مسلمانوں کے دینی، معاشی اور سماجی تنزلی: اسباب و حل

 

جاوید اختر ثاقبی

کوڈرما (جھارکھنڈ)

 

اقوام عالم پہ جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ مسلمانوں کی حیثیت سمندر کے جھاگ کی مانند ہوگئی ہے اور دنیا کی نظروں میں ہماری وقعت اڑتے ہوئے اون کی طرح ہے؛ حالاں کہ ہم وہ امت ہے جس کی تعلیم اور تزکیہ کے لیے ایسے نبی کو مبعوث کیا گیا جو مقصودِ کائنات ہیں جس کو خیر امت کا خطاب دیا اور فرمایا تم ہی سر بلند رہو گے، اس امت کی گواہی دوسری امتوں پر پیش کی جائے گی۔ موجودہ قوم مسلم کو دیکھنے کی خواہش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور ایک موقع پر فرمایا جو مجھے دیکھ کر ایمان لایا اسے ایک بار مبارک باد اور جو بغیر دیکھے ایمان لایا اسے سات بار مبارکباد، حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتیوں کی ایک 120 صفیں ہوں گی، ان میں سے 80 صفیں اس امت محمدیہ کی ہوگی۔

 

یہ فضائل و مراتب ایک طرف، دوسری طرف ہماری موجودہ حالتِ زار ہے۔ کیا ہم نے اس کے اسباب و وجوہات پر غور کیا؟ یہ ساری خرابیاں دراصل ہماری غفلت و لاپرواہی، سستی و کاہلی، بد عملی، ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بے بسی اور احساس ذمہ داری میں کوتاہی کا نتیجہ ہے۔

امت کا ہر طبقہ ان بیماریوں کے سبب لاغر و نحیف ہو چکا ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ زہر آلود جراثیم دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، ان مکروہات نے ہمیں دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے، دینی طور پر ہم نماز، روزہ، زکوة، حج، تلاوتِ قرآن اور دیگر احکامات کی پابندی سے کوسوں دور ہیں۔ ایک وقت تھا کہ لوگوں کے گھروں سے قرآن مقدس کی تلاوت کی آوازیں آتی تھی اور رحمتِ الہی اپنی عنایتیں بکھیرتی تھی؛ لیکن افسوس امت اس نعمت عظمی سے محروم ہوتی جا رہی ہے، اور پھر لوگ عاملوں و باباؤں کے دروازوں کے چکر کاٹتے ہیں، اسی طرح ہمارے بچے دین و دنیا کی تعلیم سے اکثر محروم ہوتے جا رہے ہیں، ہماری مائیں تربیت و پرورش میں اہم رول ادا نہیں کرتی، ہمارے بزرگ اپنی اولاد کی کفالت و نکاح صحیح ڈھنگ سے نہیں کرتے، ہمارے نوجوان تجارت و صنعت سے جی چراتے ہیں، ہمارے بڑے بوڑھے اپنی اولاد کو صحیح راہ دکھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ع

 

جا رہا ہے بے سمت بے خیال سمت

اور زباں پہ نالہ موزوں یہ مظلومانہ

 

دنیاوی اعتبار سے بھی ہماری کہانی ادھوری ہے، چناں چہ تجارت و صنعت، منصب و حکومت کی صف میں اس قوم کی موجودگی محدود ہے، بطور خاص ہمارے نوجوانوں کی حالت قابل افسوس ہے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد محض سستی و کاہلی کی وجہ سے بے روزگار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے گھروں میں حقیقی فاقہ کشی پر مجبور ہے۔ کسی قوم کے عروج و زوال میں جوان طبقے کا بڑا اہم رول رہتا ہے۔ ع

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

 

قارئین کرام! آئیے اب ہم ان بیماریوں کے علاج و تدبیر کے متعلق سوچیں اور قرآن و سنت کے ذریعے ان بیماریوں سے صحت یاب ہو قرآن مقدس میں کاہلی و سستی کو متعدد جگہ منافقین کی صفت بتلایا گیا ہے۔ (نساء: 142، توبہ: 54) اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں دعا تعلیم فرمائی:

”اللہم انی اعوذ بک من الهم والحزن والعجز والکسل والبخل والجبن وصلع الدين و غلبة الرجال“

ترجمہ: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں رنج و غم سے، بے بسی اور کاہلی سے، بخل و بزدلی سے، قرض کے بوجھ سے اور انسانوں کے غلبہ سے۔

 

بعض لوگ محنت سے جی چراتے ہیں اور توکل کا بہانہ بناتے ہیں، یہ ایک شیطانی دھوکہ ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: تم محنت کو اپنا وطیرہ بناؤ؛ کیوں کہ تم جانتے ہو کہ آسمان نہ سونا برساتا ہے، نہ چاندی (احیاء علوم الدین)

حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ میں دن بھر قرآن مقدس پڑھتا ہوں آپ نے فرمایا: صرف صبح و شام قرآن کی تلاوت کرو، باقی دن بھر محنت کام کاج کرو؛ کیوں کہ اللہ تعالی نے دن کو محنت کے لیے بنایا (سورہ نبا: ١١)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کے کام کاج کی وجہ سے ان کے سخت ہاتھوں کو دیکھ کر تعریف کی اور فرمایا: یہ ایسے ہاتھ ہیں جنہیں اللہ پسند فرماتا ہے۔

ان آیات، روایات اور آثار سے واضح ہوتا ہے کہ سستی و کاہلی دنیا آخرت میں محرومی کا ذریعہ ہے، جب کہ حرکت و عمل برکت اور کامیابی کا ذریعہ ہے اور واجبات کی ادائیگی سے سستی حرام اور موجب عذاب ہے۔ ہم انبیاء، صحابہ اور اولیاء کی زندگیوں کو پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے انبیاء نے بکریاں چرائی، داؤد علیہ السلام نے زرہ سازی کی، سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے اپنے ہاتھوں سے بیت اللہ کی تعمیر کی، خود ہمارے نبی ﷺ اور صحابہؓ کی زندگی جہد و مشقت اور تعب و محنت سے معمور ہے، آپ نے کسی بھی عمل میں کاہلی کو پسند نہیں فرمایا۔

 

سستی کے ازالے کے لیے رات میں جلدی سوئیں، صبح فجر میں جلدی اٹھیں، پھر اپنے مشاغل میں لگ جائیں، ہمارے نبی ﷺ نے اپنی امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت کی دعا کی، فرمایا: اللہم بارک لامتی في بكورها

ترجمہ: اے اللہ! میری امت کو صبح کے وقت میں برکت دے۔

اس حدیث کے راوی حضرت صخر رضی اللہ تعالی عنہ تاجر تھے، وہ صبح ہی سے اپنی تجارت شروع فرماتے، جس کی وجہ سے ان کے مال میں برکت و کثرت ہوگئی۔ سستی و کاہلی پر اپنا محاسبہ اور دوسری قوموں کے مقابلے میں اپنے نفس کو ملامت کرنا چاہیے، نیز معتبر شخصیات کو اپنا نمونہ (آئڈیل) بنائیں، بےکار و برے لوگوں کی صحبت سے بچیں، نیک سیرت لوگوں کی صحبت اپنائیں اور زیادہ بولنے سے بچیں، صحت کا خیال رکھیں اور دعا بھی کریں کہ اللہ تبارک و تعالی ہمیں ان برائیوں سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے، دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح عطا فرمائے اور اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Comments are closed.