ٹرمپ: جمہوریت کی لاش پہ طاقت ہے خندہ زن

ڈاکٹر سلیم خان
نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ ان کی زبردست کامیابی نے جمہوری نظام کو بے نقاب کردیا۔ موصوف مجرم قرار پائے کیونکہ امریکہ میں جمہوریت ہے اوراسی کے طفیل سزا بھی نہیں ملی ۔ مساوات کی علمبردار جمہوریت میں ویسے تو سب برابر ہیں مگر اقتدار پر فائز ہونے والا قانون سے اوپر ہوجاتا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر انتخاب ہار جاتے تو چار سال جیل میں گزارتے لیکن اب وہ قصرِ ابیض میں عیش کریں گے کیونکہ جمہوری انتخاب میں کامیابی مل گئی ۔ ان پر بھاری جرمانہ بھی لگتا مگر اب وہ معاف ہو گیا۔ وہ اب امریکی عوام کے ٹیکس پر دادِ عیش دیتے پھریں گے کیونکہ ٹیکس دہندگان نے انہیں اپنا سربراہ منتخب کرلیا یعنی عملاً وہ قانون سے بالا تر ہوگئے ۔ سیاسی نظام کی سب سے بڑی ناکامی مجرم کو سزا دینے سے قاصرر ہنا اورمعافی پر مجبورہوجاناہے اس لیے یہ جمہوریت ہے یا مجبوریت؟ ٹرمپ نے تو علامہ اقبال کے رازدار فرنگی کو بھی غلط ثابت کردیا ؎
اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش،
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ڈونلڈ ٹرمپ کو اس مقدمہ میں گنا نہیں گیا بلکہ تولا گیا۔ ان کے بھاری بھرکم سیاسی وزن نے انہیں سزا سے بچا لیا ۔ موصوف کو رشوت دے کر منہ بند کرنےکے کیس میں مجرم تو پایا گیا، تاہم عدالت انہیں سزا دینے کی جرأت نہیں کرسکی ۔ اب چونکہ ان کو نہ جیل ہوگی اور جرمانہ لگے گا اس لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدربن کر وائٹ ہاؤس جانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی ۔ وطن عزیز میں مخالف جماعت کے سیاستدانوں پر عوامی مسائل اٹھانے یا حقوق انسانی کی خاطر لڑنے کی وجہ سے مقدمات جڑ دئیے جاتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال عتیق الرحمٰن برق ہیں لیکن ٹرمپ نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا بلکہ ان کے خلاف خالص اخلاقی اور سیاسی قضیہ درج ہے۔ ٹرمپ پر فحش فلموں کی اداکارہ سٹورمی ڈینیئلز کو خاموش رہنے کے لیے رقم کی ادائیگی سے متعلق کیس میں 34 سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے۔ تقریباً دو ماہ تک یہ مقدمہ چلا اور الزامات ثابت بھی ہوگئے مگر پھر سب ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا ۔
مقدمے کے جج جسٹس جوان ایم مرچن نے پچھلے ہفتے یہ کہہ کر نو منتخب رپبلکن صدر کو اطمینان دلا دیا تھا کہ وہ انہیں جیل بھیجنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ اس وقت سے غیر مشروط رہائی کا قیاس لگایا جارہاتھا ۔ اس کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ سماعت کو تاجپوشی تک ٹالنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے ایک دن قبل امریکی سپریم کورٹ میں سزا کے اعلان کو روکنے کی استدعا کی جسے آخری لمحے میں مسترد کر دیا گیا۔ ٹرمپ کو یہ نہیں کے برابر سزا ان کی موجودگی میں سنائی گئی یعنی وہ بہ نفسِ نفیس حاضر تھے ۔مین ہٹن کی ریاستی عدالت کے جج اگر جمہوری جبر کا شکار نہ ہوتے تو نو منتخب صدر کو چار سال قید کی سزا سنا سکتے تھے مگر انہوں نے ٹرمپ کے دامن پر مجرم ہونے کا بٹہّ لگا نےپر اکتفاء کیا۔ اس لیےامریکی تاریخ میں کسی صدر کو پہلی مرتبہ مجرم ہونے کے باوجود صدارتی عہدے پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل ہو گا۔
