جامعہ ملیہ اسلامیہ، تحریک خلافت، گاندھی جی اور ترکی
تحریر: افروز عالم ساحل
29 اکتوبر 2024ء میرے کانوں میں ’جامعہ! رقص کناں ہو کہ تیری عید ہے آج۔۔‘ کی صدا گونج رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’مختار احمد انصاری آڈیٹوریم‘ میں بیٹھ کر اس نظم سے لطف اندوز ہورہا ہوں۔ اور بس ابھی جامعہ کا ترانہ ’دیار شوق میرا۔۔۔‘ شروع ہونے والا ہے اور میں زور زور سے اسے گاؤں گا۔ لیکن 104ویں یوم تاسیس کے اس مبارک موقع پر میں اپنے ’دیار شوق‘ میں نہیں، بلکہ ترکی کے استنبول شہر میں ہوں اور یہاں کے لوگ اپنے ’یوم جمہوریت‘ کا جشن منانے میں مشغول ہیں۔ لیکن میرے دل و دماغ میں پوری طرح سے جامعہ بسا ہوا ہے۔ میرے ذہن میں اچانک خیال آتا ہے کہ کیوں نہ اس مبارک موقع پر ترکی کے ساتھ جامعہ اور گاندھی جی کے رشتے پر تاریخ کے صفحات پلٹے جائیں۔ اس عنوان پر کچھ لکھا جائے۔
پہلے تو لگا کہ بھلا جامعہ اور ترکی کا کیا رشتہ ہوسکتا ہے؟ لیکن جب میرے ذہن میں جامعہ کی وجود کی کہانی آئی تو یاد آیا کہ دراصل، یہ جامعہ، خلافت عثمانیہ کو لے کر چلنے والی تحریک ’تحریک خلافت‘ کی دین ہے۔ جسے 1920 میں ترکی میں خلافت اور ہندوستان میں عدم تعاون تحریک کی حمایت کے لیے برطانوی حکومت کے خلاف احتجاج کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ جو آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہے اور تشنگان علم کی سیرابی کر رہا ہے۔ یعنی اس جامعہ کے وجود کی وجہ کی کہانی ہی ترکی کی کہانی سے شروع ہوتی ہے۔
یہ بات سال 1919 کی ہے۔ انگریزوں نے ترکی پر جارحیت کا مظاہرہ شروع کردیا تھا۔ ترکی کے خلاف یہ کارروائیاں مسلمانان ہند (تب موجودہ پاکستان بھی ہندوستان ہی تھا) کو پریشان کرکے رکھ دیا۔ لوگوں کے دل و دماغ غصے سے بھر گئے۔ ہر فرد یہ سوچنے لگا کہ ترکوں کے خلاف برطانیہ نے نہایت نا انصافی کی ہے۔ نتیجے میں یہاں احتجاجی جلسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ لکھنؤ کی ’آل انڈیا مسلم کانفرنس‘ میں ’خلافت کمیٹی‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ ادھر محمد علی جوہر نے وائسرائے ہند مسٹر چیمسفورڈ کو 24 اپریل 1919 کو ایک طویل خط لکھ کر آگاہ کیا کہ خلافت کے معاملے میں دست درازی نہ کی جائے اور مقبوضہ علاقے ترکوں کو واپس کر دیے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی یہاں ’تحریک خلافت‘ کا دور شروع ہوا۔
علی برادران (مولانا محمد علی اور شوکت علی) گاندھی جی کے ساتھ ملک کے دورے پر نکل پڑے۔ وہ لوگوں سے برطانوی حکومت کے ساتھ عدم تعاون کی اپیل کر رہے تھے۔ ستمبر 1920 میں کلکتہ کانگریس کے خصوصی اجلاس میں گاندھی جی نے یہ تحریک پیش کی کہ ترکی کے زیادتی کی مخالفت اور ملک کی آزادی کے لیے سرکاری تعلیم کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ اپنی مہم کے تحت علی برادران، سوامی ستیہ دیو اور گاندھی جی 11 اکتوبر علی گڑھ پہنچے۔ 12 اکتوبر کو علی گڑھ کے یونین ہال میں ان کی تقریریں ہوئیں اور ’’مسلم نیشنل یونیورسٹی‘‘ کھولے جانے کا خواب پروان چڑھا۔
