خطرناک رجحان … ودود ساجد
(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
ایک طرف جہاں کرناٹک ہائی کورٹ کی یک رکنی بنچ کے ایک فیصلہ نے انتہائی خطرناک رجحان کی بنیاد ڈال دی ہے وہیں دوسری طرف چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے بھی ایک انکشاف کرکے ایک اور خطرناک رجحان کا بیج بودیا ہے۔۔۔
اول الذکر واقعہ میں عدالت نے ان دو شرپسند ملزموں کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کردیا ہے جنہوں نے ایک مسجد میں گھس کر نہ صرف ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگایا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑیں گے نہیں۔ جج نے کہا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسجد میں داخل ہوکر جے شری رام کا نعرہ لگانے سے کس طرح فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس کہتے ہیں کہ ’انہوں نے بابری مسجد کے مقدمہ میں ’بھگوان کے آگے بیٹھ کر فیصلہ کرنے میں مدد کرنے کی درخواست کی تھی۔‘ پچھلے دنوں کرناٹک ہائی کورٹ کے ہی ایک اور جج نے بنگلور کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ کو ’پاکستان‘ سے تشبیہ دی تھی۔ حالانکہ اس کے سامنے جس مقدمہ کی سماعت جاری تھی اس میں ایسا کوئی عنصر تھا ہی نہیں۔
چیف جسٹس چندر چوڑ آئندہ 10 نومبر کو سبکدوش ہوجائیں گے۔ وہ ایک بہترین‘ پڑھے لکھے اور قابل جج تصور کئے جاتے ہیں۔ ان کے عہد میں قومی سطح کے کچھ اچھے فیصلے بھی رونما ہوئے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے تعلق سے کچھ اہم مقدمے ان کی عدالت میں اب تک سماعت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اب نہیں لگتا کہ وہ سبکدوشی سے پہلے ان مقدمات کی سماعت کرسکیں گے۔ ان میں سے ایک مقدمہ مسلم طالبات کے حجاب پہننے کا بھی ہے۔ متعلقہ وکیلوں کی متعدد درخواستوں کے باوجود انہوں نے اس مقدمہ کی تاریخ طے نہیں کی۔
جس پانچ رکنی بنچ نے بابری مسجد کے مقدمہ کو فیصل کرتے ہوئے مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کی تھی اس میں ایک جج‘ جسٹس چندر چوڑ بھی تھے۔ اس بنچ کے سربراہ اس وقت کے چیف جسٹس‘ رنجن گوگوئی تھے۔ آخری فیصلہ انہوں نے بابری مسجد کے ہی مقدمہ کا سنایا تھا۔ پانچ ججوں کےاس عجیب و غریب فیصلہ پر کسی کے بھی دستخط نہیں ہیں۔ اس فیصلہ میں بابری مسجد کے انہدام کو ایک مجرمانہ کارروائی تسلیم کیا گیا ہے اور یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ 1949میں بابری مسجد کے اندر چوری سے مورتیاں رکھی گئی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود مسجد کی جگہ کو مندر کی تعمیر کیلئے دیدیا گیا۔ یہ فیصلہ آئین کی دفعہ 142 کے تحت دیا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ کو شواہد کی عدم موجودگی کے باوجود ’مکمل انصاف‘ کی غرض سے غیر معمولی فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ یہ بات فہم سے پرے ہے کہ آئین ساز اسمبلی نے ایسی دفعہ رکھی ہی کیوں تھی۔
تمام متعلقہ مسلم فریقوں کو پورا یقین تھا کہ بابری مسجد کے مقدمہ کا فیصلہ ’آستھا‘ کی نہیں بلکہ آئین کی بنیاد پر دیا جائے گا۔ لیکن دفعہ 142 کا استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اسی لئے فیصلہ صادر کیا تھا کہ بابری مسجد کی جگہ ہندئوں کو سونپنے کا کوئی آئینی اور قانونی جواز موجود نہیں تھا۔ مگر اب چیف جسٹس نے مذکورہ بیان دے کر ثابت کردیا کہ یہ فیصلہ آئین کی نہیں بلکہ صریح طور پر آستھا کی بنیاد پر دیا گیا ایک غیر قانونی فیصلہ تھا اور اس کیلئے آئین کی دفعہ 142 کے ہتھیار کو آڑ کے طور پر استعمال کیا گیا۔
