مسلم بچیوں کی بے راہ روی اور ارتداد کا مسئلہ محب اللہ قاسمی
یہ دور فتن ہے جہاں قدم قدم پر بے راہ روی اور فحاشی کے واقعات رو نما ہو رہے ہیں اس طرح یہ مسئلہ اب سنگین ہوتا جا رہاہے۔ جس نے مسلم معاشرے کو تباہ و برباد کر رکھا ہے۔ کیا شہر! کیا گاؤں اور کیا محلہ!! ہر جگہ اور ہر روز نت نئے مسائل کھڑے ہو رہے اور عجیب و غریب واقعات نے سب کو بے چین کر رکھا ہے۔ مگر بے فکری ایسی کہ ہم ان کے اسباب و وجوہات پر غور کرنا نہیں چاہتے۔ یا اس کے برے اثرات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اس وجہ سے یہ معاملہ مزید سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ہم باریکی سے اس مسئلے پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس کے کئی وجوہات ہیں۔ جس پر غور فکر سے کام لینے کی شدید ضرورت ہے۔ جہاں بہت سے لوگ اس مسئلے کو لے بہت سنجیدہ ہیں اور غور و فکر کر رہے ہیں اور اس کے سد باب کی کوشش میں ہیں۔ مسلم معاشرے کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے میں نے بھی بہت کچھ محسوس کیا، خیال آیا کہ آپ حضرات کے گوش گزار کروں۔
1 دین اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت:
مسلمانوں کے کے اکثر گھروں میں دین سے دوری اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت ہے اس لیے اولاد کو دینی تعلیم اور اسلامی تربیت سے آراستہ کرنا انھیں خدا کا خوف دلایا جائے اور آخرت کے خوفناک انجام سے متنہ کیا جائے، سیرت رسولﷺ ار سیرت صحابہؓ کا درس دینا بھی ضروری ہے جس کے لیے گھر میں کم ازکم ایک دو دن فیملی اجتماع بھی کر سکتے ہیں۔ جس سے گھر کا ماحول بھی دینی رہے گا اور تعلق باللہ کے سبب گھر میں برکت بھی ہوگی۔
2 موبائل کا بے جا استعمال:
موبائل نے ہمارے معاشرے میں عظیم انقلاب برپا کیا ہے جہاں اس کے فوائد ہیں وہیں ان کے انگنت نقصانات بھی رو نما ہو رہے ہیں۔ اس لیے موبائل کا غلط اور تعلیم کے نام پر بے جا استعمال جس پر کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے کہ فحاشی کا فروغ اس کی بڑی وجہ ہے۔ یہ روکنا جب ہی مؤثر ہوگا کہ والدین بھی موبائل کے غیر ضروری استعمال سے بچیں۔
3 والدین اپنے بچوں کا تئیں غیر ذمہ دارانہ رویہ
والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ ریکھ اور ان کی کفالت کے ساتھ ان سے ہمدردی اور محبت رویہ اپنائے اور ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دے یہ نہ سوچیں کہ لڑکیاں ہمارے اوپر بوجھ ہے اسے کوسے طعنہ دیں بلکہ اس کا پورا خیال رکھیں اسے خدا کی جانب سے رحمت جانیں نا کہ اسے بوجھ جان کر زحمت سمجھیں۔ اپنی اولاد کے متعلق والدین کا غیر ذمہ دارانہ رویہ یا چشم پوشی کرنا خواہ ان کی معاشی مصروفیت کی وجہ سے ہو یا اس کی والدہ کا اسے سپورٹ حاصل ہو بہتر نہیں ہے اس خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
4 شادی میں تاخیر اور غیر ضروری رسومات کے سبب نکاح کا مشکل ہونا، رشتہ کی تلاش اور بے جا توقعات کے سبب بچوں کی بڑی عمر تک شادی نہ ہو پانا بھی ایک وجہ ہے جس کے سبب غریب لڑکیاں یا تعلیم یافتہ لبرل خواتین بھی غیرمسلموں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس کے لیے شادی بیاہ کے معاملے کو آسان کرنا اور معاشرے کے کچھ افراد مل کر شادی کرانے کی ذمہ داری اٹھانا بھی ضروری ہے جیسا کہ ہم بچپن میں دیکھتے تھے کہ کچھ لوگ اس معاملے میں بڑے ماہر ہوتے تھے مگر اب سب فکر معاش اور اعلی معیار کی تلاش میں پریشان ہیں۔
5 مسلم معاشرے کے ایسے بااثر شخصیات کو اس بات کے لیے تیار کرنا کہ وہ سماج کی اپنی بہن بیٹیوں کے متعلق کہیں میرج رجسٹرار کے یہاں معلوم کرتا رہے۔ جس سے صحیح صورت حال کا پتہ رہے اور وقت رہتے ہی اسے کا حل نکالا کیا جا سکے۔
6 اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فوری اور عملی طور پر کیا کچھ کیا جاسکتا ہے اس کے لیے ہر گاؤں اور محلہ میں ایک نشست بلائی جائے اور اس میں باہمی مشورے سے کچھ بہتر طریقہ اختیار کرنا مناسب ہو اسے فوری انجام دیا جائے۔
ہر فرد اپنی اپنی ذمہ داری اٹھائے اور تعاونوا علی البر و التقوی کا ثبوت پیش کریں رونہ
اس نسل نو کی حالت یونہی نہ ہوئی بد تر
اس میں تو قصور آخر اپنا بھی رہا ہوگا
محب اللہ قاسمی
Comments are closed.