بصیرت کا عظیم کارنامہ۔
از: محمد اللہ قیصر
قوم کی کشتی حالات کے گرداب میں پھنستی ہے تو اس کے افراد کا امتحان ہوتا ہے، کچھ لوگ اپنی ذات میں مگن رہتے ہیں، کچھ ہوا کا رخ دیکھ کر قبلہ و کعبہ بدل کر فاتح قوم کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں، اور اکثریت خاموشی میں عافیت محسوس کرتی ہے، اور عافیت کی تلاش میں خود کو بہتی ہواؤں کے سہارے چھوڑ دیتے ہیں کہ شاید کوئی کنج عافیت، کوئی گوشہ تنہائی، اور سکون کی کٹیا نصیب ہوجائے تو زہے قسمت ورنہ قدم قدم پر آنے والے موج طوفاں سے لڑنا ان کے بس کا روگ نہیں، لیکن انہیں میں کچھ شاہین صفت، بلند ہمت اور حوصلہ مند، افراد ہوتے ہیں جن کی فکر ہوتی ہے کہ!
زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے
اور حالات کی ستم ظریفی، دشمن کی قوت، اپنی بے بضاعتی، قلت وسائل اور مخالف طوفان کی بلاخیزی پر نظر کیے بغیر اللہ کا نام لے کر میدان میں کود پڑتے ہیں۔
اٹھارہویں صدی کے اختتام اور اور انیسویں صدی کے آغاز میں دین کی حفاظت کے لیے ہندستانی علماء نے یہی کردار نبھایا ہے، ہندستان سے انگریز جارہے تھے لیکن منظر صاف ہو چکا تھا کہ اسلام کی مخالفت میں مسلمانوں کو کوئی چھوٹ، کوئی کنسیشن نہیں ملنے والی ہے، بلکہ اب تو کھلے لفظوں میں یہ چرچا ہونے لگا تھا کہ "سناتن میں ہندستانی مسلمانوں کے انضمام کی جو کوشش اب تک نہیں ہوئی ہے وہ اب شروع ہونی چاہیے” یعنی خطرات ٹلنے کے بجائے مزید مستحکم اور منظم شکل میں سامنے آرہے تھے، نیز یہ داخلی تھے، انگریزوں کی طرح نہ توباہر سے آئے تھے اور نہ جانے والے تھے کہ "ملک چھوڑو” جیسی کوئی تحریک چلاکر ان سے پیچھا چھڑایا جا سکتا ہے” ایسی صورت حال میں علماء میدان میں اترے، کمان سنبھالی، اور مخالفین کے سامنے سد سکندری بن کر ڈٹ گئے، علماء کی ایثارو قربانیاں بڑے فخر کے ساتھ، سر اٹھا کر یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ
میں جھکا نہیں میں بکا نہیں، کہیں چھپ چھپا کے کھڑا نہیں
جو ڈٹے ہوئے تھے محاذ پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر
سیاسی، سماجی، غیروں کی مکاری اپنوں کی عیاری، دشمنوں کے ستم، دوستوں کی بے وفائی و بے اعتنائی، سب کچھ برداشت کیا، لیکن محاذ سے ہٹے نہیں، کہ یہ سب وہ مالک ارض و سماوات کی رضاء اور حبیب کبریا کی محبت و شفاعت کے حصول کے لیے کر رہے تھے۔
جب کوئی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو
ان میں سے مرکزی سطح پر کام کرنے والوں کا چرچا عام ہوجاتا ہے انہیں خوب شہرت ملتی ہے لیکن گھر گھر جاکر پیاسوں کی پیاس بجھانے والے کنویں سے لوگ ناواقف ہی رہتے ہیں، ایک دو نسل بعد نام بھی بھول جاتے ہیں، یہی حقیقت ہے۔
کام کی اہمیت وقت اور ضرورت کے مطابق ہوتی ہے، تو بہتر ہوگا کہ علماء نے جس زمانہ میں خدمات انجام دی ہیں اس وقت ہندستان کی سیاسی و سماجی صورت حال پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے۔
