غیر مسلموں کے ساتھ سیاسی تعلقات

از: قاضی محمدفیاض عالم قاسمی
قاضی شریعت دارالقضاء ناگپاڑہ ممبئی۔۸
8080697348
سیاست کامقصد ملک میں امن وامان کو مستحکم کرنا،عدل وانصاف کی بالادستی اورظلم وستم کی بیخ کنی کرناہے،یہ ایسے مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے مسلم غیرمسلم کی تفریق نہیں کی جاسکتی ہے۔تاہم غیرمسلوں کے ساتھ مسلمانوں کے سیاسی تعلقات دواصولوں پر مبنی ہوں گے۔
اول:ان قوانین کی اطاعت جو مبنی برانصاف ہوں،کیوں کہ جب ہم کسی ملک کی شہریت قبول کرتے ہیں توزبان حال سے اس ملک کے دستورکی پاسداری اور فرمانبرداری کااقرارکرتے ہیں،یہ ایک طرح کاعہد ہے،جو ہم نے ملک کے ساتھ کیاہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ:اے ایمان والو!اپنےعہدوں کو پوراکرو۔(سورۃالمائدۃ:۱)،نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان اپنے عہدوپیمان کے مطابق عمل کریں۔ (صحیح بخاری:۲۲۷۳)۔حضرت امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ جب صلح ہوجائے تو اس پر عمل کرنا واجب ہوجائے۔(شرح السیرالکبیر:۱ / ۷۷۲)۔گویاکہ اسلام میں قانون شکنی جائزنہیں، بشرطیکہ وہ صریح عدل کے خلاف نہ ہو۔
دوم: یہ کہ ظلم کی مخالفت اوراس کے سد باب میں باہمی تعاون ہو،شریعت میں متعددمقامات پرمنکر کو روکےا اوربرائیوں پر قابوپانےکاحکم دیاگیاہے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ترجمہ:گناہ اورظلم وزیادتی کے کاموں میں کسی کاتعاون نہ کرواوراللہ سے ڈرو ۔بے شک اللہ سخت عذاب دینے والاہے۔ (سورہ مائدہ:۲)۔نبی اکرم ﷺ کاارشادہے۔ ترجمہ:تم میں سے جوشخص کسی برائی کودیکھے تو اس پر لازم ہے کہ اس کو ہاتھ سے روکے،اگر نہ روک سکے تو زبان سےروکےاگرزبان سے بھی نہ روک سکے تو دل ہی میں اس کو براجان لےمگریہ ایمان کاکمزورترین درجہ ہے۔ (صحیح مسلم:۷۸)عام حالات میں کسی کی برائی کرناجائزنہیں اورنہ ہی کسی کی غیبت کرناجائز ہے، لیکن اگرکسی پر ظلم وستم ہو توعلی الاعلان اس کااظہارکرناجائزہے،بلکہ بعض حالات میں ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ:اللہ تعالیٰ برائی کوکھلے عام بیان کرنےکوپسندنہیں کرتاہے، مگریہ کہ کسی پر ظلم ہو،اوراللہ تعالیٰ سننے والااورجاننے والاہے۔ (سورہ نساء:۱۳۸)
قرآن وحدیث کی ان تصریحات کی بنیادپر یہ کہاجاسکتاہے کہ حکومت کے ظلم وستم کے خلاف خواہ کسی پر بھی ظلم ہوغیرمسلموں کےساتھ مل کراحتجاج کرنانہ یہ کہ صرف جائز ہے، بلکہ جمہوری ملک میں ضروری ہے۔(مستفاد از مقالہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب)
غیرمسلموں کوووٹ دینا:
جمہوری ملک میں ووٹ کی حیثیت نہایت ہی اہم ہے،ووٹ ہی کےذریعہ عدل وانصاف قائم کرنے میں اپنی شراکت درج کراسکتے ہیں،اسلام میں ووٹ کی حیثیت شہادت کی ہے، اس لیے عادل امید وارکوووٹ دیناواجب (لغیرہ )ہے، بلاوجہ شدیدہ کے ووٹ نہ دیناگناہ کاباعث ہے۔
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاجوہندوستان کےمعززعلماء کرام کا معتبر اور مستندفقہی ادارہ ہے،اس کے چودہواں سیمینار منعقدہ حیدرآبادمیں جوتجویزپاس ہوئی تھی اس کا متن حسب ذیل ہے:
