت کو سلام

تحریر: مظاہر حسین عماد قاسمی
جموں اور کشمیر میں انتخابی عمل پورا ہو چکا ہے ، اور آٹھ اکتوبر کی شام تک تمام نوے اسمبلی کے نتائج بھی آچکے ہیں،
*نیشنل کانفرنس کی شاندار کامیابی*
اس انتخاب میں جموں کشمیر کی سب سے پرانی پارٹی جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کو بیالیس اور اس کی اتحادی انڈین نیشنل کانگریس کو چھ نشستیں حاصل ہوئی ہیں، اور جلد ہی شیر کشمیر عبد اللہ مرحوم کے پوتے عمر عبد اللہ کی بطور وزیر اعلی دو بارہ تاج پوشی ہوگی، اس سے قبل وہ پانچ جنوری دو ہزار نو تا آٹھ جنوری دو ہزار پندرہ جموں کشمیر کے وزیر اعلی تھے اور اس سے قبل وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی واجپائی سرکار میں تیرہ اکتوبر انیس سو ننانوے تا تیئیس دسمبر دو ہزار دو مرکزی وزیر مملکت تھے ، دس سال قبل ہونے والے کشمیر اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں نیشنل کانفرنس کو ستائیس نشستوں کا فائدہ ہوا ہے، اور یہ نتائج بتاتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس کا بدل ابھی بھی کشمیر میں کوئی نہیں ہے اور موجودہ حالات میں اہل کشمیر نے نیشنل کانفرنس کو حکومت سازی کے لائق سمجھا، اس کے کل ستاون امیدوار تھے جن میں صرف پندرہ ناکام ہوئے، جن میں دس جموں ریجن سے اور پانچ کشمیر ریجن سے تھے،
جموں کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے کشمیر ریجن میں چالیس اور جموں ریجن میں سترہ امیدوار تھے، اس کے بیالیس کامیاب امیدواروں میں صرف ایک ہندو ہیں، اکہتر فیصد مسلم آبادی والے رام بن ضلع میں دو اسمبلی نشستیں ہیں وہاں کی ایک سیٹ رام بن پر نیشنل کانفرنس کے امیدوار ارجن سنگھ راجو تھے اور وہ کامیاب ہوئے ہیں، نیشنل کانفرنس نے کل نو ہندو امیدوار اتارے تھے جو سب کے سب جموں ریجن سے تھے،
جب کہ اس کی اتحادی کانگریس کے اڑتتیس امیدوار تھے اور اس کے صرف چھ امیدوار کامیاب ہوئے، اور اسے چھ سیٹوں کا نقصان ہوا، یہ نتیجہ اشارہ کرتا ہے کہ یا تو کانگریس نے ٹھیک سے الیکشن نہیں لڑا ہے، یا غلام نبی آزاد کے کانگریس چھوڑدینے سے کانگریس کو یہ نقصان ہوا ہے،جموں کشمیر میں انڈین نیشنل کانگرنس کے کشمیر ریجن میں نو امیدوار تھے اور جموں ریجن میں چوبیس امیدوار تھے، کشمیر ریجن میں کانگریس کے نو میں سے پانچ امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جب کہ جموں میں اس کے انتیس امیدواروں میں سے صرف ایک امیدوار راجوری ضلع سے کامیاب ہوا ہے، اس کے تمام کامیاب امیدوار مسلمان ہیں ،
جموں ریجن سے کانگریس نے کل انتیس امیدوار اتارے تھے، جن میں بائیس ہندو تھے، اور وہ سب ہار گئے، کانگریس کے لیے قابل تشویش بات یہ ہے کہ وہ ہندؤں میں کیوں مقبول نہیں ہے، جموں ریجن کے چار اضلاع کٹھوا، جموں، سامبا اور اودھم پور میں سات تا گیارہ فیصد مسلمان ہیں اور ان اضلاع کی کل چوبیس سیٹوں میں ہندو اسی ( 80) فیصد سے زیادہ ہیں،
*بی جے پی کی حالت*
