کملا ہیریس کوان کی اسرائیل نوازی لے ڈوبی

ڈاکٹر سلیم خان
عام طور پر ریپبلکن پارٹی کو سفید فام عیسائی انتہا پسندوں کی جماعت سمجھا جاتا اس لیے تارکین وطن مسلمانوں کی ہمدردیاں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب ہوتی ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ غزہ کے معاملے میں صدر جوبائیڈن کی زبان پر امن اور عمل میں جنگ ہوتی تھی۔ ان کے ہونٹوں پر مظلوم سے ہمدردی جتائی جاتی اور ہاتھوں سے ظالم کو مالی و حربی مدد دینے کا کام لیا جاتا ۔ ان کے نقشِ قدم پر چلنے والی نائب صدر کملا حارث اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نےپارٹی کی لٹیا ڈبودی ۔۷؍ اکتوبر حملے کے ۷؍ دن بعد امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے غزہ پر اسرائیل کی جانب سے چھ ہزار بم گرائے جانے کے دوران تل ابیب میں وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اسرائیل کیلئے امریکی حمایت کا اعادہ کیا تھا ۔انہوں نے رعونت سے کہا تھا کہ جس طرح داعش کو کچل دیا گیا اسی طرح حماس کو بھی کچل دیا جائے گا۔ حماس تو کچلا نہیں جاسکا کیونکہ وہ تو اب نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا جنگ بندی کا وعدہ یاد دلارہا ہے مگر امریکی عوام نےبلنکن سمیت حارث اور بائیڈن کو روند کر راندۂ درگاہ کردیا۔ بلنکن کا یہ بیان تاریخ کا حصہ ہے کہ ’میں سیکرٹری آف اسٹیٹ کے طور پر آیا ہوں اور ایک یہودی کے طور پر بھی‘۔ بین الاقوامی سطح پر اس طرح کی فرقہ واریت کا مظاہرہ کرنے سے تو مودی اور شاہ بھی ہچکچائیں گے۔
امریکی وزیر خارجہ نے جوشِ خطابت میں اپنے چہرے پر پڑی مہذب نقاب کو نوچ کر پھینکتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’حماس نے خود کو تہذیب کا دشمن ظاہر کیا ہے‘ لیکن گزشتہ ایک سال میں جس سفاکی کا مظاہرہ اسرائیل نے کیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور اس ظلم و جبر میں امریکہ کی شمولیت کا اعلان کرتے ہوئےانٹونی بلنکن نے یہ جھوٹا دعویٰ کیا تھا کہ، ’اسرائیل نے طویل عرصے سے اپنی خود انحصاری پر فخر کیا ہے، وہ خود اپنا دفاع کرنے کے قابل ہے‘‘۔ یہ اگر حقیقت ہوتی تو ایک سال کے اندر کئی بار امریکہ و دیگر یوروپی ممالک کے سامنے جھولی پھیلانے کی نوبت نہیں آتی نیز ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے نیتن یاہو ایران سے تحفظ کی دہائی نہیں دیتے۔ بلنکن نے ڈھٹائی سے کہا تھا کہ’’ میں اپنے ساتھ جو پیغام لایا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ بھلے ہی اپنے دفاع کے لیے مضبوط ہوں، لیکن جب تک امریکا موجود ہے، آپ کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی‘۔انٹونی بلنکن کا یہ اعتراف قابلِ توجہ ہے کہ، ’دفاعی مواد کی ہماری پہلی کھیپ بشمول انٹرسیپٹرز اور گولہ بارود مع دفاعی اہلکار پہلے ہی اسرائیل میں موجود ہے، جبکہ اور بہت کچھ راستے میں ہے۔‘ان کا دعویٰ تھا کہ کانگریس میں اسرائیل کے لیے زبردست دو طرفہ حمایت موجود ہے اور جیسے جیسے سکیورٹی کی ضرورتیں درکار ہوں گی، ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہماری امداد انہیں پورا کرے’۔