29 اکتوبر 1920 کو علی گڑھ مسجد میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کی تقریر کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاح کا اعلان کیا گیا۔ اور اسی وقت شیخ الہند کے ہاتھوں رسم تاسیس ادا ہوئی۔ آج اسی یونیورسٹی کو دنیا ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ کے نام سے جانتی ہے اور یہی جامعہ آج اپنی عمر 104 سال مکمل کر چکا ہے۔
گاندھی نے جامعہ میں سنی ترکی کی کہانی
گاندھی جی نے 19 جنوری 1935 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تقریر کی تھی۔ وہ یہاں ترکی سے آئی خالدہ ادیب خانم کے لیکچر کی صدارت کر رہے تھے۔
’’میں نہیں جانتا کہ آپ لوگ جب بیگم صاحبہ کی زبانی ترکی کی کہانی سن رہے تھے، تب میری طرح آپ بھی ترکی اور ہندوستان کے تاریخ کا موازنہ کر رہے تھے یا نہیں۔ ان دونوں ملکوں کی کہانیوں میں مجھے کئی باتیں بالکل ایک جیسی نظر آئیں۔ ’بنا پیر سہے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘ اور ترکی کی یہ کہانی سن کر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی نہ جانے کیا کیا تبدیلیاں ہونے کو ہیں۔ اس فانی دنیا میں ہر چیز فنا ہونے والی یا بدلنے والی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ جس دنیا کے نقشے پر ترکی اور ہندوستان معمولی دھبوں کے طرح دکھائی دیتے ہیں،آگے چل کر ان ممالک میں کون کون سی تبدیلیاں رونما ہوں گی ۔ مگر ہمارے لیے یہ جان لینا بہتر ہوگا کہ ہندوستان کی اور ہر فرد کی چاہے جو رفتار ہو، وہ اس کے اپنے ہی کاموں کی رفتار ہے۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ حقیقی تاریخ شہنشاہوں اور شاہی خاندانوں کی تاریخ نہیں ہے، بلکہ اس کے تخلیق کار تو عموماً عام مرد اور عورتیں ہوتی ہیں۔ چند ایسے لوگ جن کی دنیا نے ان کے آخری وقت میں خبر بھی نہیں لی اور مصیبتوں کو جھیلتے جھیلتے ہی جہاں فانی سے کوچ کرگئے، وہی سچے بہادر تھے، نہ کے بڑے بڑے شہنشاہ — انہوں نے دنیا میں چاہے کتنی ہی بڑی سلطنتیں قائم کیوں نہ کی ہوں، اور دنیا میں تباہی و بربادی لانے میں ان کا کتنا ہی ہاتھ کیوں نہ رہا ہو۔ دنیا میں لوگوں کی تاریخ ابھی تیار ہو رہی ہے۔۔۔ ترکی کی کہانی سن کر میں تو اس امید پر پہنچا ہوں کہ اگر ہم نے سچ کو اور صرف سچ کو ہی زندگی کا ہدف بناکر کام کیا تو ہم سب لوگوں کا مستقبل روشن ہی ہوگا۔ ہندوستان اور ترکی ایک اٹوٹ ڈوری سے اس لیے نہیں بندھے ہوئے ہیں کہ ان دونوں ملکوں نے ایک جیسی آفات جھیلی ہیں، بلکہ اس لیے کہ ہمارے ہندوستانی مسلمانوں کی طرح ترکی میں بھی مسلمانوں کی آبادی کروڑوں میں ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے ملک میں بیگم صاحبہ کی آمد کا یہ نتیجہ ہو کہ یہاں کے ہندو اور مسلمان ہمیشہ کے لیے محبت کی ایک اٹوٹ ڈوری سے بندھ جائیں۔‘