ہزار کوششوں کے باوجود بی جے پی کشمیر پر انتخاب کے ذریعے حکومت کرنے کی اہلیت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے،
اس نے کل باسٹھ امیدوار اتارے تھے، جن میں انیس وادی کشمیر میں تھے اور یہ سارے مسلمان تھے، اور یہ سارے ہار گئے،
جموں میں بی جے پی نے وہاں کی تمام تینتالیس نشستوں پر امیدوار اتارے تھے جن میں آٹھ امیدوار مسلمان تھے، اس کے کل انتیس امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جو تمام کے تمام جموں ریجن سے ہیں اور تمام ہندو ہیں، بی جے پی کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ جموں کے ہندؤں نے اس کا ساتھ نہیں چھوڑا ہے، اور اسے مزید چار نشستوں سے نوازا ہے، دو ہزار چودہ میں کشمیر کی ستاسی رکنی اسمبلی میں کل پچیس نشستیں اسے ملی تھیں جو تمام کی تمام جموں سے تھیں اور اس کا ایک ممبر اسمبلی مسلمان بھی تھا،
جموں ریجن میں بھی دس اضلاع ہیں، اور وہاں کے چار اضلاع کٹھوا، جموں، سامبا اور اودھم پور میں سات تا گیارہ فیصد مسلمان ہیں اور یہاں کی کل چوبیس نشستوں میں سے بائیس پر بی جے پی کے امیدوار اور دو پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں،
قابل تشویش بات یہ ہے کہ اٹھاون فیصد مسلم آبادی والے ضلع کشتوار کے تینوں نشستوں پر ہندو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں دو پر بی جے پی کے اور ایک آزاد،
اسی طرح چون فیصد مسلم آبادی والے ڈوڈا ضلع کی تین نشستوں میں سے دو پر بی جے پی کے ہندو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، ایک پر عام ادمی پارٹی کے معراج ملک اپنی ذاتی مقبولیت کی بنیاد پر کامیاب ہوئے ہیں، اسی طرح پونے پچاس فیصد مسلم آبادی والے ریاسی ضلع کی تین نشستوں میں سے دو پر بی جے پی کے ہندو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، ریاسی میں تقریبا انچاس فیصد ہندو ہیں،
مجموعی طور پر جموں کی کل تینتالیس نشستوں میں سے دس پر مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، اور تینتیس ہندو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جن میں سے انتیس بی جے پی کے ہیں تین آزاد ہیں اور ایک کا تعلق نیشنل کانفرنس سے ہے،۔
*پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی درگت*
دو ہزار چودہ میں اٹھائیس سیٹیں حاصل کرکے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی جموں کشمیر کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی ، اور اسے کشمیر کی چھیالیس نشستوں میں پچیس اور جموں کی سینتیس نشستوں میں سے تین سیٹیں ملی تھیں مگر اس بار دو ہزار چوبیس میں اسے صرف تین نشستیں ملی ہیں، کپواڑہ ضلع کی چھ نشستوں میں ایک سیٹ اور پلوامہ ضلع کی چار نشستوں میں سے دو نشستیں اسے ملی ہیں ، اسے بھارتیہ جنتا پارٹی سے اتحاد کرنے کی سزا اہل کشمیر نے دی ہے، امید ہے کہ اس سے تمام سیکولر پارٹیاں سبق حاصل کریں گی،
*مسلم ممبران اسمبلی*