بلنکن کو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اسرائیلی ننگی جارحیت کے خلاف ردعمل ہوکر رہے گا اس لیے انہوں نے دھمکی آمیزانداز میں کہا تھا کہ ، ’میں صدر بائیڈن کی کسی بھی مخالف، ریاست یا غیر ریاست کو متنبہ کرتا ہوں کہ اس بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر وہ اسرائیل پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو ایسا نہ کریں۔ اسرائیل کی پشت پر امریکہ ہے۔‘ ایک سال کے اندر یہ بات ثابت ہوگئی کہ امریکی پشت پناہی اسرائیل کے کسی کام نہیں آئی الٹا جب ایران نے اسرائیل پر حملہ کردیا تو امریکی انٹر سیپٹر اسے روکنے میں ناکام ہوگئے۔ کملا حارث نے تسلیم کیا کہ ایرانیوں کے ہاتھوں پر امریکیوں کا خون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے وہ حماس اور ایرانیوں کے حملے میں ہلاک بھی ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد نیتن یاہو نے اس کا انتقام لینے کی دھمکی دی تو بڑی بڑی ہانکنے والے بلنکن کے آقا بائیڈن نے اسے احتیاط سے کام لینے کی تلقین کی اور اس تباہی و بربادی سے روک دیا جس کا وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ اس وقت انٹونی بلنکن نام کا یہودی وزیر خارجہ دم دبا کر بیٹھ گیا۔ کملا حارث کا صیہونی شوہر بھی ان کے پیروں کی زنجیر بن گیا اور ڈیموکریٹک پارٹی کے ذریعہ دن رات اسرائیل کی حمایت نے مسلمانوں کو ان سے پوری طرح بد دل کردیا۔
کملا حارث کی یہود نوازی کے پیچھے صرف خاوندنوازی نہیں بلکہ ٹھوس سیاسی محرکات تھے ۔امریکہ میں روایتی طور پر یہودی رائے دہندگان کا جھکاو ڈیموکریٹس کی جانب ہوتا ہے۔ جیوش ڈیموکریٹک کونسل آف امریکہ کی سربراہ ہیلی سوفر نے مہم کے دوران ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ "یہودی ووٹرز وہ واحد طبقہ ہے جہاں ٹرمپ خاطر خواہ سیندھ نہیں لگا سکے ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ "ہمیں تقسیم کرنے کی بے شمارکوششوں کے باوجود، ہم نے اپنی اقدار کو ووٹ دیا۔” ایگزٹ پولز نے اس دعویٰ کی تائید کی اور لکھا کہ یہودیوں نے 80% کے لگ بھگ ڈیموکریٹس کو ووٹ دینے کی اپنی دیرینہ روایت کو جاری رکھا ۔ ایک ایگزٹ پول نے حارث کو 77% یہودی ووٹ ملنے کی بات کہی جبکہ دوسرے میں 71% کا ذکر تھا۔ پولنگ کے بعد کیے جانے والے تجزیوں میں حارث کو یہودی ووٹ کا 67% حصہ بتایا گیا تھا یعنی یہ دعویٰ درست ثابت ہوا کہ ہر 10میں سے 7 یہودی ووٹر کملاحارث کی حمایت کرتے ہیں ۔
ریپبلکن پارٹی کے حامی یہودی ادارے جیوش کولیشن کے ترجمان نے مہم کے دوران دعویٰ کیا ہے کہ یہودی رائے دہندگان نے متعدد سوئینگ سٹیٹس مثلاً نیواڈا ، فلوریڈا، ایریزونا، جارجیا اور پنسلوانیا کے اندرٹرمپ کو سرفہرست رکھنے میں مدد کی یعنی دیگر ریاستوں میں ان کی حمایت نہیں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی فاتحانہ تقریر میں جب ڈیموکریٹس سے وابستہ ان روایتی گروہوں کا ذکر کیا جو ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کو چھوڑ کر ان کے خیمہ میں داخل ہو ئے ہیں تو یہودیوں کو نظر انداز کردیا۔ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں سیاہ فام ووٹرز، خواتین، ہسپانوی ووٹرز ، عرب امریکن ووٹرز اور مسلمان امریکی ووٹرز کا خاص طور پر ذکر کیا ۔ اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ آکر وقت تک یہودیوں کی اکثریت کملا حارث کی وفادار رہی۔ ماضی کے تمام انتخابات میں بیشتریہودی ڈیموکریٹ امیدواروں کو ووٹ دیتے رہے ہیں ۔ ٹرمپ نے اپنی نتخابی مہم کے دوران یہودیوں کو رجھانے کے لئے اداکاروں سے یہ اپیل کروائی کہ "وہ یہودی ہیں، پہلے ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ کرتے تھے، مگر اس بار ٹرمپ کو ووٹ کریں گے”۔ ان کوششوں میں مایوسی کے بعد ایک بارٹرمپ نے نہایت بھونڈے انداز میں یہودیوں کی تقریب میں کہہ دیا تھاکہ اگر وہ ہار گئے تو اس کی بڑی وجہ انہیں کو سمجھیں گے ۔ بعید نہیں کہ اس دھمکی سے خوفزدہ ہوکر کچھ یہودیوں نے ہاتھی پر مہر لگائی ہو۔
فلوریڈا پام بیچ کاؤنٹی کنونشن سینٹر میں اپنی فاتحانہ تقریر کے اندر اپنی مہم کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "انہوں نے پوری امریکی تاریخ میں ایسا نہیں دیکھا کہ جوان اور بوڑھے، مرد اور عورت، دیہی اور شہری متحد ہوں ۔ ہم نے سب سے بڑا، وسیع ترین اتحاد بنایا ہے،” ٹرمپ کے مطابق ان کے ووٹرس تمام حلقوں سے آئے تھے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ بولے "یونین، غیر یونین، افریقی امریکن، ہسپانوی امریکن، ایشیائی امریکن، عرب امریکن، مسلم امریکن۔ ہمارے پاس سب موجود تھے۔ یہ خوبصورت تھا۔ یہ ایک تاریخی تبدیلی تھی، جس نے سماج کے تمام طبقات کو ایک مشترکہ مرکز کے گرد متحد کیا‘‘۔ امریکہ مشرق بعید کے باشندوں کو ایشائی کہا جاتا ہے ۔ اس لیے یہ کہنا پڑے گا کہ ٹرمپ نے یہودیوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں کو بھی نظر انداز کیا گیا۔ اس خطاب وطن عزیز میں ٹرمپ کی کامیابی کے لیے ہون کرنے والے مودی بھگتوں کو یقیناً مایوسی ہوئی ہوگی۔ اس کے باوجود ہندوتوانواز بغلیں بجاکر اعلان کررہے ہیں کہ ان دنیا بھر کا ہندو محفوظ ہوگیا۔ یہ ایک معنیٰ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی توہین ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر ہندو اپنے تحفظ کی خاطر ٹرمپ کی سرپرستی کے محتاج ہیں۔
مودی جی کے لیے ٹرمپ کا حالیہ انتخاب بڑا دھرم سنکٹ تھا کیونکہ ہندوستانی نژاد کملا حارث مقابلے پر تھیں ۔ نام نہاد وشو گرو کا یہ حال تھا کہ ان کے ایک طرف پرانا دوست اور دوسری جانب وطن زادی تھی ۔ اب چونکہ دوست کامیاب ہوگیا ہے اس لیے مودی جی انہیں اپنی قدیم رفاقت یاد دلا رہے ہیں لیکن ٹرمپ اس حقیقت کو کبھی نہیں بھول سکیں گے کہ پچھلی بار مودی کی تمام تر حمایت تو انہیں کامیاب نہیں کرسکی مگر اس مرتبہ ان کی پر اسرا ر خاموشی کے باوجود وہ جیت گئے۔ خیر چین کے خلاف ہندوستان کی امریکہ کو ضرورت ہے اس لیے ہندوستان کا جو بھی سربراہ ہوگا اس کی ناز برداری کی جائے گی مگر مودی جی نے جو سلوک بائیڈن کے ساتھ کیا اگرویسی حرکت ٹرمپ کے خلاف کردی تو اس کی بہت بڑی قیمت چکانی ہوگی کیونکہ انا کا معاملہ آجائے تو ٹرمپ قومی مفاد کو بھول جاتے ہیں۔ وہ عمل پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں ۔ خیر ٹرمپ کی گھرواپسی میں امریکیوں کے لیے منافقت اور ظلم سے گریز کرنے کا اہم پیغام پوشیدہ ہے۔ ان کی یہ آمدِ جدید کیا گل کھلائے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
Comments are closed.