دارالعلوم ندوۃ العلماء کی سیردوسری قسط 

 

فتح محمد ندوی کھجناوری

 

اگلے دن سنیچر کو ہماری ملاقات جناب مولانا سید صہیب صاحب حسینی مدظلہ العالی شیخ التفسیر دارالعلوم ندوۃالعلماء سے ہوئی۔ آپ مولانا سید طاہر حسینی مظاہری منصور پوری نوراللہ مرقدہ کے چھوٹے صاحبزادے ہیں۔ ڈاکٹر مولانا سید عبد العلی حسنی نوراللہ مرقدہ کے نواسے ہیں، مولانا سید سلمان حسینی ندوی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اور سید شاہ نفیس الحسینی نوراللہ مرقدہ کے خلیفہ مجاز ہیں۔آپ کی پیدائش (1963) لکھنؤ میں ہوئی۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے 1986ء میں فراغت پائی۔ اس کے بعد جامعۃ الہدایہ جے پور راجستھان میں چھے سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر جامعہ سید احمد شہید کٹولی کے مسند اہتمام پر کئی سال تک فائز رہے۔تقریبا چودہ سال سے دارالعلوم ندوۃالعلماء میں. تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

غرض آپ کی ذات بہت سی صفات کی جامع ہے۔آپ

برصغیر کے معروف اسلامی اسکالر، مایہ ناز مفسر داعی اسلام، عالمی شہرت یافتہ خطیب اور کئی گراں قدر قیمتی کتابوں کے مصنف ومؤلف ہیں،اس ملاقات پر مولانا سید صہیب صاحب حسینی ندوی دامت برکاتہم العالیہ کی شخصیت اور فکر و خیال کے بہت سے اہم گوشوں تک رسائی حاصل ہوئی۔

 

وہاں سے فارغ ہونے کے بعد ہماری ملاقات مولانا عبد العزیز بھٹکلی ندوی مدظلہ العالی سے ہوئی آپ اس وقت دارالعلوم ندوۃالعلماء کے نائب مہتمم ہیں حضرت مولانا سعید الرحمٰن اعظمی صاحب کی علالت کے سبب آپ کے بہت سے کاموں کو دیکھ رہے ہیں۔دیر تک آپ کی بڑی دلچسپ اور معلوماتی گفتگو سے محفوظ ہونے کا موقع ملا .دارالعلوم ندوۃالعلماء کے طلباء کو علم و کتاب سے وابستہ رکھنے کی ان کی جد و جہد اور کوششوں کو دیکھ کر دارالعلوم ندوۃالعلماء کے ان قدیم اساتذہ کی یاد زندہ ہوجاتی ہیں جن ہوں نے طلباء دارالعلوم کو کتابوں سے استفادہ کے لئے مرتب اور منظم بلکہ فائدہ بخش نظام کی طرح ڈالی۔

 

مغرب کی نماز ندوۃالعلماء کی عالی شان مسجد میں ادا کرنے کے بعد ہم پروگرام کے مطابق دارالعلوم ندوۃالعلماء کے صدر مفتی ۔جناب مولانا نیاز احمد صاحب ندوی دامت برکاتہم العالیہ کے گھر پہنچے۔مولانا نے اپنے بذلی سنجی انداز میں خادم سے چائے وغیرہ کے انتظام کے لئے کہا ۔گفتگو کا آغاز ہمارے دوست مولانا محسن ندوی کی طرف سے ایک فتوی کے استفسار سے ہوا۔ہم لوگ پہلے سے مولانا نیاز احمد صاحب ندوی کے علمی رسوخ اور فقہی بصیرت سے واقف تھے۔اس فتوے کی تمام جزیات پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے آپ نے تسلی بخش جواب عطاء فرمایا۔

 

مولانا نیاز احمد ندوی صاحب کی پیدائش( 1381ھ 4 فروری 1962 ء ) اتر پردیش کے ضلع مئو کے ایک گاؤں مئوناتھ بھنجن میں ہوئی ۔مشکوٰۃ شریف تک تعلیم دارالعلوم منو میں حاصل کی ۔یہاں کے بعد مزید تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے ۔جہاں آپ نے بخاری شریف حضرت اقدس مولانا نصیر خان صاحب بلند شہری نوراللہ مرقدہ اور جلد ثانی حضرت اقدس مولانا انظر شاہ کشمیری نوراللہ اور بخاری شریف کا کچھ حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ سے پڑھا۔. مسلم شریف حضرت مولانا عبد الاحد نوراللہ مرقدہ اور حضرت اقدس مولانا نعیم صاحب نوراللہ مرقدہ سے مشترکہ طور پر پڑھی اور ترمذی شریف حضرت علامہ حسین احمد بہاری سے پڑھی. حضرت اقدس مولانا معراج الحق صاحب سے پڑھی سنن ابو داؤد شریف مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ سے اور سنن نسائی اور موطاء امام مالک مفتی سعید پالنپوری نوراللہ مرقدہ سے ۔اور سنن ابن ماجہ شریف اور موطاء امام محمد علامہ قمر الدین سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔

عالم اسلام کی ان بافیض شخصیات کے چشمہائے صافی سے کسب فیض کے بعد استاد محترم مولانا نیاز احمد صاحب مدظلہ العالی نے کاشف العلوم اورنگ آباد سے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز کیا. تین سال تک آپ کا یہاں قیام رہا اس کے بعد مطاہر علوم بنارس میں چار سال تک علم و کتاب کا نور اور روشنی بکھیرتے ہوئے گلشن مونگیری اور خم کدۂ شبلی دارالعلوم ندوۃالعلماء کی رونق بن گئے۔

اہل ندوہ پہلے دن سے علم و کتاب سے وابستہ شخصیات کے قدردان رہے ہیں 1989 میں آپ کی علمی شہرت جب اعتبار سے گزر کر محبوبیت کے مرحلوں داخل تو آپ کو ندوۃالعلماء اکے ذمے داروں نے تدریسی خدمت کے لئے طلب کرلیا۔تقریبا تین دہائیوں سے آ٘پ دارالعلوم ندوۃالعلماء میں میراث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم میں مصروف عمل ہیں۔ ہمیں ایک سال تک آپ کے دریائے علم سے سیرابی کی توفیق عطا ہوئی۔ (جاری)

Comments are closed.