مولانا محمد احمد قاسمیؒ خلق عظیم کا پیکر تھے: مولانا محمد سفیان قاسمی جامعہ خیر العلوم نان پارہ میں منعقد تعزیتی اجلاس میں مولانا محمد سالم قاسمی کے سر پر دستار باندھ کر سونپی گئی اہتمام کی ذمہ داری

بہرائچ: 18؍ دسمبر 2024ء (ندیم صدیقی) موت ایک پل ہے جس سے گزر کر ایک عاشق اپنے محبوب تک پہنچتا ہے، بے شک انسان کی آزمائش موت اور زندگی دونوں سے ہوتی ہے، اللہ نے زندگی اور موت کو اسی لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ پرکھ سکے کہ کس کے اعمال اچھے اور کس کے برے، ایک مسلمان کو اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہنا چاہیے، اللہ کی قدرت بڑی عظیم ہے، اس کی ہر چیز میں مصلحت ہوتی اور خیر کا پہلو پوشیدہ ہوتا ہے، مولانا محمد احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا، ان شاء اللہ وہ بلند درجات پر ہوں گے، انھوں نے بہت کام کئے، اب ان شاء اللہ ان کے چھوڑے ہوئے کام ان کے جانشین مولانا محمد سالم قاسمی بحسن و خوبی انجام دیں گے، ان خیالات کا اظہار نبیرہ حکیم الاسلام و جانشین خطیب الاسلام مولانا محمد سفیان قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند نے کیا، وہ جامعہ خیر العلوم نان پارہ میں منعقد تعزیتی اجلاس کو خطاب کر رہے تھے۔
خانوادہ قاسمی کے روشن چشم و چراغ مولانا قاسمی نے کہا کہ مولانا محمد احمد قاسمی کا اس دار فانی سے رخصت ہونا پورے علاقے کے لئے بہت بڑا حادثہ ہے، ان کی شخصیت میں مقناطیسی کشش تھی، خلق حسن جو شریعت موسوی کا طرہ امتیاز تھا جس کا معاملہ برابری کا ہوتا ہے، خلق کریم جو شریعت عیسوی کا طرہ امتیاز تھا جس میں صرف معافی ہی معافی ہوتی ہے، تیسری قسم خلق عظیم ہے جس میں بدلہ تو لینا جائز ہے لیکن انسان معاف کردیتا ہے، یہ شریعت محمدی کا امتیازی وصف ہے، حضرت مولانا محمد احمد قاسمی خلق عظیم کا پیکر تھے،
انھوں نے کہا کہ یہ بڑا حادثہ تو ہے جس پر حد درجہ افسوس بھی ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ
موت ایک پل ہے جس سے گزر کر ایک عاشق اپنے محبوب تک پہنچتا ہے، بے شک انسان کی آزمائش موت اور زندگی دونوں سے ہوتی ہے۔
انسان دو دن کی زندگی پاتا ہے ایک دن انسان نیستی سے وجود پاتا ہے اور دوسرے دن موت استقبال کرتی ہے، انسان مرتا نہیں ہے منتقل ہوتا ہے، عالم ارواح سے ماں کے پیٹ میں منتقل ہوتا ہے، پھر بطن مادر سے عالم انسانیت میں آتا ہے، پھر انسانی دنیا چھوڑ کر انسان عالم برزخ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، وہاں سے عالم محشر کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جہاں ہمیشہ رہنے کا پروانہ مل جاتا ہے اور منتقلی کا دور ختم ہو جاتا ہے، عالم انسانیت اور عالم برزخ میں صرف ایک سانس کا فاصلہ ہے، سانس چل رہی ہے تو ہم یہاں ہیں، سانس بند تو اس دنیا میں. موت زندگی سے قدم سے قدم ملا کر چل رہی ہے، وہ دور نہیں ہے، ہر زندہ موت کی طرف ہی بھاگ رہا ہے،کتنی جلدی حالات بدلتے ہیں کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔
دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
مولانا نے کہا کہ مختصر سی زندگی کو قیمتی اور مفید بنانے کی ضرورت ہے، وقت بہت قیمتی ہے، اس کا درست استعمال کرنا ضروری ہے، مولانا مرحوم کا خانوادہ قاسمی سے چار پشتوں کا رشتہ تھا، ہمارے دادا حکیم الاسلام سے عقیدت و احترام کا تعلق تھا، والد صاحب حضرت خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی سے شاگردی و ارادت کا، ہمارے ساتھ معاصرت کا اور ہمارے بیٹے مولانا شکیب قاسمی سے شفقت اور پیار کا تعلق تھا، ان کا تعلق عاشقانہ تھا۔
مولانا مرحوم کے دیرینہ رفیق مولانا اشتیاق احمد قاسمی نے نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ
علماء وارثین انبیاء ہیں، ان کا داغ مفارقت دینا ملت کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ مولانا محمد احمد قاسمیؒ کی شخصیت بڑی جامع اور ہمہ گیر شخصیت تھی، وہ بہت سے علوم و فنون کے جامع تھے، بڑی گہرائی و گیرائی تھی ان کی نظر میں، ان کے اندر جو خوبیاں تھیں ان کو اپنی زندگیوں میں رچانے بسانے کی ضرورت ہے.
اس اجلاس میں مولانا سفیان قاسمی نے مولانا محمد احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادے مولانا محمد سالم قاسمی کے سر پر دستار باندھ کر اعلان کیا کہ آج سے یہ جامعہ خیر العلوم کے اہتمام کی ذمہ داری سنبھالیں گے، اجلاس کا آغاز قاری جنید احمد ہربس پوری کی تلاوت قرآن سے ہوا، مرثیہ مولانا امانت اللہ قاسمی نے پیش کیا، مولانا وقار احمد قاسمی، مولانا فرمان اور مولانا محمد افضل ندوی نے بھی اپنے تاثرات پیش کیے۔
اس موقع پر مولانا محمد سفیان ندوی، محمد رضوان گوہرندوی، مولوی محمد عرفان قریشی، مولانا محمد رئیس ندوی لکھیم پور، مولانا ابوالیث ندوی ہردوئی، مولانا حمایت اللہ پیہانی، مولانا اسعد قاسمی پرتاپ گڑھ، مفتی وحید اللہ قاسمی بہرائچ، مفتی عبداللہ بھگوان پور، مولانا گلفام ثاقبی منوریہ، مولانا اکرم مظاہری، مولانا محمد الیاس قاسمی، مولانا عبد القیوم قاسمی، حافظ محمد رئیس، مولانا فاروق قاسمی، مولانا سلیم باباگنج وغیرہ خاص طور پر موجود تھے۔
Comments are closed.