اپوزیشن کے لئے فیصلہ کن معرکہ

 

 

نازش ہما قاسمی ( ممبئی اردو نیوز )

 

مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اسمبلی انتخابات کا بگل بج چکا ہے، اور سیاسی منظر نامہ گرم ہو چکا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے 15 اکتوبر کو ان دونوں ریاستوں میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا ہے ۔ مہاراشٹر میں انتخابات 20 نومبر کو ایک ہی مرحلے میں ہوں گے، جبکہ جھارکھنڈ میں دو مرحلوں میں ۔ پہلا مرحلہ 13 نومبر کو اور دوسرا مرحلہ 20 نومبر کو منعقد ہوگا ۔ ووٹوں کی گنتی 23 نومبر کو ہوگی ۔ ان انتخابات کا نتیجہ دونوں ریاستوں کی سیاست اور ملک کے سیاسی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب کرے گا ۔ مہاراشٹر کی سیاست میں حالیہ برسوں میں کئی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں ۔ 2019 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور شیو سینا نے مل کر انتخابات لڑے تھے اور دونوں کو واضح اکثریت ملی تھی ، لیکن وزیر اعلیٰ کے عہدے پر اختلافات کی وجہ سے شیو سینا نے بی جے پی سے علحیدگی اختیار کی اور نیشنل کانگریس پارٹی ( این سی پی ) اور کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی ۔ اس اتحاد کو ’ مہاوکاس اگھاڑی ‘ کا نام دیا گیا ، اور ادھو ٹھاکرے وزیر اعلیٰ بنے ۔ تاہم ، 2022 میں ایکناتھ شندے نے پارٹی کے اندر بغاوت کرتے ہوئے 40 ایم ایل ایز کے ساتھ بی جے پی کا ساتھ دیا اور حکومت تشکیل دی ۔ شندے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بنے ، جس سے شیو سینا دو دھڑوں میں بٹ گئی ۔ ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں شیو سینا کا ایک گروپ اور شندے کی قیادت میں دوسرا گروپ تشکیل پایا ۔ 2023 میں ایک اور بڑی تبدیلی تب آئی جب این سی پی بھی دو دھڑوں میں بٹ گئی ۔ اجیت پوار کی قیادت والا دھڑا بی جے پی اور شندے کی حکومت میں شامل ہو گیا ، جبکہ شرد پوار کی قیادت والا دھڑا اپوزیشن میں شامل رہا ۔ اس طرح مہاراشٹر میں بی جے پی ، ایکناتھ شندے کی قیادت والی شیو سینا اور اجیت پوار کی این سی پی پر مشتمل حکومت ہے، جسے ’ مہایوتی ‘ کہا جا رہا ہے ۔ دوسری جانب ، مہاوکاس اگھاڑی اتحاد میں ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا (یو بی ٹی) ، شرد پوار کی این سی پی (ایس پی) ، اور کانگریس شامل ہیں ۔ یہ اتحاد مہاراشٹر میں موجودہ حکومت کو چیلنج دینے کے لیے تیار ہے ۔ ان انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے خلاف سب سے بڑا مقابلہ مہاوکاس اگھاڑی ہی دے گی ۔ کانگریس ، این سی پی اور شیو سینا (ادھو ٹھاکرے دھڑا) کا دعویٰ ہے کہ مہاوکاس اگھاڑی کے حق میں عوامی لہر چل رہی ہے اور وہ ریاست کو این ڈی اے کے ’ فرقہ پرست ‘ ایجنڈے سے بچانے کے لیے میدان میں اترے ہیں ۔ مہاراشٹر میں انتخابات کی صورتحال کو ’ دسہرہ ریلی ‘ سے بھی جوڑا جا رہا ہے ، جس میں شندے اور ٹھاکرے کے درمیان گہرے سیاسی اختلافات مزید واضح ہوکر سامنے آئے ہیں ۔ اس ریلی میں عوام کی شرکت نے ایک طرف مراٹھا عوام کے جذبات کی نمائندگی کی ، دوسری طرف شندے کی حمایت میں کم بھیڑ دیکھی گئی ۔ ادھر جھارکھنڈ کی سیاست بھی کافی دلچسپ ہے ۔ جھارکھنڈ میں موجودہ حکومت کی قیادت ہیمنت سورین کر رہے ہیں ، جو جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کے سربراہ ہیں ۔ ان کی حکومت کا دور 5 جنوری 2025 کو ختم ہو رہا ہے ۔ ریاست میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ ، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کا اتحاد حکومت میں ہے ۔ جھارکھنڈ کی سیاسی تاریخ میں بی جے پی اور جے ایم ایم کے درمیان ہمیشہ سخت مقابلہ رہا ہے ۔ حالیہ برسوں میں بی جے پی نے ریاست میں اپنی بنیاد کو مضبوط کیا ہے ، لیکن ہیمنت سورین کی حکومت نے بی جے پی کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کی ہے ۔ جھارکھنڈ کے انتخابات بھی مہاراشٹر کی طرح ایک اہم معرکہ ثابت ہوں گے ۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات نہ صرف ان دونوں ریاستوں کے لیے اہم ہیں ، بلکہ ان کا اثر قومی سطح پر بھی پڑے گا ۔ یہ انتخابات لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے ایک نکتہ آغاز ثابت ہو سکتے ہیں ۔ بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومتیں ان ریاستوں میں اپنی کارکردگی کے ذریعے اپنی طاقت کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کریں گی ، جبکہ اپوزیشن اتحاد بھی اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے ان انتخابات کو ایک موقع کے طور پر دیکھ رہا ہے ۔ مہاراشٹر کی 288 اسمبلی سیٹوں اور جھارکھنڈ کی 81 سیٹوں پر ہونے والے انتخابات میں عوام کا فیصلہ یہ طے کرے گا کہ اگلے چند برسوں میں ان ریاستوں کی سیاست اور ترقی کا کیا نقشہ ہوگا۔

Comments are closed.