مسجد میں گھُس کر جئے شری رام کا نعرہ لگانا جرم نہیں تو تو جرم کیا ہے ؟؟؟

احساس نایاب شیموگہ کرناٹک ۔۔۔۔۔
ایڈیٹر گوشہ خواتین و اطفال بصیرت آن لائن
انصاف کی عدالتوں کا عجب تماشہ
مظلوم بنا مجرم اور مجرم بنا بادشاہ
مسجد میں گھُس کر جئے شری رام کا نعرہ لگانا جرم نہیں ۔۔۔ ایسا کہنا ہے سپریم کورٹ کا ۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ کی جسٹس پنکج متل اور جسٹس سندیپ مہتا پر مشتمل بینچ نے مسجد میں گھُس کر جئے شری رام کا نعرہ لگائے جانے کے معاملے پر سماعت کے دوران یہ کہا ہے ۔۔۔۔۔
دراصل یہ پورا معاملہ 24 ستمبر 2023 کا بتایا جارہا ہے جہاں کرناٹک کی مسجد میں گھُس کر جئے شری رام کا نعرہ لگایا گیا۔ اس سے متعلق پتور سرکل کے کڈابا پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی گئی تھی۔ شکایت دہندہ نے الزام عائد کیا کہ کچھ نامعلوم افراد مسجد میں داخل ہو گئے اور ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کے بعد دھمکیاں دینے لگے۔ پہلے تو اس پر ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ مبینہ جرائم میں سے کسی بھی جرم کا کوئی عنصر نہ پائے جانے پر آگے کی کارروائی کی اجازت دینا قانونی علم کا غلط استعمال ہوگا اور اس کا نتیجہ انصاف کی ناکامی ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ ہائی کورٹ کے بعد اب سپریم کورٹ کا بھی یہ کہنا ہے کہ مسجد میں گھُس کر جئے شری رام کا نعرہ لگانا جرم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
آج بھارتیہ عدالتوں کے اس طرح کے بیانیے یا اس طرح کے رویہ پر ہمیں حیرت تو نہیں ہوتی لیکن ہاں قوم مسلم کی حال زبون پر افسوس ضرور ہوتا ہے
انصاف کے نام پر سالوں سے قوم مسلم کے ساتھ جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ کسی سے چھُپا نہیں ہے سو اس بار بھی وہی دہرایا گیا ہے جہاں انصاف کے مندر میں انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر ہی پٹی بندھی ہو وہاں انصاف نہیں ہوتے بلکہ کمزور مظلوم پر طاقتور کے فیصلے جبرا تھوپے جاتے ہیں اور انصاف کے نام پر محض خیرات دی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔
خیر انصاف کے مندر اور مندر کے تخت پر بیٹھے منصفوں کے ان غیرمنصفانہ فیصلوں پر تالیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔
عدالتوں کے سامنے سے میزان اٹھوا دو
ماتھے پر سپریم کوٹ کے اک صلیب سجا دو
شاتموں کو ملتا ھے یہاں تحفظ بہت
حکم یہ ھے کہ غازیوں کو سولی لگا دو
عاشقانِ مصطفیٰ کے لیے ہیں جیلیں شیلیں
دشمنانِ وطن کے واسطے پروٹوکول بڑھا دو ۔۔۔۔۔۔۔
یہاں ہمارے گھروں میں گھُس کر ہمارا قتل کردیا جاتا ہے تب بھی فریج میں رکھے گوشت کو گائے کا تھا یا بکرے کا اس سوال پہ الجھا کر مقتول کو مجرم اور قاتل کو گاؤ رکشک بنادیا جائے گا
مسجدوں میں گھس کر ہمارے اماموں کے گلے کاٹ دئے جائیں تب بھی داعی اسلام ہونے پر انہین کو دنیائے کفر کے آگے مجرم ٹہرایا جائے گا
