مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر فیصلے کی گھڑی ! معصوم مرادآبادی

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندرچوڑ آئندہ ہفتہ سبکدوش ہونے والے ہیں۔ سبکدوشی سے قبل انھیں جن مقدمات پر اپنا فیصلہ صادر کرنا ہے، ان میں ایک اہم مقدمہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا بھی ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ طے کرنا ہے کہ آیا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ ہے یا نہیں؟ اس فیصلے کی آمد سے پہلے علی گڑھ برادری میں خاصا تجسس پایا جاتا ہے، کیونکہ مودی سرکار نے اس حلف نامہ کو واپس لے لیا ہے، جو پچھلی یوپی اے سرکار نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے حق میں سپریم کورٹ میں داخل کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی مخالفت کی ہے، اس لیے سب کی نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مرکوز ہیں۔ اس دوران راجیہ سبھا میں سماجوادی پارٹی کے سرکردہ ممبر رام جی لال سمن نے راجیہ سبھا میں یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق ایک پرائیویٹ ممبر بل پیش کیا ہے۔

واضح رہے کہ دسمبر1981میں مرکزی حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پاس کیے گئے ایک ترمیم شدہ آرڈی نینس کے توسط سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا گیا تھا، لیکن الہ آباد ہائی کورٹ نے 2005 میں اپنے ایک فیصلے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو خارج کردیا۔ عدالت عالیہ نے 1967 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ تسلیم نہیں کیا۔ رام جی لال سمن کا کہنا ہے کہ ان کی طرف سے پیش کیا گیا بل دراصل اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ مسلمانوں نے چونکہ انگریز سرکار کو تیس لاکھ روپے کی رقم جمع کرکے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قایم کی تھی، اس لیے یہ واضح ہے کہ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کے ذریعہ قایم کی گئی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1977 اور1979 کے لوک سبھا چناؤ کے جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس وقت باجپئی اور اڈوانی سمیت بی جے پی کے بیشتر لیڈران جنتا پارٹی کے ممبر تھے۔اگر عدالت نے اپنا فیصلہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف صادر کیا تو یہاں سے ایک عجیب وغریب صورتحال جنم لے گی۔ وقف ترمیمی ایکٹ سے جوجھ رہے مسلمانوں کے سامنے ایک نیا چیلنج ہوگا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہے۔ عظیم مسلح قوم سرسیداحمد خاں کی قائم کردہ اس دانش گاہ کی اہمیت وافادیت پوری دنیا پر عیاں ہے۔ اس کا وسیع وعریض کیمپس ہرشخص کو متاثر کرتا ہے۔ یہاں اتنی کشش ہے کہ اسے دیرتک دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔درحقیقت اتنا روحانی سکون کسی اور کیمپس میں نہیں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہے۔یہ ان عظیم انسانوں کی قربانیوں کا فیض ہے جنھوں نے قوم کی تعلیم وتربیت میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ سرسیداحمد خاں اس کے بنیاد گزار تھے،جنھوں نے اب سے ڈیڑھ سوسال پہلے اس دانش گاہ کا خواب دیکھا تھا۔آج ان کا یہ خواب ایک زندہ جاوید تعبیر کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ سرسید کے بنائے ہوئے اس ادارے کو نقصان پہنچانے اور ختم کرنے کی کوششیں برسوں سے جاری ہیں، لیکن تمام یورشوں کے باوجود سرسید کا یہ چمن لہلاتا رہا ہے۔

میں نے گزشتہ ہفتہ یوم سرسید کے موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کئی روز قیام کرکے وہاں کی رونقوں کا مشاہدہ کیا اور میں یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکا کہ اس دانش گاہ سے مسلمانوں کو جو جذباتی لگاؤ ہے وہ کسی اور دانش گاہ سے نہیں ہے؛ اس لیے مسلمان یہاں کی ہر نقل وحرکت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ میں نے اقلیتی کردار کے تعلق سے سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی آمد سے قبل مسلمانوں میں پھیلی ہوئی تشویش کی لہر کو خوب محسوس کیا۔یہ ایک ایسی مرکزی یونیورسٹی ہے جس کے کیمپس مرشدآباد (معربی بنگال) کشن گنج (بہار) اور ملاپورم (کیرل) میں بھی موجود ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کو ہی تعلیم نہیں دیتی؛ بلکہ یہاں بڑی تعداد میں غیر مسلم طلباء اور طالبات بھی زیرتعلیم ہیں۔ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں تو غیر مسلم طلباء کی اکثریت ہے۔