آزادی کے قریب ہندستانی مسلمان نوع بنوع مشکلات سے دو چار تھے، ایک نہیں، انیک چلینجز کا سامنا تھا، سیاسی، اقتصادی، تعلیمی سماجی ہر سطح پر بے یقینی کی کیفیت تھی، مفکرین، مصلحین سیاسی شخصیات، علماء حتی کہ عوامی سطح پر مستقبل کے تئیں بے چینی صاف نظر آرہی تھی کہ آزاد ہندستان میں ہماری جگہ کیا ہو گی، جدید ہندستان کے خاکہ سازوں سے بار بار پوچھا جارہا تھا، کہ اس "نئے دربار” میں ہماری نشست گاہ کی نشان دہی کردی جائے، تو کسی واضح جواب کے بجائے "ہم سب مل کر رہیں گے ” جیسے تسلی کے چند بول سننے کو مل جاتے اور بس۔
ایسی غیر واضح صورت میں ہر طبقہ اپنے میدان عمل اور طبعی میلان کے مطابق مسلمانوں کو بیدار کرنے میں مشغول ہوگیا، سیاست داں حضرات سیاسی قوت کی بحالی کے لیے بیداری کی تحریک چلانے لگے، کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ نظام حکومت میں شامل ہونا ناگزیر ہے اور چوں کہ جدید ہندستانی نظام کی عمارت انگریزوں کے ذریعہ رکھی گئی نیو پر قائم ہوگی لہذا اس نظام کا حصہ بننے کے لیے جدید علوم سے وابستگی ضروری ہے، اسلیے انہوں نے عصری اداروں کے قیام پر توجہ دی،
اس افراتفری کے عالم میں ایک اہم سوال جو مسلمانوں کو سب سے زیادہ بے چین کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ مذہبی تشخص اور ہماری تہذیب و ثقافت کی حفاظت کی سبیل کیا ہوگی، یہ شعور مسلمانوں کی نچلی اکائی تک کو پریشان کر رہا تھا، شہروں اور قصبوں میں بسنے والے تعلیم یافتہ، تجربہ کار، زمانہ سناش، قوموں کے عروج و زوال اور ان کے اسباب و عوامل پر گہری نگاہ رکھنے والے ہوں یا دیہات، اور وہاں کے رہنے والے سادہ لوح کسان مزدور سب اس فکر میں ڈوبے تھے کہ ہماری آنے والی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کیسے ہوگی، اور اس عمومی شعور کی وجہ بھی ظاہر تھی کہ اب تک انگریزوں کے نشانے پر سب سے زیادہ اہل ایمان تھے، ان کے سینوں سے ایمان کو کھرچنے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی، تعلیمی نظام کی تشکیل ہو یا شہری قانون سازی کا عمل، اس میں بنیادی طور پر ان کے پیش نظر یہ ہوتا تھا کہ یہ اصول و قوانین مسلمانوں کو ایمان سے دور کرنے میں کس قدر معاون ہو سکتے ہیں۔
اب انگریز تو جارہے تھے لیکن یہ مطلع صاف ہو چکا تھا کہ آزاد ہندستان کن کے ہاتھوں ہوگا، کون لوگ یہاں سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے، مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے دینی حمیت سے لبریز قائدین کو پیچھے دھکیل کر جنہیں صف اول میں لانے کی کوشش ہو رہی ہے ان کے مزاج و مذاق کو دیکھ کر ارباب سیاست کی نیت صاف جھلک رہی تھی کہ ان کے ارادے صاف لفظوں میں "گھر واپسی” کا نعرہ لگانے والوں سے الگ نہیں، بس طریقہ کار میں فرق ہے۔