کشمیر ریجن میں دس اضلاع ہیں، اور مجموعی طور سے وہاں ساڑھے چھیانوے فیصد مسلمان ہیں اور وہاں ہر ضلع میں چورانوے فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں، اور وہاں کے تمام سینتالیس ممبران اسمبلی مسلمان ہیں، ان میں سے پینتیس نیشنل کانفرنس کے ، پانچ انڈین نیشنل کانگریس کے، تین پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اور ایک جموں کشمیر پیپلز کانفرنس کے ہیں اور دو آزاد ہیں
جموں ریجن میں بھی دس اضلاع ہیں، اور وہاں مجموعی طور سے تیس فیصد مسلمان اور وہاں کے چار اضلاع کٹھوا، جموں، سامبا اور اودھم پور میں سات تا گیارہ فیصد مسلمان ہیں اور یہاں کی کل چوبیس نشستوں میں سے بائیس پر بی جے پی کے امیدوار اور دو پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں،
پانچ اضلاع میں اٹھاون تا نوے فیصد مسلمان ہیں اور یہاں کل سولہ اسمبلی نشستیں ہیں، ایک ضلع ریاسی میں مسلمان اور ہندو تقریبا برابر ہیں، یہاں صرف تین نشستیں ہیں، جموں ریجن کی انیس نشستوں پر مسلم امیدوار آرام سے کامیاب ہوسکتے ہیں، مگر تریسٹھ فیصد سے کم آبادی والے اضلاع میں کامیاب ہونے والے ہندو امیدواروں کی تعداد زیادہ ہے، اس کی تفصیل یہ ہے
اٹھاون فیصد مسلم آبادی والے کشتوار ضلع کی تین نشستوں میں سے دو پر، چون فیصد مسلم آبادی والے ڈوڈا ضلع کی تین نشستوں میں سے دو پر بی جے پی کے ہندو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، ایک پر عام ادمی پارٹی کے معراج ملک اپنی ذاتی مقبولیت کی بنیاد پر کامیاب ہوئے ہیں، اسی طرح پونے پچاس فیصد مسلم آبادی والے ریاسی ضلع کی تین نشستوں میں سے دو پر بی جے پی کے ہندو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، ریاسی میں تقریبا انچاس فیصد ہندو ہیں،
*ان چھ نشستوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا کامیاب ہوجانا اس علاقے کے مسلمانوں کے سیاسی عدم شعور کا غماز ہے،*
جموں ریجن کی انیس نشستوں پر مسلم امیدوار آرام سے کامیاب ہوسکتے ہیں
مجموعی طور پر جموں کی کل تینتالیس نشستوں میں سے دس پر مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، اور تینتیس ہندو امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جن میں سے انتیس بی جے پی کے ہیں تین آزاد ہیں اور ایک کا تعلق نیشنل کانفرنس سے ہے،۔
مجموعی طور سے نوے رکنی اسمبلی میں مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد ستاون ( 57) ہے، جموں کشمیر میں مسلمان انہتر ( 69)فیصد ہیں اور اس حساب سے ان کا حق نوے نشستوں میں سے باسٹھ نشستوں پر ہے،
*اس انتخاب کی بڑی اہمیت تھی*
یہ انتخاب کوئی معمولی انتخاب نہیں تھا اس انتخاب کی بڑی اہمیت تھی اس انتخاب سے قبل اہالیان جموں کشمیر چھ سالوں تک ظلم کی بھٹی میں جلتے رہے ہیں،
کیا عوام اور کیا خواص، ، سب مرکز کی مودی سرکار کے ظلم و ستم کا شکار ہوئے،
*مرکزی سرکار کا شاید یہ خیال تھا کہ کشمیریوں کو دبایا جا سکتا ہے مگر کشمیریوں نے یہ ثابت کر دیا کہ کشمیریوں کو نہ دبایا جا سکتا ہے اور نہ ڈرایا جاسکتا ہے*
