حضرت مولانا ندیم الواجدی علیہ الرحمہ  دیوبند کی قلمی، علمی و کتابی کہکشاں کا پر نور ستارہ

 

از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024ء

 

چھپ جاتے ہیں آغوش میں سورج کی ہمیشہ

یہ چاند ستارے کبھی رحلت نہیں کرتے

 

چند روز قبل سوشل میڈیا پر ان سے متعلق دل کے بڑے آپریشن کی خبر سن کر ماتھا ٹھنک گیا تھا، اوپن ہارٹ سرجری یقینا کامیاب بھی ہوتی ہوگی؛ اسی لیے یہ آپشن موجود ہے؛ لیکن تجربات تلخ ہیں، میرے نزدیکی واقعات میں بشمول میری خوش دامن کے آپریشن کے لیے عمل میں لائی گئی بیہوشی موت پر ہی منتج ہوئی، میڈیکل سائنس کے جدید مکاروں نے ناکام آپریشن کو خوبصورت عنوان دیے ہیں، وہ موت کی اطلاع دینے سے قبل آپ کے رد عمل کی پیمائش بھی کرنا چاہتے ہیں اور تب تک آکسیجن کے مصنوعی تنفس سے طفل تسلیاں دیتے رہتے ہیں، یوں ہم اپنے پیاروں کی موت کا درست وقت بھی نہیں جان پاتے، پھر وہ گھڑی بھی کیسی ظالم ہوتی ہے جب متعلقین کو بے وقت کی نعش کے ساتھ ہوش ربا بل بھی حوالے کیا جاتا ہے اور میت کی تفویض بل کی ادائیگی پر معلق رہتی ہے۔

 

علالت کی اطلاع اس لیے بھی موجب حیرت تھی کہ ان کو سالہا سال سے تا حال ہمیشہ ہشاش بشاش اور ترو تازہ دیکھا، صحت اور تندرستی کی علامتوں سے معمور چہرہ اور ضیا بکھیرتا مواجہہ کل کی خبر کے لیے قیاس آرائی کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا تھا، اولا عارضے کی خبر غیر متوقع تھی اور پھر داغ مفارقت کا یہ حادثہ، سفرِ زندگانی کا سراپا عجب موڑ معلوم ہوا۔

 

حضرت مولانا ندیم الواجدی کی رحلت علم وتحقیق اور فکر وفن کا حقیقی خسارہ ہے؛ کیوں کہ ان کی داستان ابھی رواں دواں تھی، ان کی کتاب زندگی میں روشن صفحات کی نئی شمولیت کا سلسلہ جاری تھا، وہ لکھ رہے تھے اور تخلیق کے فن پارے علم وکتاب کے کارواں کو تازہ بہ تازہ بنا رہے تھے، ان کا قلم ایک جہاں کی علمی وفکری امنگوں کے لیے مہمیز تھا، اس راہ کے سالکین کو ان کی قلمی جولانیوں سے زبردست تحریک ملتی تھی۔

 

گو کہ دیوبند کی مٹی زر خیز ہے اور اس کا لمس جادو ہے؛ مگر عبقریت کو نمود کے لیے ادراہ جاتی دست گیری ناگزیر ہوتی ہے، انفرادی کام یابی کسی بھی جگہ مشکل ہے اور دیوبند میں یہ مشکل بہت بڑی ہے، دارالعلوم کے درخشاں آفتاب وماہتاب کے جلو میں ذیلی چراغ کی سرخ روئی کرامت سے کم نہیں، اس کرامت کی قیمت خونِ جگر ہے، پھر مولانا کو یہ خون بہا دوگنا ادا کرنا پڑا؛ کیوں کہ وہ کل وقتی تاجر بھی تھے۔

 

وکی پیڈیا ریکارڈ کے مطابق حضرت مولانا نے چھتیس کتابیں تصنیف کیں، ان کی تجارت کے پھیلاؤ سے جو لوگ واقف ہیں ان کے لیے یہ تعداد سکتے میں ڈالنے والی ہے، تجارت ایک پراگندہ مصروفیت ہے، اسے علم کے ساتھ تضاد کی نسبت ہے، علم یکسوئی کی شرط رکھتا ہے؛ جب کہ تجارت علائق چاہتی ہے، نوکری پیشہ شخص بہ ہر حال شام کو فراغت کا سانس لیتا ہے؛ مگر تجارتی افکار تاجر کا تعاقب بستر نیند تک کرتے ہیں اور بستر کے بعد خاص نیند کے دورانیے میں بھی جدا نہیں ہوتے۔

 

