غیرمسلموں کے تعلق سے اسلامی تعلیمات

 

قاضی محمدفیاض عالم قاسمی

قاضی شریعت

دارالقضا ءآل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ،

ناگپاڑہ، ممبئی۔8

8080697348

جہاں کئی قسم کے مزاج والےلوگ ایک ساتھ رہتے سہتے ہیں وہاں پراختلاف کاپایاجاناناگزیرہے،چوں کہ ہرایک کی سوچ مختلف ہوتی ہے،اس لیےایک دوسرے کی بات چیت یاعمل وکردارسےدوسرےکو تکلیف پہنچ سکتی ہے،مگراس سےچھٹکارے کے لئےمعافی تلافی اورعفوودرگزرکامعاملہ کرناضروری ہے۔اللہ کے بندوں کے ساتھ عفو ودرگزرکامعاملہ کرنااسلام میں نہایت ہی پسندیدہ عمل ہےاوریہ اللہ تعالیٰ کوبہت ہی زیادہ محبوب بھی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کےناموں میں ایک نام عفوبھی ہےیعنی معاف کرنے اوردرگزرکرنےوالا۔قرآن کریم میں جگہ جگہ اس طرف سے توجہ دلائی گئی ہےکہ انسان کوہرایک کے ساتھ عفوو درگزر کا معاملہ کرناچاہئے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:ترجمہ: پھریہ اللہ ہی کی رحمت ہے کہ آپ ان کےلیے نرم خو ہیں،اگرآپ تندخواورسخت دل ہوتے تویہ آپ کے پاس سے بھاگ لئے ہوتے، لہذا آپ انھیں معاف کردیں،ان کے لیے مغفرت کی دعاء کریں،اوراہم معاملات میں ان سے مشورہ لیاکریں،پھرجب آپ پختہ عزم کرلیں،تواللہ پر بھروسہ رکھیں،بے شک اللہ اس پر بھروسہ کرنے والوں کوپسندفرماتے ہیں۔(سورۃ آل عمران:۱۵۹)دوسری جگہ ارشادہے:ترجمہ:آپ کوہمیشہ ان (یہودی) لوگوں کی خیانت کی اطلاع ملتی رہے گی،پھربھی آپ انھیں معاف کردیجئےاوردرگزرسے کام لیجئے،بے شک اللہ بہترمعاملہ کرنےوالوں کوپسندفرماتے ہیں۔(سورۃ المائدۃ:۱۳)

حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے ملاقات کی،توآپ ﷺنے ارشادفرمایاکہ کیاکہ میں تمہیں دنیااورآخرت کے لوگوں کےبہترین اخلاق کے بارے میں نہ بتاؤں، میں کہا:ہاں ضرور!اے اللہ کے رسول! آپ ﷺنے ارشادفرمایا:”یعنی جوتمہارے ساتھ قطع تعلق کرےتوتم ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو،جوتم کومحروم رکھےتم ان کودیاکرو،اورجوتم ظلم کرے تم ان کے ساتھ عفوودرگزر کا معاملہ کرو،خبردارجوکوئی چاہتاہے کہ اس کی عمربڑھادی جائے اورروزی میں بڑھوتری ہوتواسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔(شعب الایمان للبیھقی:۷۵۸۷عن عقبۃ ابن عامر)

ٍابوجہل آپﷺ کابدترین دشمن تھا،ان کے لڑکے عکرمہ کہ یہ دشمنی میراث میں ملی تھی،فتح مکہ کے موقعہ پریہ بھاگ کریمن چلے گئے،ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث ابوجہل کی بھتیجی تھیں،مسلمان ہوگئیں،اور خدمت اقدس میں حاضرہوکراپنے شوہرکے لیےمعافی چاہی،آپﷺ نے معاف فرمادیا،یہ خود یمن گئیں اورپنے شوہرسے اس کاذکرکیا،ان بڑاتعجب ہواکہ رسول رحمت نے ان جیسے بدترین دشمن کوکیسے معاف کردیا!بہرحال وہ اپنی بیوی کے ساتھ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، آپ نے کھڑے ہوکران استقبال کیا،اوران کوگلے سے لگالیا،آپ ﷺ کاعفو ودرگزراورحسن سلوک کایہ معاملہ دیکھ کر وہ مسلمان ہوگئے،اورہمیشہ کے لئے غلامان محمد میں شامل ہوگئے۔(غیرمسلموں کے ساتھ پیغمبراسلام کاحسن سلوک:۲۲ ، بحوالہ مستدرک للحاکم،حدیث نمبر:۵۰۵۵)