یہ جائزہ تو چیف جسٹس کی سبکدوشی کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی روشنی میں ہی لیا جائے گا کہ انہوں نے اس موقع پر کیوں ایسا انکشاف کیا تاہم ان کے اس انکشاف نے مظلوموں کے زخم پھر ہرے کردئے ہیں اور ایک ایسے سانحہ کی شدت کو‘ جسے مسلمانوں نے ملک کی سلامتی اور امن و سکون کی خاطر تسلیم کرلیا تھا‘ پھر تازہ کردیا ہے۔ چیف جسٹس کے اس انکشاف سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ کو رام مندر کیلئے ہندئوں کے حوالہ کرنے کا فیصلہ بھی ڈی وائی چندر چوڑ نے ہی لکھا تھا۔ جو لوگ اس مقدمہ کی سماعت کا یومیہ بنیادوں پر مشاہدہ کر رہے تھے انہیں علم ہوگا کہ پانچ ججوں کی بنچ میں جسٹس چندر چوڑ ہی کچھ سلجھے ہوئے نظر آتے تھے۔ ان کے علاوہ دوسرے ججوں کی جرح اور سوالات سے اندازہ ہوتا تھا کہ ان پر ’آستھا‘ حاوی ہے اور انہیں حقائق کا کچھ زیادہ علم نہیں ہے۔ ایک موقع پر مسلم فریقوں کی جانب سے بحث کرنے والے مشہور وکیل راجیو دھون نے بھری عدالت میں کہا بھی تھا کہ اس بنچ میں مجھے یقین ہے کہ بابری مسجد کے مقدمہ کی دستاویزات کا بغور مطالعہ جسٹس چندر چوڑ نے ہی کیا ہوگا۔
چیف جسٹس کے مذکورہ بالا انکشاف پر ہندوستان کے سیاسی ہی نہیں بلکہ قانونی حلقوں نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ممتاز ماہر قانون دشینت دوے‘ دہلی ہائی کورٹ کی سابق جج‘ جسٹس ریکھا شرما‘ صحافی سجیت نائر‘ سدھارتھ وردھاراجن اور کرن تھاپر نے بھی سخت تبصرے کئے ہیں۔ جسٹس ریکھا شرما نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ چیف جسٹس کے اس انکشاف کی روشنی میں تو بابری مسجد کے مقدمہ کا فیصلہ سراسر غیر آئینی اور غلط ثابت ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر جج ’بھگوان‘ سے ہی رائے لے کر فیصلہ کرنے لگیں تو پھر اس سے بہتر تو یہ ہے کہ عدالتیں بند کر دی جائیں اور متاثرہ فریق براہ راست پجاریوں سے ہی رابطہ کرلیں کیونکہ وہ نسبتاً بھگوان کے زیادہ رابطے میں رہتے ہیں۔
سیاسی‘ قانونی اور دانشور حلقوں کو چیف جسٹس کے گھر پر گنیش پوجا کیلئے وزیر اعظم کے جانے پر بھی سخت اعتراض ہے۔ اس سلسلہ میں خود چیف جسٹس کا کردار مشکوک ہوگیا ہے۔ بابری مسجد کے مقدمہ کی سماعت کرنے والی بنچ کے تین ججوں‘ رنجن گوگوئی‘ اشوک بھوشن اور عبدالنظیر نے حکومت کی طرف سے پیش کئے جانے والے سیاسی اور آئینی عہدوں کو قبول کرکے پوری بنچ کے ہی کردار کو مشکوک بنا دیا ہے۔ جسٹس گوگوئی کو راجیہ سبھا میں بھیجا گیا‘ جسٹس عبدالنظیر کو گورنر بنا دیا گیا اور جسٹس بھوشن کو ’نیشنل کمپنی لااپیلٹ کمیشن‘ کا چیرمین بنا دیا گیا۔ یہ صورتحال ستم رسیدہ مسلم فریق کے زخموں پر تیزاب چھڑکے جانے سے کم نہیں ہے۔
مسلمانوں کے اطمینان کیلئے ایک عدالت کا ہی راستہ بچا تھا اب چیف جسٹس کے اس انکشاف کے بعد وہ اطمینان بھی مجروح ہوگیا ہے۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے ان اچھے ججوں کے کردار کو بھی مشکوک بنا دیا ہے جو محض آئین اور قانون کی بنیاد پر فیصلے دیتے ہیں۔ ان ججوں کا کردار تو اور بھی زیادہ مشکوک ہوگیا ہے جو سیاسی اور فرقہ وارانہ انتقام کے تحت ماخوذ کئے گئے لوگوں کو پہلے ہی ضمانت دینے میں تکلف کرنے کیلئے مشہور ہیں۔
24ستمبر 2023 کو دکشن کنڑ ڈسٹرکٹ کے گائوں اتور میں کدابا مرڈالا روڈ پر واقع مسجد میں گھس کر نامعلوم لوگوں نے جے شری رام کا نعرہ لگایا اور متولی کو دھمکی دی کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑیں گے نہیں۔ اگلے دن سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر نامزد لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کرائی گئی۔ اس سلسلہ میں پولیس نے دو کلیدی ملزموں کو آئی پی سی کی دفعہ 295A سمیت مختلف دفعات کے تحت گرفتار کرلیا۔ ان شرپسندوں نے کرناٹک ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں جسٹس ایم ناگ پرسنا نے مذکورہ بالا تبصرہ کرتے ہوئے ان پر عاید ایف آئی آر کو منسوخ کر دیا۔ پولیس نے ان پر 447 (کسی کے گھر میں مجرمانہ طور پر گھسنا) 505 (فساد بھڑکانے کی نیت سے دیا گیا عوامی بیان) 506 (مجرمانہ دھمکی) 34 (مشترکہ طور پر برے ارادے) اور 295A (دانستہ اور بدنیتی پر مبنی کارروائیاں، جن کا مقصد کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا ہے) عاید کی تھیں۔