مزید یہ کہ کتابوں کی تجارت نسبتا زیادہ پیچیدہ ہے، کاغذ کے انتخاب سے جلد بندی تک نزاکتیں ہی نزاکتیں ہیں، بعض مراحل تو سانس روک دیتے ہیں، پھر ان کی تشہیر، تعارف اور اس کے لیے روابط کی دریافت، ان کی استواری وبر قراری اور لین دین کی حساسیت، اسی طرح کتابوں کے بڑھتے ذخیروں کی حفاظت، قدیم طباعتوں پر نظر ثانی، غیر ضروری کتابوں کی نکاسی، ملازمین پر نظر رکھنا، غرض کتابوں کی تجارت سو بیماریوں کے برابر ہے۔

 

ایک اور خاص بات یہ ہے کہ حضرت مولانا کی تصانیف فکری وتخلیقی نوعیت رکھتی ہیں، ایسی تحریریں غیر معمولی ذہنی تعب سے گزارتی ہیں، ان کی تیاری کے لیے سو فی صد یکسوئی درکار ہوتی ہے، تجارت تو کجا! امور خانہ داری کی مداخلت بھی رنگ کو بھنگ کر دیتی ہے، تخلیقی کرشموں کے لیے یکسوئی اولین شرط ہے، اس پورے سیاق میں آپ حضرت مولانا کے آثار ونقوش کی قیمت و اہمیت کا اندازہ لگائیں اور سوچیں کہ ان چھتیس کتابوں کی تالیف میں کیسی جان کاہی، تندہی، ریاضت اور جاں فشانی شامل رہی ہوگی۔

 

راقم سطور طالب علمی کے تین سال یعنی سال ششم، ہفتم اور دورہ درسیات تک محدود رہا، اس دوران کوئی خارجی کتاب مطالعہ کی ہو یاد نہیں اور اس کا فائدہ بھی غیر معمولی ہوا، دورے کے بعد تکمیل ادب میں جب خارجی بازو پھڑ پھڑائے تو ادبی کتابوں کی ایک فہرست بنا کر حضرت مولانا کے کتب خانے پہنچا، من جملہ کتابوں کے جہان دیدہ بھی تھی میں نے عرض کیا کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی کی جہان دیدہ بھی مطلوب ہے، یہ مولانا علی میاں کی غیر معمولی شہرت کا وقت تھا، مولانا واجدی بے اختیار ہنسے اور کہنے لگے کہ مولانا علی میاں کی جہان دیدہ آپ کے لیے مفت ہے۔

 

ناچیز نے استاذ گرامی قدر حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی علیہ الرحمہ کی وفات پر قسط وار مضامین لکھے تو مولانا واجدی نے میرے ایک معتبر شخص سے بہ اہتمام کہا کہ مولوی فہیم حضرت مولانا پر عمدہ لکھ رہے ہیں، میری ان سے آخری گفتگو دس اگست کو ہوئی، میں نے ان سے گزارش کی کہ میرے پاس کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے، ان میں درسیات تو بہ ہر حال آپ کے کام کی ہیں، آپ خرید لیں، میں قیمت میں کمی کر دیتا ہوں، حضرت مولانا نے زیادہ تو نہیں؛ لیکن معتد بہ تعداد خرید کر مجھے کسی قدر راحت پہنچائی، فجزاہ اللہ خیر الجزاء!

 

استاذ گرامی قدر حضرت مولانا ریاست علی بجنوری علیہ الرحمہ نے ایک روز مجھ سے پوچھا کہ کیا مفتی تقی عثمانی اپنے والد حضرت مفتی شفیع عثمانی کے برابر ہو گئے ہیں؟ میں نے چہک کر جواب دیا کہ بالکل؛ بل کہ آگے نظر آتے ہیں، حضرت نے اختلاف کیا اور فرمایا کہ مفتی تقی عثمانی علم و تحقیق اور بحث و نظر میں اپنے والد کے درجے کو ابھی نہیں پہنچے ہیں اور شہرت میں دیگر عوامل کا دخل ہے، مفتی یاسر ندیم مجھ سے غالبا دو سال بعد کے فارغ ہیں، اس وقت مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں ان کے والد حضرت مولانا ندیم الواجدی ان کی عرفیت تھے، آج ان سطور کی تسوید کے وقت صورت حال بر عکس ہے، کم از کم عالمی سطح پر متوفی کی تعیین میں ابنیت کو بہ طور تعارف نمایاں کیا گیا؛ لیکن ناچیز کے خیال میں حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کا تبصرہ یہاں بھی منطبق ہے، شہرت اور مقبولیت میں سوشل میڈیا کا ایک کردار ہے، علم وتحقیق اور فکر وفن میں والد گرامی ہنوز والد گرامی ہیں۔

 

إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم اغفر له وارحمه وأسكنه فسيح جناتك، وأنزل الصبر والسلوان على ذويه، آمين يارب العالمين.

Comments are closed.