ایک سفرکے دوران آپ ﷺ نے ایک درخت سے اپنی تلوارلٹکائے لیٹ گئے،ایک شخص آیا،اس نے تلواراپنے ہاتھ میں لی اورحضورسے کہنے لگاکہ اب تم کومجھ سے کون بچائے گا؟آپ کی آنکھ کھل گئی،آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ یہ کہناتھاکہ وہ کانپنے لگااورتلواراس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی،آپ اٹھے تلواراپنے ہاتھ میں لی اوردریافت فرمایاکہ اب تم کومجھ سے کون بچائے گا؟اس نے کہا: یقینا اب مجھے آپ کے سواکوئی نہیں بچاپائےگا،اوراس نے آپ کے رحم وکرم کی دہائی دی، تو آپ ﷺ نے اسے معاف کردیا۔(صحیح مسلم:۸۴۳)

آپ ﷺ کے عفو ودرگزرکے تعلق سےسیرت کی کتابوں میں بے شمارواقعات مذکورہیں، اگر ان کو جمع کردیاجائے تو مستقل ایک کتاب بن جائے، لیکن اس سلسلے کاسب سے بڑااوراہم واقعہ فتح مکہ کے موقعہ پر عام معافی کااعلان تھا۔غورکیجئے کہ وہ کونسی تکلیف تھی جواہل مکہ نے آپ ﷺ اوران کے ساتھیوں کے ساتھ روانہیں رکھی تھی، کمزورمسلمانوں کوقتل کیاگیا،آگ پر لٹایاگیا،پتھریلی اورتپتی ہوئی پر گھسیٹاگیا،کوڑے لگائے،مسلسل دوسال تک بائیکاٹ کرکے پورے قبیلہ بنی ہاشم وبنومطلب کوشعب ابی طالب میں نظربندکردیاگیا،انھیں فاقہ پر مجبورکیاگیا،بچے بوڑھے،عورت اورنوجوان سب دانہ دانہ کوترس گئے،آپ ﷺ اوران کے ماننے والوں کوپاگل ،دیوانہ،اورجادوگرکہاگیا،آپ ﷺ پر کچڑا پھینکا گیا،اونٹ کی اوجھڑی ڈالی گئی،پتھر برساے گئے،زخمی کیاگیا،چہرہ پرتھوکاگیا،قتل کرنے کی سازش کی گئی،بالاخرمکہ چھوڑنے پر مجبورکیاگیا،راستہ میں پیچھا کیا گیا، جب مدینہ ہجرت کرگئے تو وہاں بھی چین سے نہیں رہنے دیاگیا،طرح طرح کی سازشیں رچی گئیں، کئی حملے کئے گئے،کئی جنگیں کی گئیں،کوئی ایسی تکلیف نہیں تھی جوآپ کو اورآپ کے صحابہ کو نہ پہونچائی گئی ہو۔اس کے باوجود جب مکہ فتح ہوتاہے تومحسن انسانیت،رحمۃ للعلمین ﷺ ان ظالموں کو معاف فرمادیتے ہیں اورانھیں امن کاپروانہ دیدیتے ہیں۔(غیرمسلموں کے ساتھ پیغمبراسلام کاحسن سلوک:۲۵)

ایک مرتبہ مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔واقعہ یہ پیش آیاتھاکہ کسی غیرمسلم کے بیٹےنے گورنرکےصاحبزادے کےساتھ گھوڑدوڑکی بازی لگائی،صاحبزادہ ہارگیااوروہ غیرمسلم جیت گیا،اس لئے طیش میں آکر صاحبزادہ نے کوڑے سے اس کومارناشروع کردیا۔ خلیفہ وقت امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کے پاس جب اس کی شکایت کی گئی تو اُنہوں نے برسر عام گورنرکے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی ایک تاریخی جملہ ادا فرمایا: منذ كم تعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا؟ یعنی ’’تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے، حالاں کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا. (کنز العمال:۳۶۰۱۰،عن انس رضی اللہ عنہ)