بی جے پی کی مرکزی سرکار نے کشمیر کو جیتنے کے لیے بہت سارے حربے اختیار کے لیکن اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا،
*کشمیر جیتنے کے لیے مرکزی سرکار کے ہتھکنڈے*
1- *خود اپنی ہی سرکار گرادی*
جموں کشمیر میں اپنا وزیر اعلیٰ مسلط کرنے کی خاطر بی جے پی نے سب سے پہلے تو وہاں خود اپنی ہی سرکار گرادی ،
اس نے دو ہزار چودہ میں جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی )کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی تھی، دو ہزار چودہ میں ستاسی رکنی جموں کشمیر اسمبلی میں جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو اٹھائیس اور بی جے پی کو پچیس نشستیں حاصل ہوئی تھیں، نیشنل کانفرنس کو پندرہ اور کانگریس کو بارہ نشستیں ملی تھیں،
چونکہ جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے نیشنل کانفرنس کو اس کے پانچ سالہ اقتدار سے بے دخل کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا، اس لیے سب سے بڑی پارٹی جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے مفتی سعید مرحوم کو نیشنل کانفرنس کو اقتدار میں شریک کرنا مشکل ہوگیا، مفتی سعید کی قیادت میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، نیشنل کانفرنس ، اور کانگریس کی مخلوط سرکار بن سکتی تھی، مگر ان تینوں پارٹیوں کے لیڈران کی انانیت نے ایسا ہونے نہیں دیا،
دوسری طرف مرکز کی مودی سرکار کی پارٹی، بھارتیہ جنتا پارٹی کسی نہ کسی شکل میں کشمیر میں اقتدار میں شرکت چاہتی تھی، مگر مسئلہ یہ تھا کہ جموں کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے افکار و نظریات میں آسمان و زمین کا فرق تھا،
مفتی سعید مرحوم منجھے ہوئے سیاست داں تھے اور جنتادل کی گیارہ ماہ کی وی پی سنگھ کی مرکزی سرکار میں دو دسمبر 1989 تا دس نومبر,1990وزیر داخلہ تھے، آزاد ہندوستان میں نہ ان سے پہلے کوئی مسلمان مرکزی وزیر داخلہ بنا تھا اور نہ ان کے بعد آج ( 13/10/2024)تک کوئی مسلمان وزیر داخلہ بناہے، مفتی سعید اس سے قبل بارہ مئی 1986تا چودہ جنوری 1987 راجیو گاندھی کی مرکزی سرکار میں وزیر سیاحت تھے،
چونکہ بی جے پی کو تمام نشستیں جموں ریجن سے ملی تھیں اور پی ڈی پی کو اپنی حاصل کردہ اٹھائیس نشستوں میں سے پچیس نشستیں کشمیر ریجن سے ملی تھیں،
اس لیے پی ڈی پی کی طرف سے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کا یہ جواز گڑھا گیا کہ چونکہ ہمیں کشمیر نے ووٹ دیا ہے اور بی جے پی کو جموں نے ووٹ دیا ہے، اس لیے ہم دونوں مل کر جموں کشمیر پر حکومت کریں گے، اسمبلی انتخابات پچیس نومبر تا بیس دسمبر دو ہزار چودہ کے درمیان ہوئے تھے اور اسمبلی کی مدت سات جنوری دو ہزار پندرہ تک ہی تھی، اس درمیان میں نئی حکومت نہیں بن سکی، اور آٹھ جنوری دو ہزار پندرہ کو گورنر راج نافذ ہوگیا،
اس کے بعد پی ڈی پی اور بی جے پی میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا اور مفتی سعید مرحوم یکم مارچ 2015 کو کشمیر کے وزیر اعلی کے منصب پر فائز ہوئے، اور بی جے پی کے نرمل کمار سنگھ نائب وزیر اعلی مقرر ہوئے،
مفتی سعید مرحوم ( 12/جنوری 1936- 7/ جنوری 2016) اس بار دوسری بار کشمیر کے وزیر اعلی کے منصب پر فائز ہوئے تھے، اس سے قبل وہ پی ڈی پی اور کانگریس کی مخلوط سرکار میں دو نومبر دو ہزار دو تا پانچ نومبر دو ہزار پانچ کشمیر کی وزارت علیا کے منصب پر فائز رہ چکے تھے،
مفتی سعید مرحوم ( 12/جنوری 1936- 7/ جنوری 2016) پانچ دن کم اسی سال کی عمر میں 7/ جنوری 2016 کو انتقال کرگئے، ان کے انتقال کے بعد بی جے پی اور پی ڈی پی کے رشتے کھٹے ہوگئے، اور کشمیر میں صدر راج نافذ کردیا گیا پھر دو ماہ کی رسہ کشی کے بعد دونوں پارٹیوں میں صلح ہوگئ اور مفتی سعید کی سیاسی وارث اور صاحب زادی محبوبہ مفتی ( 22 مئی 1959) کشمیر کی وزیر اعلی مقرر ہوئیں ، اور بی جے پی کے نرمل کمار سنگھ نائب وزیر اعلی مقرر ہوئے، وہ محبوبہ سرکار میں انتیس اپریل دو ہزار اٹھارہ تک نائب وزیر اعلی رہے، ان کے بعد بی جے پی کے ہی کوویندر گپتا تیس اپریل دو ہزار اٹھارہ سے انیس جون دو ہزار اٹھارہ تک نائب وزیر اعلی رہے،
مگر چونکہ بی جے پی کے ارادے صحیح نہیں تھے، مرکز میں اس کی حکومت تھی، اور مرکز کی مودی سرکار نے جب یہ دیکھا کہ محبوبہ ان کے اشاروں پر نہیں ناچ رہی ہیں، بی جے پی کے دباؤ میں نہیں آرہی ہیں اور اپنے پرانے افکار و نظریات کو تبدیل نہیں کر رہی ہیں تو اس نے انیس جون دو ہزار اٹھارہ کو کشمیر کی محبوبہ مفتی سرکار کو بر خاست کردیا اور وہاں صدر راج نافذ کرکے جمہوریت کے قتل کا لامتناہی سلسلہ شروع کیا،
کشمیر میں جمہوریت کے خلاف مودی سرکار کا یہ پہلا سنگین جرم تھا،
2- *370 کی منسوخی*
اس کے بعد مودی سرکار نے پانچ اگست دو ہزار انیس کو آئین کی دفعہ 370 ختم کرکے بڑے بڑے دعویٰ کیے۔ مئی دو ہزار انیس کے لوک سبھا انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو پہلے سے اکیس نشستیں زیادہ ملیں، اس کی نشستیں دو سو بیاسی سے بڑھ کر تین سو تین ہوگئیں، اس کامیابی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کو ڈکٹیٹر اور ہٹلر بنادیا اور انہوں نے گاندھی،نہرو اور آزاد کی ہندوستانی جمہوریت کا گلا دبانے کا گھناؤنا کام شروع کردیا، کشمیریوں، مسلمانوں ، کسانوں اور فوجیوں کے خلاف نئے قوانین بنائے، بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کے علاوہ کانگریس سمیت تمام پارٹیوں نے دفعہ 370 کی منسوخی کی مخالفت کی،
3- *کشمیر کی صوبائی حیثیت کی منسوخی*
نہ صرف یہ کہ دفعہ 370 کو منسوخ کیا گیا بلکہ جموں کشمیر کی صوبائی حیثیت کو ختم کرکے اسے دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا، اور ان دونوں ٹکڑوں کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ ( یونین ٹریٹری ) بنادیا گیا، آزاد ہندوستان کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ ایک مستقل صوبے کو یونین ٹریٹری بنادیا گیا ہو، پہلے کی سرکاروں میں مرکزی علاقوں کو صوبہ بنایا گیا ہے، جیسے گوا پہلے ایک مرکزی علاقہ تھا، پھر اسے صوبہ بنایا گیا ۔