ان حالات میں دوسرے طبقات کی طرح دین کا درد رکھنے والوں نے بھی حفاظت دین کے طریقوں پر غور و فکر کیا، تو مؤثر ترین ذریعہ یہی سوجھا کہ علم دین کی نشر و اشاعت ہونی چاہیے اس کے لیے قیام مدارس مکاتب کا سلسلہ شروع کیا، اور اس سلسلہ کو مرکزی شہروں تک محدود رکھنے کے بجائے گاؤں گاؤں تک پھیلا دیا، انہوں نے خود کو عصری تعلیم گاہوں سے وابستہ افراد کی طرح تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے جدید معیارات کے حصول کا پابند نہیں بنایا، ایسا نہیں کیا کہ، جب تک مخصوص رقبہ و مساحت پر مشتمل اراضی، خاص نوعیت کی عمارت، مشاہرہ کے لیے مخصوص ذرائع وسائل وغیرہ کی حصولیابی یقینی نا ہوجائے مکتب و مدرسہ کے قیام کا امکان نہیں۔ بلکہ اس کے برعکس اہل مدارس نے قرن اول کو نمونہ بناتے ہوئے صفہ کی طرز پر مسجد، دالان، اور کھلیان کو بھی مکتب کی شکل دے دی، کہیں چھپر ڈال کر بیٹھ گیے، حتی کہ درختوں کے نیچے بوریہ بچھا کر اللہ کا کلام سنانے لگے، تنخواہیں کتنی ہوں گی، فراہمی کی شکل کیا ہوگی اس سے بھی خود کو بے نیاز کرلیا، "پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے ” کی تر تیب بدل کر ” کنواں خود پیاسوں” تک پہونچنے لگا،
اس تحریک میں علماء کو ان تمام پریشانیوں سے گزرنا پڑا جو قلت وسائل کا لازمی نتیجہ ہوتی ہیں، رہائش اور درس گاہ کے لیے عمارت نہیں، تنخواہیں کیسے پوری ہوں گی کچھ نہیں معلوم، انتظامی امور کہاں سے انجام پائیں گے، کوئی نہیں جانتا، رہائشی مدرسوں میں قیام و طعام کا نظام کیسے چلے گا، وسائل کہاں سے پورے ہوں گے، کچھ پتہ نہیں، بس سہارا اس ذات کا ہے جس نے چیٹی سے لیکر دیو ہیکل جانوروں تک کے رزق کا وعدہ کر رکھا ہے۔
یہ سارا نظام حقیقی معنوں میں توکلا علی اللہ برپا ہوا، دھیرے دھیرے پھیلا اور چھا گیا۔
اور تاریخ نے کھلی آنکھوں دیکھا کہ "ہندستان اندلس ہونے بچ گیا”
ایک اور بات جو قابل ذکر ہے کہ یہ تحریک مکمل "اورگینکلی” پروان چڑھی ہے، یہاں ایسا کوئی نظام نہیں تھا کہ ایک مرکز ہے، وہاں کوئی تھینک ٹینک منصوبے بناتی ہے، پھر اپنی چھوٹی اکائی کو سرکولر جاری کرتی ہے کہ منصوبہ یہ ہے اور اس کی تکمیل کے لیے طے شدہ خطوط کے مطابق کام کیا جائے، منصوبہ بندی اور پروجیکٹ مینیجنگ کا کوئی تصور نہیں، یہاں تو بس ایک مرکزی ادارہ ہے، وہاں کے تربیت یافتہ جو کچھ سیکھتے ہیں اپنے گاؤں میں جاکر وہی سکھانے لگتے ہیں، اس کے لیے نہ کوئی گائڈ لائن ہے نہ کوئی خاص طریقہ کار جس کی پیروی لازمی ہے، بس ایک بنیادی مقصد ہے، کہ جو دین سیکھا ہے اسے سکھانا ہے "بلغوا عني وآية” پر عمل کرنا ہے، بقیہ اس کے لیے سہولیات اور وسائل کی فراہمی ساری چیزیں ثانوی ہیں، ان سہولیات کے حصول تک کام کا آغاز نہ کرنا دانش مندی کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
علماء کے اسی جذبہ کی وجہ سے برصغیر میں حفاظت دین کی یہ تحریک اس قدر کامیاب ہوئی کہ محض دوچار دہائیوں میں مطلع صاف ہوگیا کہ اب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر کوئی آنچ نہیں آسکتی، ہر شخص یقین سے کہہ سکتا تھا کہ اس کی نئی نسل توحید کی علمبردار ہوگی۔