یہ روایت جہاں ایک طرف غیرمسلموں پر بلاوجہ ظلم وستم کرنے کو ناجائز بتلاتی ہے، وہیں دوسری طرف اسلام کاعادلانہ نظام بھی اس سے نمایاں ہوتاہے۔

درمختارمیں ہےکہ غیرمسلموں کوکسی بھی قسم کی تکلیف دینے سے رُکے رہناضروری ہے، بلکہ اگر غیرمسلم معاہدہے تو اس پر ظلم کرناسخت گناہ ہے۔ (درمختارعلی ردالمحتار: ۴/ ۱۷۰-۱۷۱)

اے کافرکہہ کرپکارنادرست نہیں:

کافر عربی زبان کالفظ ہے، جس کے معنیٰ ہیں انکارکرنے والایعنی اللہ اوراس کے رسول نیز قرآن کی تعلیمات کو نہ ماننے والا،پس جولوگ مسلمان نہیں ہیں وہ کافرہیں۔قرآن وحدیث اورعربی زبان میں کافراس معنیٰ کے علاوہ دوسرے معنیٰ میں بھی استعمال ہواہے،یہ لفظ توہین والا نہیں ہے،تاہم اگر کسی کوکافرکہہ کر پکارنے میں تکلیف ہوتو فقہاء نے لکھاہےاےکافر کہہ کرپکارنادرست نہیں، کیوں کہ کسی غیرمسلم کو بلاوجہ تکلیف پہونچاناجائزنہیں۔(الاشباہ والنظائر: ۱/۱۵۷ش،ہندیہ:۵/۳۴۸)

غیر مسلموں کی املاک کاتحفظ ضروری ہے:

نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایاکہ غیرمسلموں- جن کے ساتھ ہمارامعاہدہ ہواہے- کے مال ہمارےمال کی طرح ہیں، اس سے معلوم ہواکہ ان کی املاک بھی قابل احترام ہیں،جس طرح بغیررضامندی کے کسی مسلمان کامال نہیں لیاجاسکتاہے اسی طرح کسی غیرمسلم کابھی نہیں لیاجاسکتاہے۔ (نصب الرایہ:۳ / ۳ ۸۱)

فتح خیبرکےموقعہ پر بعض مسلمان فوجیوں نے یہودیوں کے جانورذبح کردئے، اور کچھ پھل کھالئے،تو رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر مختصر خطاب فرمایا اور فوجیوںکی اس حرکت پر ناگواری کا اظہارفرماتے ہوئے کہاکہ جس کسی نے ان یہودیوں کامال ان کی رضامندی کے بغیرلیاہے،میں قیامت کے دن اس کافریق بنوں گا۔(سنن ابی داؤد:۳۰۵۲)۔حضرت عمرؓ نے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہؓ کو جو فرمان لکھا تھا، اس میں دیگر احکام کے ساتھ یہ بھی درج تھا:(تم بحیثیت گورنر شام) مسلمانوں کو غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنے، انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقے سے ان کا مال کھانے سے سختی کے ساتھ منع کرو۔( کتاب الخراج لابی یوسف رحمہ اللہ)

غیرمسلم کامال ضائع کرنےپرتاوان واجب ہوگا:

درمختارمیں ہےکہ اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں ویزالیکر داخل ہوتواس کے لیے غیرمسلموں کے مال سےچھیڑچھاڑ کرناجائزنہیں؛ کیوں کہ مسلمانوں کو اپنی شرائط اوراپنے مذہب پر عمل کرناضروری ہے، اس کے باوجود اگر کوئی وہاں سے مال لیکر آجائے تو یہ غصب اورچوری ہوگی،ایسے مال کوواپس کرناواجب ہے، خدانخواستہ اگر کہیں مال ضائع ہوگیا یا استعمال کرلیا تو اسکا تاوان دینا واجب ہے۔

(درمختارعلی ردالمحتار: ۴/۱۶۶)اسی طرح درمختارہی میں ہے کہ اگر کسی مسلمان نےغیر مسلم شہری کی شراب اور اس کے خنزیر کو ضائع کردیاتو مسلمان کو اس کی قیمت کوبطور تاوان ادا کرناپڑےگا۔ ُ(درمختارعلی ردالمحتار:۴/۱۷۰)۔فقط

Comments are closed.