’’اسلام کااپنا ایک مستقل نظام حکمرانی ہے،لیکن موجودہ عالمی حالات میں دوسرے غیراسلامی نظامہائے حکومت کے مقابلہ میں مروج جمہوری نظام ہی مسلم اقلیتوں کے لئے قابل ترجیح ہے، لہذااس نظام کے تحت مسلمانوں کاالیکشن میں حصہ لینا، امیدواربننا،ووٹ دینااورکسی امیدوار کے لیےانتخابی مہم چلاناجائزہے‘‘۔
اس میں اس بات کی تفریق نہیں کی گئی ہے کہ امیدوارمسلم ہے یاغیرمسلم، البتہ اس بات کی تفریق ضرور ہے کہ امیدوارایمان دارہو،باصلاحیت ہو،ملک وملت کے مفاد میں کام کرنے والاہو۔
غیرمسلموں کے ساتھ صلح کرنا:
جب مسلمان اورغیرمسلموں کے درمیان حالات کشیدہ ہوں اورغیرمسلم مسلمانوں کاجینادوبھرکردے تواس وقت بھی اگر وہ صلح کرناچاہیں یاعین حالت جنگ میں بھی صلح کرناچاہیں تو صلح کرناضروری ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ:پس اگر وہ لڑائی سے بازرہیں،تم سے جنگ نہ کریں اورصلح کی پیش کش کریں،تو اللہ تعالیٰ نے تمہارےلیےان کے خلاف دست درزای کی کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے۔(سورۃ نساء:۹۰)ایک اورجگہ ارشادہے:ترجمہ:اگروہ جنگ کے بجائے صلح کی طرف مائل ہوںتو تم بھی مائل ہوجاؤ، اوراللہ پربھروسہ کیجئے بے شک وہ سننے والااورجاننے والاہے۔ (سورۃ الانفال:۶۱)
خود نبی کریم ﷺ نے حدیبیہ کے میں کفار مکہ کے ساتھ اسی طرح مدینہ کے یہودی اورعیسائیوں کےساتھ باہمی تعاون اورجنگ بندی پر صلح کی۔(سیرت المصطفیٰ جلداول،ص:۴۳۷-۴۴۰،جلددوم ص:۳۴۴-۳۴۶)
غیرمسلموں کے درمیان صلح کرانا:
غیرمسلم اگر کسی معاملہ میں مسلم قاضی کی خدمت میں اپنامعاملہ پیش کرے، تو جس طرح قاضی شریعت مسلمانوں کے درمیان جائز صلح کرانے کامجاز ہوتاہے، اسی طرح غیرمسلموں کے درمیان بھی صلح کرانے کامجاز ہوتاہے۔
مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دوقبیلے بستے تھے،بنوقریظہ اوربنونضیر، بنوقریظہ کمزورتھے،اس لیے بنونضیران پر ظلم وستم کرتے تھے۔حتیٰ کہ اگربنونضیرکاکوئی آدمی بنوقریظہ کے کسی کوقتل دیتاتوآدھی دیت دیتے، مگرجب بنوقریظہ کاکوئی آدمی بنونضیرکے آدمی قتل کردیتاتوپوری دیت لیتے، اس کی شکایت بنوقریظہ نے نبی کریم ﷺ سے کی توآپ نے ان کے درمیان حکم کاکرداراداکرکے برابری اور مساوات کافیصلہ کیا، کہ انسان انسان ہےخواہ اس کاتعلق بنوقریظہ سے یا بنونضیر سے، کسی کوبھی قتل کرنےپرقصاص لیاجائےگا اوراگراولیاء دیت پرمعاملہ برابر کرنا چاہیں توپوری دیت دیناہوگی(ابوداؤد:۳۵۹۱)
ہندیہ میں ہے کہ مسلمانوں میں جن امور میں صلح کروانا جائزہے غیرمسلمین کا بھی آپس میں صلح کرانا جائزہے۔ (ہندیہ۴ / ۲۷۷)
غیرمسلموں کے ساتھ عدل وانصاف قائم کرنا:
اسلام نے جن چیزوں کی تعلیم دی ہے ان میں ایک عدل وانصاف قائم کرناہے،اس میں امیروغریب،کالے گورے،چھوٹے بڑے، مردوعورت،رنگ ونسل،ذات،پات، مسلم غیرمسلم حتیٰ کہ دوست وشمن کسی کا بھی کوئی امتیاز اورفرق نہیں رکھاہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشادہے:اے ایمان والو! اللہ کاحق اداکرنے والے اورانصاف کے ساتھ گواہی دینے والےرہو،کسی قوم کی دشمنی تم کوناانصافی پرآمادہ نہ کردے،(ہرایک کے ساتھ)انصاف کرو،یہی تقویٰ سے قریب تر(طریقہ) ہے اور(انصاف کرنے میں بھی) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو،یقینااللہ تمہارے اعمال سے باخبرہیں۔(سورۃ المائدۃ:۸)