اس پوری تحریک میں مرکزی اداروں میں کام کرنے علماء کرام اگر اپنی مخلصانہ قیادت کے لیے قابل تعریف ہیں تو گاؤں اور محلوں میں گھر گھر دین پہونچانے والے، کسان مزدور اور ان پڑھ عوام کے سینوں میں کلمہ توحید کی جوت جگانے والے، ان کی نسلوں کو دین کی حفاظت اور پہریداری کی ٹریننگ دینے والے بھی اتنے ہی تعریف و توصیف کے مستحق ہیں،
اور نئی نسل کو ان کے ناموں سے واقف ہونا چاہیے، صاحب تصانیف اور مشہور علماء کو سب جانتے ہیں کہ لیکن میدانی عمل میں مشغول رہنے کی وجہ سے جنہیں تصنیف و تالیف کی فرصت نہیں ملی، ان کے عظیم کارناموں سے بھی ہمیں واقف ہونا چاہیے۔
اسی مقصد کے پیش نظر "بصیرت” نے چار سال قبل "تذکرہ علماء مدھوبنی” کے عنوان سے سیمینار کا ایک سلسلہ شروع کیا، جسے علاقہ میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، اس سیمینار کو اہل علم کے درمیان محدود رکھنے کے بجائے عوامی جلسے کی شکل دی گئی تاکہ جو لوگ اس موقع سے شائع ہونے والا مجلہ نہیں پڑھ سکتے وہ اپنے محسن علماء کے احوال سن کر ان سے واقف ہو سکیں۔
اس سلسلہ کا چوتھا سیمینار بتاریخ 6 نومبر 2024 کو بمقام "مدرسہ اصلاح المسلمین” بینی پٹی میں صدر مسلم پرسنل لا بورڈ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کی صدارت میں منعقد ہوا۔
اس سیمینار کی سرپرستی علاقہ کے نامور علماء حضرت مولانا قیصر صاحب قاسمی، مہتمم مدرسہ بشارت العلوم کھرایاں، مولانا پروفیسر ڈاکٹر قاسمی، چئر مین فاران انٹرنیشنل فاؤنڈیشن اور حضرت مولانا رضوان صاحب قاسمی، سابق مدرس دارالعلوم وقف دیوبند نے فرمائی، مہمان خصوصی ملت کے مخلص رہنما، ڈاکٹر فیاض احمد صاحب تھے،
اس سیمینار میں مدھوبنی کے 11 رخصت پذیر علماء کے احوال پیش کیے گئے جنہیں ہر سال کی طرح ایک مجلہ کی شکل میں شائع کیا گیا۔
بڑی تعاد میں علماء اور عوام نے شرکت کی، انہوں نے جس دلچسپی کا مظاہرہ کیا اس سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اپنے محسن علماء کے تئیں آج بھی عقیدت و محبت کا جذبہ رکھتے ہیں، اور ان کے جانے کے بعد بھی انہیں بھول نہیں پائے ہیں، یہ یقینا علماء کے تئیں مدھوبنی کے لوگوں کی عقیدت و احترام کی واضح مثال ہے۔
مولا مظفر رحمانی اور مفتی انس عباد قاسمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے، سب سے پہلے سیمینار کے روح رواں اور نگران اعلی مولانا غفران ساجد قاسمی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ آج سے چار سال قبل چند احباب کے ساتھ ایک گفتگو میں علاقہ کے اکابر علماء کا ذکر خیر ہوا، تو پتہ چلا کہ اس خطہ کو شرک و بدعات کی ظلمتوں سے محفوظ رکھنے کے کیے ہمارے جن اکابر نے اپنی زندگی وقف کردی ان کے احوال کہیں محفوظ نہیں ہیں، لہذا یہ خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ اپنے ان محسنین کے حالات تحریری شکل میں محفوظ کیے جائیں، لیکن یہ کام وسیع ہونے کے ساتھ دقت طلب تھا لہذا دیگر احباب سے مشورہ کیا تو آسان شکل یہی نظر آئی کہ ہر سال سیمینار کا انعقاد ہو جس میں بالخصوص نئے قلمکاروں کو اپنے علاقہ کے علماء کے حالات لکھنے کی ترغیب دی جائے، اس طرح تقسیم کار کے اصول پر عمل ہوگا تو نوجوان فضلاء میں دلچسپی بھی ہیدا ہوگی اور سیمینار کو عوامی سطح پر منعقد کرنے سے عام لوگ بھی مسفید ہوں گے،ابتداء اندیشہ تھا کہ شاید عام لوگ اس پر توجہ نہ دیں اسلیے پہلا پروگرام تقریبا ایک تجربہ تھا لیکن اس کے بعد مدھوبنی کی بااثر شخصیات محترم ڈاکٹر فیاض احمد، ممبر پارلیمنٹ، محترم حافظ نیاز احمد صاحب، اور ان کے برادران جناب انظار صاحب اور جناب امتیاز صاحبان نیز علماء بالخصوص مولانا قیصر صاحب قاسمی، مولانا رضوان صاحب قاسمی نے جس دلچسپی کا مظاہرہ کیا اور قدم قدم پر تعاون کیا اس سے بھرپور حوصلہ ملا، پھر تو!
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
راہ رو آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
آج اس سلسلے کی چوتھی کڑی پیش کرتے ہوئے فرحت و مسرت کے جذبات جس طرح امنڈ رہے ہیں اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے
مولانا مظفر رحمانی نے تمہیدی کلمات میں سیمینار کے مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ آج اگر ہمارا دین و ایمان محفوظ ہے تو یقینا دن متین کے بے لوث خدام، اخلاص و للہیت کے پیکر، اور دینی غیرت حمیت سے سرشار علماء ربانیین کی محنتوں کا ثمرہ ہے، جنہوں نے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی دنیا بنانے کے بجائے ہمارے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے خود کو وقف کر دیا، جن کے احسانات ہمارے لیے ناقابل فراموش ہیں، ہماری ذمہ داری ہے کہ نئی نسل کو ان کی قربانیوں سے آگاہ کریں، تاکہ مضمحل ہوتا ہوا دینی جذبہ پھر سے انگڑائیاں لینے لگے، مولانا انس عباد قاسمی نے کہا کہ اگر یہ علماء نہ ہوتے تو شاید ” الامان و الحفیظ” ہمارا یہ علاقہ دین سے محروم ہوجاتا، اسلیے ہم ان کے قرض دار ہیں، ان سے احوال سے واقفیت اسلیے بھی ضروری ہے کہ جس کسمپرسی اور ناسازگار حالات میں انہوں نے حفاظت دین کا فریضہ انجام دیا آج پھر سے تقریبا وہی صورت حال ہمارے سامنے ہے، دین و ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والے پھر سے ہمارے سینوں نے ایمان و یقین کی دولت کو کھرچ پھینک دینے کیلیے اپنے ہتھیار تیز کر رہے ہیں، کہیں چمکار کر تو کہیں دھمکی دیکر ہمیں توحید کی امانت سے دستبرداری کے لیے ورغلارہے ہیں، دوسری ظرف ہماری نوجوان نسل دین بیزاری کے پھندے میں پھنستی جارہی ہے، تو ہمیں ان علماء کے احوال سے یہ جاننا ہے کہ انہوں نے کس طرح ایمان سوز اندھیوں کا مقابلہ کیا۔