لیہ اور کارگل اضلاع کو جموں کشمیر سے کاٹ کر لداخ نامی مرکزی علاقہ بنادیا گیا، اس کا مقصد کشمیر کے مسلمانوں کو کمزور کرنا تھا، اور بدھ مذہب کے ماننے والوں کو خوش کرنا تھا، لداخ چین سے متصل کم آبادی والا اور بہت اونچے اونچے برف پوش ہمالیائی کوہستان والا علاقہ ہے
*لداخ کی آبادی*
دو ہزار گیارہ کی مردم شماری کے حساب سے لداخ کی کل آبادی دو لاکھ چوہتر ہزار دو سو نواسی ہے
ان میں چھیالیس اعشاریہ اکتالیس ( 46.41%) فیصد مسلمان ہیں، انالیس اعشاریہ پینسٹھ ( 39.65%) فیصد بدھ ہیں، بارہ اعشاریہ گیارہ ( 12.11%) فیصد ہندو ہیں، صفر اعشاریہ تراسی ( 0.83%) فیصد سکھ ہیں، صفر اعشاریہ چھیالیس ( 0.46%) فیصد عیسائی ہیں، صفر اعشاریہ پانچ (0.05%) فیصد جین ہیں، صفر اعشاریہ دو (0.02%) فیصد دیگر مذاہب کے ہیں، اور صفر اعشاریہ سینتالیس (0.47%) فیصد ایسے ہیں جو کسی مذہب کو نہیں مانتے ہیں،
لداخ اگر بدھوں کو ہی دینا تھا تو صرف لیہ ضلع انہیں دینا چاہیے تھا وہیں بدھوں کی اکثریت ہے ، کارگل کو لداخ میں شامل کرکے کشمیری مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی ہے،
اب ہم لیہ اور کارگل کی آبادی کا جائزہ لیتے ہیں،
*لیہ کی آبادی*
لیہ کی کل آبادی دو ہزار گیارہ کی مردم شماری کے مطابق ایک لاکھ تینتیس ہزار چار سو ستاسی ( 133487) ہے ,
ان میں سے چھیاسٹھ اعشاریہ چالیس ( 66.40%) فیصد بدھ ہیں، سترہ اعشاریہ چودہ ( 17.14%) فیصد ہندو ہیں، چودہ اعشاریہ اٹھائیس ( 14.28%) فیصد مسلم ہیں، صفر اعشاریہ بیاسی ( 0.82%) فیصد سکھ ہیں، اور ایک اعشاریہ چھتیس ( 1.36%) فیصد دیگر مذاہب کے ہیں،
*کارگل کی آبادی*
کارگل کی کل آبادی دو ہزار گیارہ کی مردم شماری کے مطابق ایک لاکھ چالیس ہزار آٹھ سو دو ( 140802) ہے ,
ان میں سے چھہتر اعشاریہ ستاسی ( 76.87%) فیصد مسلمان ہیں، ان میں سے کارگل کی کل آبادی کا تریسٹھ فیصد شیعہ اور چودہ فیصد سنی ہیں، اس اعتبار سے یہ شیعہ اکثریت والا ضلع ہے ،
چودہ اعشاریہ انتیس ( 14.29%) فیصد بدھ ہیں، سات اعشاریہ چونتیس ( 7.34%) فیصد ہندو ہیں، صفر اعشاریہ تراسی ( 0.83%) فیصد سکھ ہیں، اور صفر اعشاریہ ستاون ( 0.57%) فیصد دیگر مذاہب کے ہیں،
4- *جموں کشمیر اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی میں کشمیر ریجن پر ظلم*
بی جے پی کی مودی سرکار نے اس کے بعد اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی کرکے ساڑھے سڑسٹھ فیصد ہندو آبادی والے جموں ریجن میں نو نشستیں زیادہ بڑھا دیں اور ساڑھے چھیانوے فیصد مسلم آبادی والے کشمیر ریجن میں صرف ایک نشست بڑھائی ، اس طرح بی جے پی نے جموں کشمیر پر حکومت کرنے کا ایک چور دروازہ کھول لیا ہے،
پہلے ستاسی رکنی کشمیر اسمبلی میں دس اضلاع پر مشتمل 6888475 افراد والے کشمیر ڈویزن میں کل چھیالیس نشستیں تھیں، اور دس اضلاع پر مشتمل 5350811افراد والے جموں ڈویزن میں کل سینتیس نشستیں تھیں، چار نشستیں, 274289 والے لداخ میں تھیں،
