کشن گنج اور سیمانچل میں فتنۂ قادیانیت کا بڑھتا خطرہ اور علماء کی ذمہ داری

تحریر: مولانا آفتاب اظہر صدیقی
(جنرل سکریٹری: مجلس احرار اسلام صوبہ بہار)
”عقیدہ ختم نبوت“ یعنی ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، یہ عقیدہ ہمارے ایمان کا لازمی اور ضروری حصہ ہے جس پر قرآن و حدیث کے واضح دلائل موجود ہیں۔
کشن گنج، جو اپنے علمی اور دینی ماحول کی وجہ سے جانا جاتا ہے، یہاں چند سال قبل فتنۂ قادیانیت نے اپنی جڑیں پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ علماء کرام نے اس فتنے کے خلاف زبردست جدوجہد کی اور اس کا بھرپور رد کیا، جس کے باعث ایسا لگا کہ یہ فتنہ یہاں سے مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ تاہم، حالیہ اطلاعات اور شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ فتنہ اب بھی سرگرم ہے اور خاموشی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ستمبر کے ایک ہندی ماہنامے نے یہ بات واضح کردی ہے کہ قادیانیت کا زہر اس علاقے میں ابھی تک موجود ہے۔
فتنۂ قادیانیت کی خطرناکی اور اس کا چیلنج:
قادیانیت تمام فتنوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے باطل عقائد کو اسلام کے نام پر پھیلاتے ہیں۔ یہ فتنہ نہ صرف عقائد کو بگاڑتا ہے بلکہ نوجوان نسل کو اسلام کے حقیقی پیغام سے دور کر کے انہیں کفر کی وادی میں لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ قادیانی خود کو مسلمان کہلوا کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، اور اس سے نہ صرف مسلمانوں میں انتشار پیدا ہوتا ہے بلکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات بھی مجروح ہوتی ہیں۔
علماء اور عوام کی ذمہ داری:
اب وقت آگیا ہے کہ علماء، حفاظ اور عوام الناس اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور اس فتنے کے خلاف ایک منظم اور بھرپور تحریک چلائیں۔ کشن گنج کے اکابر علماء کو چاہیے کہ وہ اس فتنے کی روک تھام کے لیے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دیں اور اس سلسلے میں علاقے کے ذمہ دار اور دیندار افراد کو شامل کریں تاکہ وہ اس فتنے کے فروغ کو روکنے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کرسکیں۔
فتنہ قادیانیت کا رسالہ اور دیگر مواد کس طرح علاقے میں آ رہا ہے، اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ قادیانی مواد کو یہاں تک پہنچانے والے افراد کو بے نقاب کرنا اور ان پر قانونی کارروائی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ علماء کرام اور اسلامی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ایک مربوط نظام وضع کریں جس کے ذریعے اس قسم کے مواد کی روک تھام کی جا سکے۔
تحفظ ختم نبوت اور رد قادیانیت کے پروگرام:
تحفظ ختم نبوت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ کشن گنج اور اس کے اطراف کے تمام علاقوں میں رد قادیانیت اور تحفظ ختم نبوت کے پروگرامز منعقد کیے جانے چاہییں۔ ان پروگرامز میں عوام کو قادیانیت کے خطرات سے آگاہ کیا جائے اور ختم نبوت کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ مختلف مساجد، مدارس، اور تعلیمی اداروں میں تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے خصوصی نشستیں منعقد کی جائیں تاکہ نوجوان نسل کو اس فتنے سے محفوظ رکھا جا سکے۔
اجتماعی بیداری کی ضرورت:
ہر مسلمان کو اپنی دینی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے اور اس فتنہ کے خلاف بیدار رہنا چاہیے۔ محض علماء پر انحصار کرنے کے بجائے عوام بھی اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں ایسے افراد پر نظر رکھیں جو قادیانی مواد پھیلا رہے ہیں۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس فتنے کا علمی رد کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کے اہل و عیال اس سے محفوظ رہیں۔
کشن گنج میں فتنہ قادیانیت کے بڑھتے ہوئے خطرے کو نظرانداز کرنا ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام علماء، تنظیمیں، اور عوام یکجا ہو کر اس فتنہ کا مقابلہ کریں اور قادیانی عناصر کے خلاف ایک مضبوط اور منظم تحریک چلائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس فتنے کے خاتمے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ایمان کو سلامت رکھے۔ آمین!
Comments are closed.