ڈاکٹر عمر فاروق صاحب قاسمی نے صدر محترم کی خدمت سپاسنامہ پیش کیا عقیدت و محبت کا ایسا دل افروز گلدستہ کہا جا سکتا ہے جس کی ہر کلی خزاں نا آشنا ہے۔
اس کے بعد مقالوں کی تلخیص پیش کی گئی، اس سیمینار میں مندرجہ ذیل علماء کی حیات و خدمات پر مقالے لکھے گئے جنہیں "تذکرہ علماء مدھوبنی 4 کے نام سے دیدہ زیب مجلہ کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔
1 حضرت مولانا سعید صاحب چندرسین پوری سابق ناظم مدرسہ بشارت العلوم
مفتی محمد اللہ قیصر قاسمی
2حضرت مولانا عبدالرزاق صاحب مکیاوی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا شاہد قاسمی مکیا
3 مولانا حبیب الرحمن نعمانی بابو برہی
مفتی محمد انس عباد صدیقی قاسمی
4 مولانا ابرار صاحب کٹھیلا
: مولانا عمر فاروق قاسمی ، مفتی محمد اللہ قیصر قاسمی
5 مفتی صدرعالم قاسمی صاحب عشورہ
: مولانا شکیل قاسمی صاحب پٹنہ
6 مولانا احمد حسین صاحب یکہتہ
7 مولانا قاری مصطفیٰ صاحب پرسونی
8 مولانا عبدالحفیظ ململی رحمۃ اللہ علیہ
: مولانا اعظم شرقی ندوی
9 مولانا عزیز شمس سلفی رحمہ اللہ بلکٹوا
:مولانا رضوان قاسمی صاحب
10 مولانا محمد الاثری دملہ
حافظ عبد القیوم صاحب ڈمری، سابق استاذ مدرسہ بشارت العلوم: مفتی محمد اللہ قیصر قاسمی
اس کے بعد مہمان خصوصی نے اپنے تاثرات پیش کیے،
مفتی امداد اللہ صاحب قاسمی قاضی شریعت مدرسہ فلاح المسلمین بھروارہ، مفتی روح اللہ صاحب قاسمی، استاذ مدرسہ فلاح المسلمین بھروارہ،
مولانا مفتی حسنین صاحب قاسمی، بانی و ناظم مدرسہ عائشہ للبنات نورچک،
مولانا انیس الرحمن اسلامی وغیرہم نے سیمینار کے روح رواں مولانا غفران ساجد صاحب قاسمی اور بصیرت ٹیم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ، یوں تو مولانا غفران ساجد صاحب قاسمی کی اولوالعزمی اور ثابت قدمی سے ہم سب واقف ہیں، مخالفت کا طوفان اٹھے، بے جا تنقیدوں کی آندھی چلے، الزامات کی بارش ہو، وسائل کی قلت ہو، افراد کی سرد مہری ہو وہ جانب منزل رواں دواں رہتے ہیں، جس کام کو ٹھان لیتے ہیں اس کی تکمیل تک ان کے قدم میں لرزش نہیں آتی، ان سب کے باوجود ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ یہ مبارک سلسلہ جاری رہے، اس کے ساتھ ہی ان تمام مؤقر علماء نے اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کی۔
مولانا قیصر صاحب قاسمی مہتمم مدرسہ بشارت العلوم جنہوں نے روز اول سے اس سیمینار کے سرپرست کا کردار بخوبی نبھایا ہے انہوں نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اس علاقہ میں مدرسہ میں خدمت انجام دیتے ہوئے میں نے اپنی زندگی کے پچاس سال گذار دیے، اس دوران بڑے بڑے جلیل القدر علماء جنہوں نے اس خطہ کو علم کی روشنی سے منور کیا، گاؤں گاؤں میں دین محمدی کے پہریدار تیار کیے، لوگوں کے دلوں میں محبت الہی کی جوت جگائی وہ اس دارفانی سے رخصت ہوگئے، انہیں کوئی یاد کرنے والا نہیں بچا، کبھی کبھی یہ سوچ کر تکلیف ہوتی تھی کہ نئی نسل اپنے ان محسنین کو کہیں فراموش نہ کردے، لیکن اللہ جزائے خیر دے عزیز مکرم مولانا غفران ساجد صاحب اور ان کے رفقاء کار کو جنہوں نے ہمارے اساتذہ کرام اور دیگر علماء عظام کی یادوں کو زندہ کرنے کا اہتمام کیا، ان کی یادوں کو سنجوگنے کا انتظام کیا، خدا ان سب کو ثابت قدمی عطاء کرے، انہیں سلامت رکھے
