ہر اک فقرے پہ ہے جھڑکی تو ہے ہر بات پر گالی

حیرت کی بات ہےکہ اب ہمارے سیاست داں مل جل کررہنے کی نصیحت،پیار و محبت اور بھائی چارےکی بات ہی نہیں کرتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی
’’بھائی چارہ بنیادی اصول ہے جو انصاف، آزادی اور مساوات کے آئینی نظریات کوجوڑ کر رکھتا ہے،یہ محض ایک اہم تصور نہیں، بلکہ متنوع سماج میں ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ایک عملی ضرورت ہے۔ آزادی، مساوات اور انصاف کے عمل میںبھائی چارہ اتحاد کے دھاگے کے طور پر چمکتا ہے اور ہمارے جمہوری معاشرے کے تانے بانے کو باندھ کررکھتا ہے،اس کے بغیردیگر نظر یات ایک ایسی تپائی کی طرح ہیں جوکہ ایک پایہ سے محروم ہے‘۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس پرشانت کمار مشرانے گزشتہ ماہ دسمبر۲۰۲۴ءمیںگجرات میں ایک پروگرام کے دوران یہ باتیں کہیںاورملک میںنفرت انگیز تقاریر اور تقسیم کی سیاست پرسخت تشویش کا اظہار کیا ،نیز اسے قومی یکجہتی کے لیے اہم چیلنج بتایا۔علاوہ ازیں ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کو دودھاری تلوار قرار دیتے ہوئےکہا کہ جہاں اس سے ایک طرف باہم گفتگو کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے،وہیں دوسری طرف نفرت انگیز تقریر کوبھی پروان چڑھایا جاتا ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میںسوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر غلط معلومات اور اشتعال انگیز تقریر سےبھائی چارےکو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔
معزز جسٹس مشراکے علاوہ ہندوستان کے جمہوری اقداراورسالمیت سے حقیقی پیار کرنےوالے دانشوروں نے بھی بارہا نفرت انگیز بیان بازی اور فرقہ وارانہ سیاست کی شدید مخالفت کی ہےاور اسے ملک کے لئے سنگین بتایا ہے،مگر بدقسمتی سے سیاست دانوں کے ذریعے ملک کی یکجہتی کوختم کرنے والی تقریروں کا سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔خاص کرجب کہیں چناؤ کا ماحول ہوتو ایسی باتیں عام اور سیاست داںبے لگام ہوجاتےہیں،جس کا۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات،اس کے بعد ہریانہ،مہاراشٹر جھارکھنڈ میں ہوئے اسمبلی انتخابات کی تشہیری سر گرمیوں کے دوران بخوبی مشاہدہ ہوا۔اور اب یہی سب کچھ ہندوستان کی راجدھانی ’دہلی‘ کے اسمبلی انتخابات میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘کی مصداق فرقہ وارانہ سیاست اور اشتعال انگیزبیان بازی میں کمی آنے کی بجائے اب یہ لا علاج مرض کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے جس میں بلا تخصیص چھوٹے بڑے تما م لیڈران شامل ہیں۔ دہلی میں اسمبلی کے انتخابات کی تیاری میں مصروف قومی وریاستی لیڈروں نے یہاں کی خوشگوار فضا کو مسموم کرنا شروع کردیا ہے۔
حیرت کی بات ہےکہ اب ملک کے سیاست داں مل جل کررہنے کی نصیحت،پیار و محبت اور بھائی چارےکی بات ہی نہیں کرتے۔تعلیم،روزگار،طب وصحت،نوکری،مہنگائی، بنیادی سہولیات، اخلاق وانسانیت کی باتیں ان کے انتخابی موضوعات نہیں بنتے۔بس نفرت،دشمنی،بغض و کینہ،ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملے،فقرےکسنا اورتوہین آمیز اشاروں سے اپنے مخالفین کی تضحیک عام بات ہے۔بقول شاعر:
ہر اک فقرے پہ ہے جھڑکی تو ہے ہر بات پر گالی
تم ایسے خوبصورت ہو کے اتنے بد زباں کیوں ہو
اس طرح کے بیانوں سے سیاسی فائدے حاصل ہوں تب بھی ملک کی مشترکہ سماجی شناخت کو سخت نقصان پہنچے گا،مگر اس بات کی کسے کو فکر؟۔کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتاہےکہ کرسی اور اقتدا رکے حریص یہ سیاست داں اپنی تما م حدوں کو عبور کرگئےہیں۔شاید اسی جانب سپریم کورٹ کے معزز جسٹس شرما نے اشارہ کیا اور کہا کہ ایسے بیانوں سے کشیدگی کا ماحول بنتا ہے جو بعد میں سماجی بدامنی میں تبدیل ہوسکتا ہے،اس لئے کہ جب فرد یا گروہ ایسے بیانیے کو فروغ دیتے ہیں جو ایک کمیونٹی کو دوسرے کے خلاف کھڑا کرتے ہیں تو اس سے آئین کے ذریعہ تصور کردہ اتحاد کا احساس کمزور ہو جاتا ہے ۔یہ خدشہ بالکل درست ہے، ملک کے سماجی تانے بانے کو کمزورکرنے والے گروہوں کی کوئی کمی نہیں،ہر روز ایک گروہ اور ادارےوجود میں آرہےہیں جو امن و سلامتی کے سخت ترین دشمن ہیں۔جن ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں ہے وہاں کا ماحول اور خراب اور پر خطر ہے۔حکمراں جماعت سے وابستہ لیڈر و کارکنان اناپ شناپ بکنے سے قطعی گریز نہیں کرتے۔اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔
چند دنوں قبل بہار کے ضلع بھاگلپور کے بی جے پی رکن اسمبلی کمار شیلندرکا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا جس میں وہ مسلمانوں کو گالیاں دیتے نظر آئے۔ان کا کہناہےکہ مسلمان سناتن اور مودی جی کی حمایت نہیں کرتےاور آرجے ڈی ’میاں‘ کی پارٹی ہےاس لئے ہم لوگوں کو مسلمانوں کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے، اگر ۲۰۲۵ء کا اسمبلی انتخابات جیت گئے تو سب کو ’سیئنت‘ دیں گے۔اسی طرح مہاراشٹرمیں بی جے پی کے ایک قدآور لیڈر نتیش رانے نے کیرالہ کا موازنہ منی پاکستان سے کرتےہوئے یہاں تک کہہ دیاکہ یہ ریاست منی پاکستان کی طرح ہے اس لئے راہل اور ان کی بہن پرینکا گاندھی وہاں سے ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔صرف انتہا پسند ہی پرینکا گاندھی کو ووٹ دیتے ہیں، ان لوگوں کے ووٹوں کی وجہ سے پرینکا ایم پی بنی ہیں۔
اس قسم کے انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے لیڈروں پر نہ تو پارٹی کارروائی کرتی ہے اور نہ ہی عدالتوں سے معقول سزا ملتی ہے ۔صرف نتیش رانے کی بات کریں تو اس پر اشتعال انگیزی کے سبب ۳۸؍ مقدمات درج ہیں جن میں ۶۶؍ سنگین سیکشنز شامل ہیں۔اسی طرح دہلی میں اتوار۵؍جنوری کو بی جے پی کے سابق رکن پارلیمنٹ رمیش بدھوڑی نے بدزبانی کی تمام حدوںکو پار کردیا۔بی جے پی کے اس لیڈر کو بدزبانی کی وجہ سے ہی لوک سبھا کا ٹکٹ نہیں دیا گیا تھامگر دہلی اسمبلی انتخابات میں کالکاجی سیٹ سے بی جے پی نے ٹکٹ دےدیا۔ بدھوڑی کے متنازعہ بیان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی، اس ویڈیو میں وہ کہتے ہیں کہ لالو نے بہار کی سڑکوں کو ہیما مالنی کے گالوں جیسا بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے،میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، جس طرح اوکھلا اور سنگم وہار کی سڑکیں بنی ہیں۔ اسی طرح میں کالکاجی کی تمام سڑکوں کو پرینکا گاندھی کے گالوں کی طرح چمکا دوں گا۔ان کے اس بیان پر کانگریس پارٹی کا برہم ہونا فطری ہے۔کانگریس نے پی جے پی کو خاتون مخالف بتایا اور رمیش بدھوڑی کا پتلا نذرآتش کیا۔معاملے کو طول پکڑتےاور سیاسی ہنگامہ آرائی کو دیکھتےہوئے بی جے پی کے اس زبان دراز لیڈر نے معافی تو مانگ لی ہے لیکن کیا یہ مسئلے کا حل ہے؟ہرگز نہیں۔ایسے لیڈروں پر سخت کارروائی کرتےہوئے باہر کا راستہ دکھانا واجب ہے چاہے وہ جس پارٹی کے بھی ہوں۔
ملک میںانتخابی موسم ہو کہ نہ ہو امن و سکون سماج کی اہم ضرورت ہے، مگربی جے پی ایسا نہیں کرسکتی کیوںکہ پولرائزیشن کی باتوں سے بڑا سیاسی فائدہ ہوتا ہے، اس لئے زعفرانی پارٹی کا ہر لیڈر ناک تک نفرت کے رنگ میںڈوبا رہنا پسندکرتا ہے اور اس میں سبقت لےجانے کی جتن کرتا ہے۔ہیمنت بسو اسرما،یوگی آدیتہ ناتھ،گری راج سنگھ،رمیش بدھوڑی جیسے لیڈروں کی لمبی فہرست ہے لیکن ان کی یہ سیاست ملک کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے، کیونکہ ہندوستان اسی وقت مضبوط ہوگا جب یہاں انسانی قدروں کی حفاظت کی جائے گی،ایک دوسرے کا ادب و احترام کیا جائےگا۔
(مضمون نگار انقلاب دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں)
قلب مضطر
نفرت انگیز بیانوں سے سیاسی فائدے حاصل ہوں تب بھی ملک کی مشترکہ سماجی شناخت کو سخت نقصان پہنچے گا،مگر اس بات کی کسے فکر؟کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتاہےکہ کرسی اور اقتدارکے حریص یہ سیاست داں اپنی تمام حدوں کو عبور کرگئےہیں۔شاید اسی جانب سپریم کورٹ کے معزز جسٹس شرما نے اشارہ کیا اور کہا کہ ایسے بیانات سے کشیدگی کا ماحول بنتا ہے جو بعد میں سماجی بدامنی میں تبدیل ہوسکتا ہے،اس لئے کہ جب فرد یا گروہ ایسے بیانیے کو فروغ دیتے ہیں جو ایک کمیونٹی کو دوسرے کے خلاف کھڑا کرتے ہیں تو اس سے آئین کے ذریعہ تصور کردہ اتحاد کا احساس کمزور ہو جاتا ہے ۔یہ خدشہ بالکل درست ہے، ملک کے سماجی تانے بانے کو کمزورکرنے والے گروہوں کی کوئی کمی نہیں،ہر روز ایک گروہ اور ادارےوجود میں آرہےہیں جو امن و سلامتی کے سخت ترین دشمن ہیں۔جن ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں ہے وہاں کا ماحول اور خراب ہے۔حکمراں جماعت سے وابستہ لیڈر و کارکنان اناپ شناپ بکنے سے قطعی گریز نہیں کرتے۔
Comments are closed.