آج کے سیکولر بھارت میں مسلمانوں کا اپنے گھروں میں عبادت کرنا جرم ہے
مسلم بچوں کو اللہ کے پاکیزہ کلام قرآن پاک کی تلاوت کروانا جرم ہے
مسلمانوں کا کھُلے میدانوں میں نماز ادا کرنا جرم ہے
مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر پہ اذان دینا جرم ہے
مسلم بچیوں کا حجاب پہن کر تعلیم حاصل کرنا جرم ہے
مسلم نوجوانوں کا اذان دینا یا محض اللہ اکبر کہنا جرم ہے
مسلم اسٹینڈاپ کامیڈین اپنے شو کے دوران لطیفہ بھی سنائے تو وہ توہین مذہب کہا جاتا ہے
ایک مسلم ڈاکٹر کا سینکڑوں بچوں کی جان بچانا بھی جرم ہے
مسلمانوں نے کچھ کھالیا ، اُن کے فریج سے کچھ مل گیا یا انہونے اپنی رسوئی میں کچھ بنالیا تو یہ بھی جرم ہے ۔۔۔
مسلمانوں نے اگر ایک سے ذائد نکاح کرلئے تو جرم
دو چار بچے زیادہ پیدا کرلئے تو بھی جرم، میاں بیوی کے درمیان خلع یا طلاق بھی ہوجائے تو جرم جبکہ پالنے والے وہ، کھلانے والے وہ ، سنبھالنے والے وہ ، ساتھ نبھانے والے وہ پھر بھی مسلمانوں کا اٹھنا بیٹھنا حتی کہ سانس لینا بھی جرم ہے ۔۔۔۔۔۔
وہیں دوسری جانب مسلم بھائیوں کو زندہ جلادینے والا بھگوان
مسلم بہنوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کی گُل پوشی
مسلم بچیوں کا جبرا مذہب تبدیل کرنے والوِں کو کھُلی آزادی
مسلم نوجوانون کی لنچنگ کرنے والا مہان
بےگناہ نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کرنے والے محافظ
مسلم آبادیوں پر بلڈوزر چلانے، ہمارے آشیانوں کو آگ لگانے ، ہمارا سب کچھ لوٹ کر ہمیں کو ملزم کہنے والا منصف
مسلم ماؤں کے پیٹ چیرنے والا دھرم رکشک
ننھے بچون کو تلواروں کی نوک پر چیردینے والا دیش بھگت اور گجرات میں ہمارا قتل عام کرواکر ، ہماری لاشوں کو اپنے ناپاک پیروں تلے رونڈھنے والا وزیرآعظم
واہ یہی ہے سیکولر بھارت کی سیکولرزم ۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ داستانیں ہیں جو قلم سے نہیں بلکہ بےگناہوں کے لہو سے لکھی جائیں گی اور آنے والی نسلوں کو تاریخ چیخ چیخ کر بتائے گی کہ مسلمانوں کا صرف خون نہین بہایا گیا بلکہ عزت سے جینے کا حق اُن کا غرور اُن کا مان اُن کی آزادی حتی کہ اُن سے اُن کا وجود اُن کا مستقبل تک چھین لیا گیا اور بدلے میں دی گئی ہے غلامی کی ذلت رسوائی و ناانصافیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔ باوجود آج بھی مسلم رہنماؤں کو طاغوتی حکمرانوں سے امید ہے، ان کے آگے پیچھے گھومنے والے موقعہ پرستون سے امید ہے ، فقط ووٹ کے خاطر نوٹ گننے، سروں پر ٹوہی رکھ کر قوم مسلم کو دھوکہ دینے والوں سے امید ہے
بیشک آج بھی بھارت کے تیس کروڑ مسلمانوں کو بھارت کی عدالتوں پر یقین ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ
آپ ہی کی ہے عدالت آپ ہی منصف بھی ہیں
یہ تو کہئے آپ کے عیب و ہنر دیکھے گا کون ۔۔۔۔۔۔
خیر یہ اندھے بہروں کی بستی ہے یہاں آئنہ دکھانا ہے بےسود اور چلانا ہے جرم ۔۔۔۔۔
تم نے حق گوئ کی حماقت کی ہے احساس
ممکن ہے تمہیں کل سولی پہ چڑھایا جائے ۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.