پروفیسر شکیل احمد قاسمی نے فرمایا کہ اس سیمینار سے جہاں قدیم علماء کے انکشافات ہوئے وہیں نئے لکھنے والوں کی دریافت بھی ہوئی ہے، یہ بات قابل ذکر ہے کہ پروفیسر شکیل احمد قاسمی صاحب اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر سیمینار میں شریک ہوکر منتظمین و مقالہ نگاروں کی بڑی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، بلکہ درمیان سال میں بھی آئندہ سیمینار کی تاریخ، مقام اور مہمان خصوصی کے تعلق سے مسلسل خبر رکھتے ہیں۔
مفتی آصف انظار عبدالرزاق صاحب ندوی نے کہا کہ شرکت کرنے کے بعد اس سیمینار کا ایک اہم فائدہ سمجھ میں آیا کہ جن علماء کے احوال پیش کیے گئے ہیں ان میں آدھے تو ایسے ہیں جن سے آج واقفیت ہوئی، اور اس سیمینار کی ایک خصوصیت کی یہ بھی ہے کہ اس "تذکرہ علماء مدھوبنی” مسلک و مشرب کی کوئی قید نییں ہے جنہوں نے بھی دین کی خدمت میں اپنی زندگیاں کھپائی ہیں ان سب کی قربانیوں کا تذکرہ کرکے انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا، ان سب سے نسل نو کو واقف کرانے کا اِہتمام کیا گیا ہے ، اور وحدت امت کا تقاضا بھی یہی ہے، دین کا ہر خادم لائق تحسین ہے چاہے کسی مسلک و مشرب سے ہو
مولانا شبلی قاسمی، ناظم امارت شرعیہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ یہ قحط الرجال کا ہے ایسے دور میں شخصیتوں کو ابھارنا ان کی یادوں کو زندہ کرنا تاکہ آنی والی نسلیں ان سے واقف ہو سکیں یہ کام بڑا قیمتی اور قابل قدر ہے، میں مبارکباد پیش کرتا ہوں رفیق گرامی مولانا غفران ساجد صاحب قاسمی اور ان کے رفقاء کار کو کہ جنہیں لوگوں نے بھلا دیا تھا انہیں آپ حضرات نے تحریری شکل میں زندہ رکھنے کی کوشش کی۔
اخیر میں صدر محترم حضرت فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کا پرمغز خطاب ہوا جس میں آپ نے فرمایا کہ
اس پروگرام میں شرکت کرکے بڑی مسرت کا احساس ہو رہا ہے، اللہ تعالی اس کوشش کو اور آگے بڑھائے، یہاں جن حضرات کا ذکر خیر ہوا ان میں ادھے زیادہ شخصیتوں سے آج واقفیت ہوئی۔
آپ نے فرمایا کہ اس پروگرام سے ایک تو آپ حضرات نے اعتراف کی سنت پر عمل کیا، دوسرے یہ کہ صالحین کے تذکرے سے ان کے اتباع کا جذبہ پیدا ہوگا تو اللہ رب العزت کے اس حکم پر بھی عمل ہوجائے گا کہ انعام یافتہ، صدیقین شہداء اور صالحین کی اطاعت کرو۔
انسان کے اندر دوسروں کی خوبیوں کے اعتراف اور انہیں اخذ کرنے کا جذبہ ہو تو ان شاءاللہ بڑا فائدہ ہوگا۔