واضح رہے کہ 1965ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ اس وقت سامنے آیا تھا جب آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے وزیرتعلیم عبدالکریم چھاگلہ کے ذریعے اسے ختم کرایا تھا۔ علی گڑھ برادری نے اس کے خلاف ایک تحریک منظم کی جو پورے ملک میں 1980ء تک چلی۔اس تحریک کے نتیجے میں دسمبر 1981ء میں مرکزی حکومت نے ایک آرڈی نینس کے ذریعے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا، لیکن بدقسمتی سے 2005ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو دوبارہ ختم کردیا۔ دراصل 2005ء میں مسلم یونیورسٹی نے اپنے میڈیکل کورسز میں مسلم طلباء کے لیے پچاس فیصد سیٹیں مختص کی تھیں۔ اس کو الہ آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر نریش اگروال بنام حکومت ہند (2005) میں چیلنج کیا گیا، جس نے مسلم یونیورسٹی کی ریزرویشن پالیسی کو رد کردیا۔ اس وجہ سے مسلم یونیورسٹی اور مرکزی حکومت نے2006 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔

اس معاملے میں 2016ء میں اس وقت ایک موڑ آیا جب 2014ء میں نریندر مودی کی قیادت میں بنی این ڈی اے سرکار نے 2016ء میں اس فیصلے کے خلاف یوپی اے حکومت کی طرف سے دائر کی گئی اپیل واپس لے لی، لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور یونیورسٹی سے متعلق دیگر تنظیموں نے سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ جاری رکھا۔ 2019ء میں سپریم کورٹ کے تین ججوں کی بینچ نے اس معاملے کو سات ججوں کی بینچ کے روبرو نظرثانی کے لیے بھیجا۔ 12؍ اکتوبر 2023ء چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اس معاملے کی سماعت کے لیے سات ججوں کی بنچ تشکیل دی۔سماعت 9؍ جنوری 2024ء کو شروع ہوئی۔ یکم فروری 2024ء کو سپریم کورٹ نے آٹھ دن کی سماعت کے بعد مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ سات ججوں کی دستوری بینچ اس بات پر غور کررہی ہے کہ کیا مسلم یونیورسٹی دفعہ 30 کے تحت اقلیتی ادارے کے طور تسلیم کیے جانے کا اہل ہے۔ دستور کی دفعہ 30 کہتی ہے کہ مذہبی اقلیتیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام چلانے کی حق دار ہیں۔ سپریم کورٹ کی سات ججوں کی بینچ 1967ء کے دستوری بینچ کی طرف سے عزیز باشا بنام مرکزی حکومت پر دیے گئے فیصلے پر بھی دوبارہ غور کر رہی ہے، جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل نہیں ہے؛ کیونکہ اس کا قیام برطانوی حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آرڈی نینس 1920ء کے ذریعہ کیا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ1981ء میں مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال کرتے ہوئے آرڈی نینس میں جو تبدیلی کی گئی تھی اس میں واضح طورپر یہ کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام ”ہندستانی مسلمانوں“ نے کیا تھا۔ عرضی گزاروں نے دلیل دی ہے کہ سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کی ترقی کے ارادے سے 1877ء میں محمڈن اینگلو اورینٹیل (ایم اے او) کالج قائم کیا تھا۔ اے ایم یو آرڈی نینس 1920ء کے پاس ہونے کے بعد اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بدل دیا گیا۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کے بعد مسلم یونیورسٹی نے اپنا اقلیتی کردار چھوڑ دیا۔ انھوں نے دلیل دی ہے کہ مسلمانوں نے یونیورسٹی کا کنٹرول برٹش سرکار کو سونپ دیا، اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے بانی برٹش سرکار کے تئیں وفادار تھے اور انھوں نے اپنا مذہبی درجہ انگریزوں کو سونپنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے مطابق کئی اداروں نے برٹش سرکار کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جنھیں مسلم یونیورسٹی کے برخلاف آج اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل ہے۔ سالیسٹر جنرل نے اپنی بات کے حق میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی مثال دی۔ حکومت ہند نے عزیز باشا فیصلے پر بھی اعتماد کیا، جس نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اے ایم یو آرڈی نینس کے ذریعے اے ایم یو میں تبدیل ہونے کے بعد ایم اے او نے اپنی مذہبی حیثیت کھودی ہے۔

Comments are closed.