*نشستوں کی صحیح تقسیم کیا ہونی چاہیے تھی*
جموں کشمیر کی نئی اسمبلی پچانوے رکنی ہے، جن میں سے پانچ گورنر کی طرف سے نامزد ہوئے ہیں، اور نوے نشستوں پر انتخاب ہوا ہے، کشمیر ریجن کو سینتالیس اور جموں ریجن کو تینتالیس نشستیں ملی ہیں، جب کہ آبادی کے حساب سے کشمیر کا حق اکیاون نشستوں کا تھا، کشمیر کو چار نشستیں کم ملی ہیں اور جموں کو چار نشستیں زیادہ ملی ہیں،
5- پہلی مرتبہ درج فہرست مسلم قبائل کے لیے 9 اسمبلی حلقے اور درج فہرست ہندو ذاتوں کے لیے7 اسمبلی حلقے مخصوص (ریزرو) کر کے ان حلقوں کے رائے دہندگان میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی ، اور انہیں بی جے پی نواز بنانے کی کوشش کی گئی، مسلم قبائل کو تو بی جے پی اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی، مگر درج فہرست ہندو ذاتوں کے لیے ساتوں مخصوص (ریزرو) اسمبلی حلقوں پر بی جے پی کامیاب ہوئی ہے، اور یہ ساتوں جموں ریجن سے ہیں،
درج فہرست مسلم قبائل کے لیے مخصوص 9 اسمبلی حلقوں میں سے تین کشمیر ریجن میں ہیں اور ان تینوں پر نیشنل کانفرنس کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، چھ حلقے جموں ریجن کے شمالی اور کشمیر ریجن سے متصل تین اضلاع میں ہیں، ان میں سے تین پر نیشنل کانفرنس کے اور ایک پر کانگریس کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور دو پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں،
اس طرح درج فہرست مسلم قبائل کے لیے مخصوص 9 اسمبلی حلقوں میں سے چھ پر نیشنل کانفرنس کے اور ایک پر کانگریس کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اور دو پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں،
6- انڈین نیشنل کانگریس، اور نیشنل کانفرنس اتحاد اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی نے
الطاف بخاری اور سجاد لون جیسے اپنے حامیوں کے علاوہ 40 فیصد آزاد امیدوار کھڑے کروا دئیے۔ جیل میں بند انجنیر رشید کو انتخابی مہم کے لیے عدالت سے چھٹی دلوائی ۔ جماعت اسلامی جموں کشمیر کو بھی پابندی کے باوجود اپنے آزاد امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکا ۔
7- اس کے علاوہ مئی میں ہوئے لوک سبھا انتخاب کے بعد سے جموں کشمیر میں حفاظتی دستوں پر حملوں کا لامتناہی سلسلہ جاری رہنے دیا گیا ، تاکہ ہمدردی کے ووٹ حاصل کیے جاسکیں،
8-۔ سب سے خطرناک معاملہ تو لیفٹننٹ گورنرکا نتائج سے قبل اپنی پسند کے پانچ ارکان اسمبلی کو نامزد کرنا تھا۔ جب کہ اس سے قبل نامزد ارکان کی نامزدگی انتخاب کے وزیر اعلی سے گفت و شنید اور مشورے کے بعد ہوتی تھی، بلکہ وزیر اعلی ہی نام پیش کرتے تھے اور گورنر صاحب ان کی رکنیت پر مہر قبولیت ثبت کرتے تھے،
ان سب کے باوجود بی جے پی کا دوبارہ اپنے بل بوتے پر آزاد امیدواروں کی مدد سے حکومت بنانے میں ناکام ہوجانا اس کی بہت بڑی رسوائی ہے۔
Comments are closed.