کناڈا، مندر اور مسجد

 

شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

کناڈا میں ایک ہندو مندر پر ، خالصتان نوازوں کے حملے پر وزیر اعظم نریندر مودی نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ پی ایم نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کناڈا کی جسٹن ٹروڈو حکومت پر سخت تنقید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ قصور واروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے ۔ وزارت خارجہ کی طرف سے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے ۔ پی ایم اور ہندوستانی وزارت خارجہ کے ردعمل کو دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے ، ایک تو اس تنازع کی روشنی میں جو ایک خالصتانی سکھ نجر کے قتل کے بعد اٹھا ہے ۔ اور دوسرا خود ہندوستان کے اندر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی عبادت گاہوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے واقعات کی روشنی میں ۔ جہاں تک نجر کے قتل کا معاملہ ہے تو ہندوستان کی طرف سے بار بار کی تردید کے باوجود کناڈا مسلسل یہ الزام عائد کیے جا رہا ہے ، کہ کناڈا کے اندر سکھ علحیدگی پسندوں کے قتل کی وارداتوں میں ہندوستانی ایجنسیاں ملوث ہیں ۔ بلکہ کناڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے یہ تک کہنے کی جسارت کر دی ہے کہ ، کناڈا میں قتل کی وارداتوں میں ہندوستان کے وزیر داخلہ امیت شاہ کا ہاتھ ہے ، یعنی نجر اور دوسرے علحیدگی پسند امیت شاہ کے حکم پر مارے گیے ہیں ! یہ پہلا موقع ہے جب ایک ملک کے وزیر داخلہ کا نام قتل کی وارداتوں سے یوں کھلے عام جوڑا گیا ہے ، اور وہ بھی ایک ملک کے وزیر اعظم کے ذریعے ۔ یہ ایک بہت ہی سنگین الزام ہے ، اور اس پر ہندوستان نے سخت جواب بھی دیا ہے ، لیکن کناڈا اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے ، نتیجتاً دونوں ملکوں کے تعلقات ، جو ویسے ہی خراب تھے مزید خراب ہو گیے ہیں ۔ اس معاملہ میں ہندوستان تقریباً تنہا پڑ گیا ہے کیونکہ امریکہ اپنے پڑوسی کناڈا کے ساتھ کھڑا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ہندوستان کو چاہیے کہ وہ کناڈا سے تعاون کرے ۔ ان حالات میں برمپٹن کے مندر پر حملے کی افسوس ناک واردات نے ہندوستان کو سانس لینے کا موقع دیا ہے اور اس نے علحیدگی پسند سکھوں کے بیانیہ کو اپنے دفاع میں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔ ہندوستان کو مندر پر حملہ کی مذمت کرنا بھی چاہیے تھی ، کیونکہ یہ حملہ ہندوستانی کمیونٹی پر حملہ مانا جاتا ہے، لیکن اسے اس معاملہ میں کناڈا کی حکومت سے اور سکھ کمیونٹی سے سنجیدہ مذاکرات بھی کرنا چاہیے تاکہ مسئلے کا حل نکل سکے ۔ ہو یہ رہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں ملک اور بیرون ملک ہندوؤں اور سکھوں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے ، جسے اچھی بات نہیں کہا جا سکتا ۔ اب اس معاملہ کو ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے دیکھیں ۔ بہرائچ میں ایک مسلمان کے مکان سے بارہ وفات کا جھنڈا اتارا گیا جس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا ، مسلمان ہی تباہ برباد ہوئے ۔ بہار میں مسجد پر چڑھ کر بھگوا جھنڈا لہرایا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی ۔ ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں ۔ بابری مسجد تو سپریم کورٹ کے ایک غلط فیصلے کے سبب پہلے ہی ہڑپ لی گئی تھی ، اب مزید مسجدیں نشانہ پر ہیں ۔ مودی حکومت ان سب معاملات پر یا تو منھ سیئے ہوئے ہے یا کھلے طور پر شرپسندوں کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے ۔ مسلم ممالک کی تنظیمیں اول تو ان واقعات پر سوال کرتی ہی نہیں ہیں ، اور اگر سوال کرتی بھی ہیں تو یہ کہہ کر زبان بند کرا دی جاتی ہے کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے ۔ یاد رہے اندرونی معاملہ یکطرفہ نہیں ہوتا ، جب آپ کسی کو بولنے نہیں دیں گے تو آپ کی بات بھی نہیں سنی جائے گی ۔ حکومت ہند کو چاہیے کہ وہ صرف ہندو ہندو نہ کرے بلکہ سب کی بات کرے تاکہ دوسرے ملکوں کے لوگ حکومت پر بھروسہ کر سکیں ۔ فرقہ پرستی ، تعصب اور جانبداری کا دورانیہ مختصر ہوتا ہے، ایسی حکومت دنیا میں تنہا پڑ جاتی ہے ۔ مندر حملہ معاملہ میں یہی ہوتا نظر آ رہا ہے ۔

Comments are closed.