"دیدۂ عبرت” کا فقدان بھی بڑی محرومی ہے

 

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

 

یہ دنیا اس وقت آفات اور عذابوں کا میدان بنی ہوئی ہے، کہیں سیلاب لاکھوں انسانوں کو بے گھر کر رہا ہے، کہیں طوفانی بارشوں سے آبادیاں تہس نہس ہورہی ہیں، کہیں زلزلوں سے چیخیں سنائی دے رہی ہیں اور کہیں جنگل کی آگ انسانی آبادیوں کو نگل رہی ہے، لیکن ان تمام تباہیوں کے باوجود انسانوں کی غفلت کا پردہ چاک نہیں ہوتا ہے، وہ ان واقعات کو محض مادی اسباب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور اس میں چھپی حکمت اور تنبیہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ انسان کو قدرتی آفات اور ان کی اصل وجوہات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ” (الشورى: 30)

یعنی تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے اعمال کا نتیجہ ہے، اور اللہ بہت سی باتوں سے درگزر کر لیتا ہے۔

یہ آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ قدرتی آفات میں ہمارے اعمال کی جھلک ہوتی ہے، ظلم وبربریت، حق تلفی ونا انصافی، فطرت سے بغاوت اور انسانوں کی مختلف النوع بد اعمالیاں ان عذابوں کو دعوت دیتی ہیں اور انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی انسانوں نے اللہ کے احکام سے روگردانی کی اور زمین پر ظلم اور فساد پھیلایا، تو قدرت نے انہیں عبرت ناک عذابوں میں مبتلا کیا، قرآن مجید میں عذاب الہی میں گرفتار ہونے والی قوموں کے واقعات کو ذکر کرتے ہوئے اللہ عز وجل نے فرمایا ہے:

"فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ” (العنكبوت: 40)

ترجمہ: "غرض کہ ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے پکڑ لیا ، تو بعضوں پر ہم نے پتھر برسائے ، بعضوں کو ہولناک چیخ نے پکڑ لیا ، بعض کو زمین میں دھنسا دیا اور بعض کو ڈبودیا ، اور اللہ ایسے نہیں تھے کہ ان پر ظلم کریں ؛ لیکن یہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کررہے تھے۔”

یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ کا عذاب ان قوموں پر اس وقت نازل ہوا جب انہوں نے حد سے تجاوز کیا اور زمین میں فساد برپا کیا۔ آج بھی انسانوں میں جب ظلم و زیادتی اور بدعنوانی عروج پاتی ہے، تو قدرت رحم کرتے ہوئے صرف محدود پیمانے پر چند مخصوص انسانوں کو اس گرفت میں مبتلا کر کے عام انسانوں کو خبردار کرتی ہے اور پیغام دیتی ہے کہ اپنی روش کو بدلو، اللہ کی طرف لوٹو اور اپنی زندگی کو اس کے احکام کے مطابق گزارنے والے بن جاؤ۔

دیکھ اے نگاہِ عبرت آثار عہد ماضی

آبادیوں کے ہوکر ویرانے رہ گئے ہیں

 

لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ اس پہلو سے ان حوادث کو دیکھنے والی "دیدۂ عبرت” کا بھی فقدان ہے اور ظاہری دنیا کے پیچھے چھپے ہوئے پیغامات کو پڑھنے والی نگاہوں سے انسانوں کو ان کی بد اعمالیوں کے سبب محروم کردیا گیا ہے، اسی لئے ایسے واقعات وحالات کو انسان اپنی عقل اور علم پر غرور کرتے ہوئے مادی اسباب سے جوڑ لیتا ہے اور اس سے کوئی سبق نہیں لیتا۔ وہ ان آفات کو اتفاقی سمجھتا ہے، اسی لئے اس کی روش میں تبدیلی نہیں آتی، حالانکہ یہ عذاب اللہ کی طرف سے اس کی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس "نگاہ عبرت” کا فقدان بھی بہت بڑی محرومی اور الہی گرفت ہے، کائنات کے سینے پر بکھرے ہوئے رنگ برنگے مناظر ، عقل کو حیران کرنے والی الہی تخلیقات اور روز وشب کے انقلابات انسانوں کو دعوت فکر دیتے ہیں، ان کی تہہ تک جانا اور بصارت سے آگے بڑھ کر بصیرت کے در تک پہنچ جانا نگاہ کا باکمال وظیفہ ہے، لیکن افسوس کہ کچھ ہی آنکھیں ایسی ہوتی ہیں جو پردہ ہٹا کر حقیقت کو دیکھتی ہیں، جب کہ اکثر غافل آنکھیں صرف ظاہر کو دیکھتی ہیں، جو عقل و دانش کے بھی خلاف ہے۔

Comments are closed.