خالدہ ادیب خانم ایک ترک خاتون تھیں، جنہوں نے ترکی کے انقلاب میں نمایاں حصہ لیا تھا۔ یہ ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی دعوت پر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں لیکچر دینے کے لیے ہندوستان آئی تھیں۔ جامعہ میں انہوں نے ’ترکی میں مشرق اور مغرب کی جدوجہد‘ کے عنوان سے آٹھ تقریریں کیں۔ ان کے لیکچرز کا سلسلہ 15 جنوری 1935 سے شروع ہو کر 9 فروری 1935 کو ختم ہوا۔ ان کے اپنے پہلے خطاب کی صدارت ڈاکٹر انصاری نے کی۔ دوسرے کی مہاتما گاندھی، تیسرے کی مولانا شوکت علی، چوتھے کی سید سلیمان، پانچویں کی ڈاکٹر اقبال، چھٹے کی بھولا بھائی دیسائی، ساتویں کی سروجنی نائیڈو اور آٹھویں کی صدارت ڈاکٹر بھگوان داس نے کی تھی۔
خالدہ ادیب خانم کے بارے میں مہادیو دیسائی ایک جگہ لکھتے ہیں — وہ آئیں اور گاندھی جی کے قریب بیٹھ کر بولیں، ’’میں آپ سے تعلیم لینے اور اپنے ہم وطنوں کے لیے جو کچھ لے جا سکوں،وہ لینے کے لئے آئی ہوں۔‘‘ گاندھی جی اس وقت جامعہ میں ہی ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے 9 جنوری 1935 کو گاندھی جی کا ایک انٹرویو بھی لیا، جو 25 جنوری 1935 کے ’ہریجن‘ میں بھی شائع ہوا ہے۔
بتا دیں کہ بجنور سے نکلنے والے ’مدینہ‘ اخبار کے ایک خبر کے مطابق 25 جنوری 1935 کو صبح 11.30 بجے خالدہ ادیب خانم کے بھتیجے کمال عاطف بیگ کا اچانک انتقال ہو گیا۔ وہ 23 جنوری کی رات ڈاکٹر ارشاد بیگ کے ساتھ کابل سے اپنی چچی کو لینے کے لیے دہلی آئے تھے اور ڈاکٹر مختار انصاری کے گھر پر ہی ٹھہرے تھے۔
خالدہ ادیب خانم اور جامعہ
خالدہ ادیب خانم اپنی کتاب "Inside India” میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بارے میں لکھتی ہیں ’’اگر کوئی ہندوستان میں کام کرنے والی قوتوں کو سمجھنا چاہتا ہے تو اسے جامعہ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ اس ادارہ کے دو مقاصد ہیں۔ پہلا، ہندوستانی شہری کی شکل میں اپنے حقوق اور فرائض کے خیالات کے ساتھ مسلم نوجوانوں کو تربیت دینا۔ دوسرا، ہندوؤں کے ساتھ اسلامی فکر و عمل کا تال میل پیدا کرنا۔ موٹے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایک ہم آہنگ قوم کی تعمیر کی جائے اور ساتھ ہی مسلمانوں کی اپنی شناخت بھی بنی رہے۔ اگر ہمیشہ اپنے طور طریقوں میں نہیں بھی تو کم از کم اپنے مقصد میں یہ ادارہ گاندھیائی نظریہ کے بہت قریب تھا۔ کسی اور مسلم ادارے میں میں نے یہ خوبی نہیں پائی تھی۔
یکم مارچ 1935کو جامعہ کے سب سے چھوٹے طالب علم عبدالعزیز کے ہاتھوں اوکھلا میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ یہ کام 10 سال کے جامعہ کے سب سے چھوٹے بچے نے کچھ دوسرے بچوں کی مدد سے کیا تھا۔ اس موقع پر خالدہ ادیب خانم بھی موجود تھیں اور انہوں نے اس موقع پر انتہائی جذباتی تقریر بھی کی۔
واضح ہو کہ جامعہ کی اس عمارت کے چیف آرکیٹیکٹ کارل ہینز تھے۔ کارل ہینز ترکی کے ایک شہزادہ عبدالکریم کے ساتھ حیدرآباد پہنچے تھے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین اور کارل ہینز جرمن زبان کے علم کی وجہ سے جلد ہی دوست بن گئے۔ ہینز نے رضاکارانہ طور پر جامعہ کے لیے بغیر کسی معاوضے کے عمارتیں ڈیزائن کیں۔ کارل ہینز کے ڈیزائن کی عملی شکل مستری عبداللہ نے دیی۔ انجینئر خواجہ لطیف حسن پانی پتی نے بھی کبھی کبھار رضاکارانہ طور پر تعمیراتی کام کی نگرانی کی۔
ترکی کے ساتھ سلوک کی شرائط سے بہت متاثر ہوئی تھی گاندھی کی رائے
تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ گاندھی جی کی رائے ترکی کے ساتھ سلوک کی شرائط سے بہت متاثر ہوئی تھی۔ دی ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق 12 اکتوبر 1920 کو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علی گڑھ کے پرنسپل ضیاء الدین نے گاندھی جی سے ملاقات کی اور انہیں طلبا کے ذہنوں کو متاثر نہ کرنے کے لیے منانے کی کوشش کی۔ پرنسپل ضیاء الدین کو اس بات پر اعتراض تھا کہ گاندھی جی نے اساتذہ، ٹرسٹیز اور پرنسپل کی رضامندی کے بغیر طلباء سے براہ راست اپیل کی۔ لیکن گاندھی جی نے جواب دیا کہ ’انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے اور اعلیٰ سیاست کے لیے تعلیم کو ترک کرنا ضروری ہے۔ ان کی رائے ہنٹر کمیٹی کی رپورٹ اور ترکی کے ساتھ اس کے معاملات کی شرائط سے بہت متاثر ہوئی ہے۔‘
دی ٹائمز آف انڈیا کے مطابق گاندھی جی 13 اکتوبر کو علی گڑھ میں تھے۔ اخبار لکھتا ہے،13 اکتوبر کی رات لیال لائبریری کے احاطے میں علی گڑھ کے شہریوں کا ایک اجتماعی اجلاس منعقد کیا گیا۔ گاندھی جی اور سوامی ستیہ دیو نے عدم تعاون پر بات کی۔ محمد علی جوہر نے یورپی سیاست میں اپنے حالیہ تجربات بیان کئے۔
انہوں نے کہا کہ ’ترکی کی بدقسمتی کا ذمہ دار صرف انگلینڈ ہے کیونکہ فرانس اور اٹلی بڑی حد تک حالات کو ترکی کے حق میں موڑنے کے لیے تیار تھے۔ مسلمانوں کو اب خلافت کے پرچار کو پس منظر میں رکھنا چاہیے اور پہلے ہندوستان کو آزاد کرانے کی کوشش کرنی چاہیے، اس لیے ہر طرح سے ہندوؤں کے ساتھ اتحاد ہونا چاہیے۔‘ اسی اجلاس میں عدم تعاون کے لیے کام کرنے کے لیے ایک ورکنگ کمیٹی بھی بنائی گئی۔ اسی دن اس اخبار میں طلبا کی قرارداد بھی شائع ہوئی تھی۔ قرارداد میں پہلی بات یہی تھی کہ ’علی گڑھ کالج کے طلبا کا یہ اجلاس برطانوی حکومت کے ترکی کے تئیں اختیار کیے گئے رویہ کی شدید مذمت کرتا ہے۔‘
گاندھی جی حکومت ہند کے سکریٹری ایس آر ہنگنیل کو 7 اگست 1919 کو ایک خط میں لکھتے ہیں’’ اگر کمزور قوموں کے ساتھ ایسا ہی برتاو کیا جائے گا جیسا کہ لگتا ہے ترکی کے ساتھ کیا جانے والا ہے تو پھر امن کی بات ایک مذاق بن کر رہ جائے گی۔ اس پورے معاملے میں عدل وانصاف کے سوال کے علاوہ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا حکومت ہند اس بات کے لیے تیار ہے کہ سلطنت کے کروڑوں شہریوں کے دلوں میں عدم اطمینان اسی طرح سلگتا رہے۔ میں نہیں مان سکتا کہ خلافت کے سوال کا کوئی مناسب حل نکالنا وائسرائے کی طاقت سے باہر ہے‘‘۔
7 ستمبر 1919 کو گاندھی جی نے گجراتی فوجیوں میں ترکی پر ایک مضمون بھی لکھا کہ ’’ترکی کے مسئلہ کا تعلق ہندوستان کے آٹھ کروڑ مسلمانوں سے ہے اور جو سوال عوام کے چوتھائی حصہ پر لاگو ہوتا ہے، وہ پورے ہندوستان کا ہی ہے۔ عوام کے چوتھائی حصے کو چوٹ پہنچے اور ساری عوام پر اس کا اثر نہ ہو، یہ ناممکن ہے۔ اگر ایسی چوٹ کا اثر نہ ہو تو ہم ایک قوم نہیں کہلائے جاسکتے، ہم ایک جسم نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ہندو اور مسلمان سب کا فرض ہے کہ وہ ترکی کے مسئلہ کی اہم باتوں کو جان لیں۔ اگست 1914 میں جب لڑائی شروع ہوئی، اس وقت ترکی کی جو صورتحال تھی، وہی آج بھی ہونی چاہیے، یہ ترکی کا مطالبہ ہے، ہندوستان میں آباد مسلمان بھائیوں کا مطالبہ ہے۔‘‘