نیز یہ مردوں کو زندہ کرنے والا کام ہے، صاحب تصنیف و تالیف پر لکھنا بولنا آسان ہے لیکن جو شخصیتیں اپنی قابلیت کے باوجود گمنامی کے مدفن میں دفن کردی گئیں انہیں زندہ کرنا ان کی خوبیوں سے لوگوں کو متعارف کرانا بہت بڑا کام ہے، صدر محترم نے اس کام کے دائرے کو وسیع کرنے کا مشورہ بھی دیا
آپ نے نئے قلمکاروں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ بزرگوں کے احوال لکھتے ہوئے یہ پیش نظر رہے کہ کم لکھیں لیکن ٹھوس اور معتبر لکھیں، کشف و کرامات کے بجائے احوال واقعی پیش کرنے کی کوشش کریں۔
اخیر میں نوجوان علماء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ دفاع دین پر خصوصی توجہ دیں آج نوجوانوں میں شکوک و شبہات اور الحاد و دہریت سرایت کرتی جارہی ہے، کوئی کھل کر اللہ کا انکار بھلے ہی نہ کرے لیکن دین کے مسلمات کا انکار آج عام بات ہوگئی ہے، بدقسمتی سے ہماری تیاریاں دیوبندی بریلوی جیسے موضوعات پر تو ہوئی لیکن جو اصل مسئلہ تھا دفاع دین اس کی طرف سے ہماری توجہ ہٹ گئی، اس وقت مغرب کی طرف سے الحاد کا خطرہ ہے تو ہندتوا کی طرف سے شرک کا، ان دونوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے علم و مطالعہ کی قوت بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے
پروگرام کے اخیر میں سیمینار کے روح رواں مولانا غفران ساجد صاحب قاسمی نے سب سے پہلے صدر محترم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنی بے پناہ مصروفیتوں کے باوجود ہماری دعوت کو شرف قبولیت بخشا اس ذرہ نوازی کے لیے ہم بے حد ممنون ہیں، پھر دیگر مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پروگرام کے شروع سے اخیر تک آپ حضرات نے جس دلچسپی کا مظاہرہ کیا، اس نے ہمارے حوصلوں کو دوبالا کردیا ہے۔
پھر حضرت فقیہ العصر کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا
اس موقع پر تمام منتظمین بالخصوص مولانا رضوان احمد قاسمی بینی پٹی، سابق استاد دارالعلوم وقف دیوبند،مولانا نصراللہ قاسمی بینی پٹی،کنوینر سیمینار، مولانا عبدالناصر سبیلی اجرا،صدر مجلس استقبالیہ، مولانا انس عباد صاحب قاسمی، جناب نفیس اختر صاحب ،مولاناجاوید حلیمی صاحب، اور مولانامظفر رحمانی صاحب، کو خصوصی مبارکباد کہ ان کی شبانہ روز محنتوں سے ہی اس قدر کامیاب پروگرام کا انعقاد ممکن ہوا۔
مولانا غفران ساجد صاحب قاسمی کو ایک بار پھر مبارکباد کہ روز اول سے انہوں نے جس طرح بصیرت ٹیم کو اس سیمنار کیلئے مہمیز کیا، ان کی حوصلہ افزائی کی۔ پروگرام کی کامیابی کا یقین پیدا کیا، علماء مدھوبنی کی خدمات سے دنیا کو واقف کرانے پر اکسایا اور یہ یقین دلا یا کہ اگر انسان شوق و جذبہ، حوصلہ و ولولہ سے لیس ہو تو کسی ”پنگھٹ کی ڈگر“ کبھی ”کٹھن“ نہیں ہوتی۔
وہ ان کے مخلص و وفا شعار، حوصلہ مند ہونے کے ساتھ، علم دوست، اور علماء نواز ہونے کی بین دلیل ہے۔
اللہ ان تمام حضرات کو سلامت رکھے،
دعا ہے کہ یہ مبارک سلسلہ جاری و ساری رہے۔
Comments are closed.