اس آیت کی تفسیرمیں حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب فرماتے ہیں:
انسان کوانصاف کی راہ سے ہٹانےوالی دوچیزیں ہوتی ہیں،کسی سے محبت وتعلق یانفرت وعداوت ،(سورہ نساء:آیت:۱۳۵)میں محبت وتعلق کی بناء پرناانصافی کی بناء پرمنع کیاگیاہے،اوریہاں پرنفرت وعداوت کی بناء پر ناانصافی کو،اسلام کا نظام عدل کس قدرصاف وستھراہے کہ اس میں نیک و بد، فرماں بردار ونافرمان، مسلمان وغیرمسلم اوراپنے اوربیگانےکاکوئی فرق نہیں، انصاف ہرایک کے ساتھ ضروری ہے۔(آسان تفسیرتحت سورہ مائدہ :۸)
احادیث کے ذخیرہ میں ایسے بہت سارے واقعا ت ہیں کہ مسلمان کاکسی غیرمسلم سے جھگڑاہوا،اورمعاملہ آپ ﷺ یاکسی مسلم جج (قاضی)کی عدالت میں پہونچاتوانھوں نے غیرمسلم کے حق میں فیصلہ کیا۔
ایک صحابی کانام ابن ابی حدرداسلمی تھا،ان کے ذمہ ایک یہوی کےچاردرہم باقی تھے،یہودی نے حضورﷺسے اس کی شکایت کی،آپ نے معاملہ کوسننے کے بعدفوراان کووہ چاردرہم ادارکردینے کافیصلہ فرمایا،مگرانھوں نے عذرپیش کیاکہ میں ابھی اداکرنے پرقادرنہیں ہوں،آں حضورﷺنے تین مرتبہ ارشادفرمایاکہ کہا س کاحق اداکردو،جب آپ ﷺکسی چیزکاحکم تین بارفرماتے توصحابہ کرام خاموش ہوجاتےتھے،ابن ابی حدرد کے پاس ایک عمامہ تھااورایک چادرکوتہبندکے طورپرلپیٹے ہوئے تھے،چنانچہ انھوں عمامہ کوچادربناکرپہن لیااورچادرکوبازارمیں لے جاکرچاردرہم میں بیچ ڈالا،اوریہودی کاقرضہ اداکیا۔اس طرح آپ ﷺ نے ایک یہودی کاحق اداکروایااوراس جاں نثارصحابی نے بھی حکم کی تعمیل کی۔ (غیرمسلموں کے ساتھ پیغمبراسلام کاحسن سلوک:۱۸،بحوالہ بدایہ والنہایہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک زرہ گم ہوگئی،انھوں نےوہ زرہ ایک یہودی کے ہاتھ میں دیکھی،وہ اسے کوفہ کے بازارمیں فروخت کررہاتھا،حضرت علی نے کہاکہ یہ زرہ میری ہے،یہودی نےکہاکہ زرہ میری ہےاور میرے قبضہ میں ہے،معاملہ حضرت قاضی شریح کی عدالت میں پہونچا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دعویٰ کیا،یہودی نے رفع الزام کیا،قاضی صاحب نے حضرت علی سے گواہ طلب کئے، آپ نے اپنے بیٹے حضرت سیدناحسن رضی اللہ تعالی عنہ اوراپنےایک آزاد کردہ غلام کوپیش کیا،قاضی صاحب نے کہاکہ باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی ہے،اس لئے آپ کادعویٰ خارج کیاجاتاہےاورزرہ پرقبضہ کی وجہ سے یہودی کے حق میں فیصلہ کیا جاتا ہے۔
اسلام کے اس عادلانہ نظام کودیکھ کراس یہودی نےکہاکہ اسلام کا قاضی خود امیرالمؤمنین کے خلاف فیصلہ کرتاہے،یہ دین جھوٹانہیں ہوسکتاہے،اس لیےمیں اس کو قبول کرتاہوں اورگواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سواکوئی عبادت کےلائق نہیں، اور حضرت محمدﷺاس کے آخری پیغمبرہیں۔(اسلامی عدالت:۳۳بحوالہ اخبار القضاۃ: ۲/۲۰۰)۔فقط
Comments are closed.