گاندھی جی اپنے اس طویل مضمون کے آخر میں یہ بھی لکھتے ہیں، جیسے مسلمانوں کا فرض ہے، ویسے ہی ہندو اور دیگر ذاتوں کا بھی ہے۔ اگر وہ مسلمانوں کو اپنا قابل احترام پڑوسی اور بھائی مانتے ہوں تو انہیں ان کی مذہبی مطالبے کی مکمل حمایت کرنی چاہیے۔ ہند میں پیدا ہونے والے تمام لوگوں کو ساتھ ہی جینا اور ساتھ ہی مرنا ہے۔ ایک کو پامال کر کے دوسرا کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ ایک کے حقوق کو چھینتے دیکھ کر اگر دوسرا خاموش بیٹھا رہے گا تو وہ اپنے حقوق کا تحفظ بھی نہیں کر پائے گا۔
خلافت کمیٹی کی جانب سے پورے ہندوستان میں 17 اکتوبر، 1919 کو ترکی کے خلیفہ کے لیے ’یوم دعا‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس موقع پر گاندھی جی نے پریس کو اپنا بیان جاری کیا۔ اس بیان میں گاندھی جی کہتے ہیں، ایک سچا مسلمان ترکی کو تقسیم ہوتا دیکھ کر خاموش رہ سکے، یہ اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ کسی عیسائی کے لیے اس جگہ کو برباد ہوتے دیکھ کر خاموش رہنا جو اسے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے اور اس کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندو کیا کرے؟ مجھے لگتا ہے کہ انہیں اپنے مسلمان بھائیوں سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ ہندوؤں کے ذریعہ اپواس اور پرارتھنا کیا جانا دوستی اور بھائی چارے کی سب سے سچی کسوٹی ہوگی۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہر ہندو عورت ومرد 17 اکتوبر کو اسی انداز سے منائیں گے، اور اس طرح ہندو مسلم تعلقات پر ایک مقدس مہر لگا دے گا۔ گاندھی جی کا یہ بیان بمبئی کرانیکل میں 13 اکتوبر 1919 کو شائع ہوا تھا۔
اس طرح گاندھی جی نہ صرف ہندوستان میں چل رہی خلافت تحریک میں سرگرم رہے، بلکہ مرتے دم تک وہ ترکی کے حق میں بولتے اور لکھتے رہے اور ہمیشہ ترکی کی ترقی اور خوشحالی کے خواہشمند رہے۔ انہیں ترکی کی ہمیشہ فکر رہی۔ اسی لیے وہاں کے اہم رہنماوں سے ملتے بھی رہے۔ زیادہ تر مورخین اس بات کو مانتے ہیں کہ بھارت کی آزادی میں خلافت تحریک اور اس کے نتیجے میں شروع ہوئی عدم تعاون تحریک کا سب سے اہم رول رہا ہے۔
104 سال بعد بھی یہ یونیورسٹی بھارت میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ اس یونیورسٹی میں سال 2017 میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان صاحب بھی تشریف لا چکے ہیں اور جامعہ نے انہیں ڈاکٹر آف لیٹرز کی اعزازی ڈگری دی تھی۔ انہوں نے یہاں اس موقع سے اپنی تقریر میں خود کہا تھا کہ ’ترکی کے خلافت تحریک اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ گاندھی جی نے اپنے ملک کی آزادی کی تحریک کو خلافت تحریک سے جوڑ کر تاریخی کام کیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی اسی تحریک کا حصہ ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانی خلافت تحریک کے رہنما رہے ہیں۔‘
Comments are closed.