یہاں سوال یہ ہے کہ مذکورہ دفعات میں کون سی دفعہ غلط طریقہ پر عاید کی گئی تھی؟ کیا یہ شرپسند‘ جن کا مذہب کم سے کم اسلام تو نہیں ہے‘ مسجد میں مجرمانہ طور پر نہیں گھسے تھے؟ کیا انہوں نے فساد بھڑکانے کا کام نہیں کیا تھا؟ کیا وہ مسجد میں اچھے ارادوں سے داخل ہوئے تھے؟کیا مسجد میں ‘ جہاں وحدانیت کے خلاف کوئی بھی شرکیہ کام نہیں کیا جاسکتا‘ انہوں نے جے شری رام کا نعرہ لگاکر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں کیا تھا؟ اگر مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوئے ہوتے تو وہ ایف آئی آرہی کیوں کراتے؟ آخر جج صاحب کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مسجد میں جے شری رام کا نعرہ لگانےسے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوتے۔
بہت سے دانشوروں اور صحافیوں نے سوال کیا ہے کہ کیا کوئی اس بات کو برداشت کرے گا کہ کوئی مسلمان کسی مندر میں گھس کر الله اکبر کا نعرہ لگائے؟ لیکن ہم دوسری بات کہتے ہیں۔ 2014 سے آج تک کے واقعات کا سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک بھر میں شرپسندوں نے سیکڑوں واقعات میں مسلمانوں کو پکڑ کر ان سے بالجبر جے شری رام کے نعرے لگوانے کی ضد کی ہے۔ مسجدوں کے آگے کھڑے ہوکر شرپسندوں کے ہجوموں نے جے شری رام کے نعرے لگاکر فضا کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ماب لنچنگ کے واقعات میں جے شری رام کے نعرے لگاکر بے قصوروں کو مارا گیا ہے۔ بعض مقامات پر مسجدو ں کی دیواروں پر جے شری رام کے نعرے لکھے گئے ہیں۔
عدالت سے پوچھا جانا چاہئے کہ کیا یہ سب ان شرپسندوں نے جذبہ خیر سگالی کے تحت کیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر کرناٹک کی مذکورہ مسجد میں گھس کر جے شری رام کا نعرہ لگانے سے کیسے ہم آہنگی کو فروغ مل سکتا ہے۔ جسٹس ایم ناگ پرسنا نے مذکورہ ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا ایک جواز یہ بھی پیش کیا ہے کہ مسلم فریق نے خود کہا ہے کہ اس علاقہ میں ہندو مسلمان خیر سگالی کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ جج صاحب اتنی سی بات سمجھنے سے قاصر رہے کہ مسلمانوں کی یہی تو شکایت ہے کہ جب ایک عرصہ سے ہندو اور مسلمان خیرسگالی اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے آئے ہیں تو پھر اب غنڈوں کی طرح مسجد میں گھس کر جے شری رام کا نعرہ لگاکر اس ہم آہنگی کو کیوں خراب کیا جارہا ہے۔ اگر جے شری رام کا نعرہ ہم آہنگی کیلئے لگایا جاتا ہے تو پھر مسلم نوجوانوں کو روک روک کر ان پر یہ نعرہ لگانے کا مجرمانہ دبائو کیوں ڈالا جارہا ہے۔ کیوں اس نعرے کو شرپسندی‘ فساد اور لڑائی جھگڑے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔
تازہ واقعہ تو غازی آباد کی ایک رہائشی سوسائٹی میں ہی رونما ہوا ہے جہاں اردو پڑھانے والے ایک استاذ کے ساتھ چند شرپسندوں نے زیادتی کی ہے۔ اس سلسلہ میں پولیس نے مقدمہ درج کرکے شرپسندوں کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔
یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف مسجد کے ذمہ داروں نے ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کے سامنے اپیل کی ہے یا نہیں۔ تاہم یہ انتہائی ضروری ہے کہ یک رکنی بنچ کے اس بلا جواز اور عبث فیصلہ کے خلاف اپیل ضرور کی جائے۔ مسلم تنظیموں اور مساجد کے ذمہ داروں کو اس فیصلہ کی قباحت اور حساسیت کا ادراک ضرور ہونا چاہئے۔ مسلم تنظیمیں اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کرسکتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مسلم جماعتیں اس طرح کے واقعات سے نپٹنے کیلئے کوئی مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دے لیں۔
Comments are closed.