زلزلوں کا پیغام

 

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

 

زمین پر وقوع پذیر ہونے والے قدرتی حوادث، خصوصاً زلزلے، انسان کو اس کی حقیقت سے روشناس کرواتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں کتنے عاجز اور بے بس ہیں۔ زلزلے بظاہر جغرافیائی عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں، لیکن اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، جو انسانوں کے لیے تنبیہ، آزمائش یا عذاب کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق زلزلے زمین کی پلیٹوں کی حرکت، زمینی پرتوں میں دباؤ کی پیداوار اور اچانک ان کے ٹوٹنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ زمین کی سطح مختلف پلیٹوں پر مشتمل ہے، جو مسلسل حرکت کرتی ہیں۔ جب دو پلیٹیں ایک دوسرے کے خلاف شدید دباؤ کا سامنا کرتی ہیں تو توانائی جمع ہوتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب یہ دباؤ پلیٹوں کو ہلا دیتا ہے اور توانائی اچانک زلزلے کی صورت میں خارج ہو جاتی ہے۔

زلزلے کی شدت کو "ریکٹر اسکیل” پر ناپا جاتا ہے، اور اس سے اس کی قوت اور اثر کا اندازہ ہوتا ہے، سائنس اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ زلزلے قدرتی عوامل کا نتیجہ ہیں، لیکن اس سائنسی توجیہہ کے ساتھ ہمیں ان زلزلوں کے پیچھے چھپی ہوئی حکمت اور پیغامات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو دی گئی ایک نشانی ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں زلزلوں اور مختلف قسم کے قدرتی حوادث کو انسانی بد اعمالیوں کا نتیجے کے طور پر دیکھنے کی اور اس کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر توجہ دینے کی تعلیم ہے، قرآن کریم میں اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"ظَھَرَ الفَسَادُ فِی البَرِّ وَالبَحرِ بِمَا کَسَبَت أَیدِی النَّاسِ”(سورۃ الروم: 41)

ترجمہ: "خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہو گیا ہے، اس وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا۔”

اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے:

"وَمَا نُرْسِلُ بِالآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا”

(سورۃ الإسراء: 59)

ترجمہ: "ہم نشانیاں صرف لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں۔”

اس آیت کی روشنی میں علماء کرام نے حوادث اور زلزلوں کو ایک قسم کی "تخویف” قرار دیا ہے، یعنی حوادث اور زلزلے اللہ کی طرف سے بندوں کو متنبہ کرنے اور ان کے گناہوں سے پلٹنے کی دعوت دینے والی نشانیاں ہیں، علامہ ابن کثیرؒ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے:

"اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مختلف آفات و بلیات کے ذریعے یاد دلاتا ہے کہ وہ اس کے قریب ہو جائیں اور اس کے عذاب سے بچ سکیں۔” (تفسیر ابن کثیر، جلد 3، ص 135)

زلزلے کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر ملتا ہے جہاں سابقہ قوموں پر آنے والی آفات کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے، قوم ثمود کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ عز وجل کا ارشاد ہے کہ ان کو ان کے کفر اور سرکشی کے سبب زلزلے اور زمین کی تھرتھراہٹ کے ذریعے تباہ کردیا گیا:

"فَأَخَذَتهُمُ الرَّجفَةُ فَأَصبَحُوا فِی دَارِهِم جَاثِمِينَ”

(سورۃ الأعراف: 78)

ترجمہ: "پس ان کو زلزلے نے آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں گرے پڑے رہ گئے۔”

یہاں زلزلہ ان لوگوں کے لیے عذاب تھا جو اپنے کفر اور سرکشی میں حد سے بڑھ چکے تھے۔ علماء نے زلزلے کو اللہ کی طرف سے بندوں کی آزمائش یا عذاب قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب زلزلے آئیں تو یہ وقت رجوع الی اللہ کا ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

"جب زمین لرزنے لگتی ہے، تو یہ بندوں کے گناہوں کی علامت ہوتی ہے اور یہ ضروری ہوتا ہے کہ لوگ اللہ کی طرف پلٹیں، اس سے بخشش مانگیں، اور اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔” (مجموع الفتاویٰ، جلد 6، ص 162)

شارح بخاری علامہ ابن حجرؒ عسقلانی نے زلزلے کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

"اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو زلزلے کے ذریعے ڈراتا ہے تاکہ وہ اپنی سرکشی چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کریں۔ زلزلے کے بعد لوگوں کو استغفار، توبہ، اور نیک اعمال کی کثرت کرنی چاہیے۔” (فتح الباری، جلد 13، ص 106)

نیز زلزلوں کی کثرت کو قیامت کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے، حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک علم اٹھا نہیں لیا جائے گا، زلزلے بکثرت نہیں آئیں گے، اور وقت تیزی سے نہیں گزرے گا” (صحیح بخاری، کتاب الفتن)

اس حدیث مبارکہ میں زلزلوں کی کثرت کو آخری زمانے کی علامات میں سے ایک علامت قرار دیا گیا ہے۔ علماء کرام نے اس حدیث کی روشنی میں فرمایا ہے کہ زلزلے انسانی گناہوں اور زمین پر پھیلے فساد کا نتیجہ بھی ہو سکتے ہیں، اور یہ قیامت کے قریب تر ہونے کی نشانی ہیں۔

بہرحال زلزلے جہاں ایک سائنسی حقیقت ہیں، وہیں یہ اللہ کی قدرت کا عظیم مظہر بھی ہیں، یہ ہمیں اس حقیقت کا احساس دلاتے ہیں کہ دنیا فانی ہے اور ہر چیز اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ انسان کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب اسے اپنی حقیقت کا ادراک ہوتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے کتنا عاجز ہے۔

اس لیے زلزلے کے بعد ہمیں نہ صرف سائنسی اسباب کا جائزہ لینا چاہیے، بلکہ یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ ہماری زندگی میں کیا کمی ہے، اور ہمیں کس طرح اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ”

(سورۃ الذاریات: 50)

ترجمہ: "اللہ کی طرف بھاگو۔”

اس جامع حکم کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالیں، ہر گناہ پر سچے دل سے توبہ کریں اور نیکیوں کی طرف پورے شوق و جذبے کے ساتھ قدم بڑھائیں، فرائض و واجبات کی ادائیگی کے کامل اہتمام کے ساتھ ہمارا ہر لمحہ اللہ کی یاد سے سرشار ہو اور ہر عمل اس کی خوشنودی کے لیے ہو، شرک و ریا کاری اور نفسانی وشہوانی خواہشات سے ہم مکمل دور اور بیزار ہوں، یہی رجوع دنیا اور آخرت کی حقیقی کامیابی کا راز ہے اور دنیاوی مشکلات، فتنوں، اور آزمائشوں سے بچنے کا یہی بہترین طریقہ ہے اور یہ بھی نہ بھولیں کہ اگر آپ کو قربت اور تعلق مع اللہ کی نعمت حاصل ہے تو پھر پیش آنے والے پریشان کن حالات آپ کے لئے عذاب نہیں بلکہ سراپا نعمت ورحمت ہیں، جن پر صبر کا بہترین انعام رب کریم نے آپ کے لئے تیار کر رکھا ہے۔

Comments are closed.