مذکورہ فیصلے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اس مجرمانہ مقدمہ اور سزا کو ’بہت خوفناک تجربہ‘ بتاتے ہوئے اصرار کیا کہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا ۔ اب آگے وہ اس کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اپنے من پسند ججوں کے ذریعہ اپنے ماتھے سے یہ کلنک مٹانے کی کوشش کریں گے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ جمہوریت کی دیوی ان پر مہربان ہوکرانہیں کلین چِٹ سے نواز دےگی اورا نکار کردے تب بھی ان کے صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ امریکہ کی اخلاق باختہ جمہوریت دوسری شادی کی اجازت نہیں دیتی مگر بلا نکاح جنسی تعلقات پر کوئی پابندی نہیں لگاتی۔ یہی وجہ ہے کہ فحش فلموں کی اداکارہ ڈینیئلز کے مطابق 2006 کو جب گولف کے ایک ٹورنامنٹ میں ٹرمپ سے ملاقات ہوئی تو ان لوگوں نے جنسی تعلقات قائم کرلیے ۔یہ بےوفائی اس زمانے میں کی گئی جب ٹرمپ کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ نے بیٹے بیرن کو جنم دیا تھا۔ دوسال تک یہ تعلقات قائم رہے اور اس کا انکشاف ڈینیئلز نے ایک انٹرویو میں کردیا مگر وہ عوام کی توجہ کا مرکز نہیں بنا۔
2016 کی انتخابی مہم کےدوران ٹرمپ کے مخالفین نے ان کے سٹورمی ڈینیئلز کے ساتھ تعلقات کو اچھال کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اسے رفع دفع کرنے کی خاطر ٹرمپ نے اپنے سابق دلال مائیکل کوہن کے ذریعہ 28 اکتوبر، 2016 کو ٹرمپ اور کلفرڈ کے درمیان معاہدہ کروایا۔ ٹرمپ کے اٹارنی مائیکل کوہن نے تو اس معاہدے پر دستخط کر دیئے لیکن ٹرمپ نے نہیں کیے۔اس کے مسودےمیں نام تبدیل کر کے ٹرمپ کو ڈیوڈ ڈینیسن اور کلفرڈ کو پیگی پیٹرسن کہا گیا تھا تاہم ایک ضمنی خط میں دونوں کی شناخت ظاہر کی گئی ۔ اس کے تحت ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کی خفیہ ادائیگی کے عوض سٹورمی ڈینیئلز کو خاموش کیا گیا ۔ عدالت کے اندر کوہن بذاتِ خود اس کا اعتراف کرچکے ہیں ۔ گذشتہ سال مئی میں جب ٹرمپ کو صدارتی امیدوار نامزد نہیں کیا گیا تھا اس وقت جیوری نے اداکارہ سٹورمی ڈینیئلز کو خاموش کروانے کے لیے ادا کی گئی رقم کو چھپانے کی غرض سے جعلی دستاویزات تیار کرنے کے تمام 34 الزامات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مجرم قرار دے دیا گیا۔
امریکہ کی تاریخ میں ٹرمپ پہلے سابق امریکی صدر تھے جن پر فوجداری مقدمہ چلا اوروہ مجرم بھی قرار پائے۔ اس کے باوجود دنیا کی عظیم ترین جمہوریت میں انہیں نہ صرف صدارت کا امیدوار بنایاگیا بلکہ زبردست کامیابی سے بھی ہمکنار گیا اس سے امریکی عوام کی اخلاقی سطح کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ موصوف نے اپنی کامیابی سے وہ مفروضہ بھی غلط ثابت کردیا کہ جمہورکو اگر موقع دیا جائے وہ اپنے میں سے بہترین فرد کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور تھما دیتے ہیں ۔ امریکہ فی الحال شدید داخلی و خارجی مسائل سے دوچار ہے ۔ ملک کے اندر مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ ان کےلیے اپنے معیار زندگی کو قائم رکھنا دشوار ہوگیا ہے۔ بیروزگاری کا دور دورہ ہے کیونکہ بیشترصنعتیں بیرون ملک منتقل ہوگئی ہیں ۔ اندرون ملک بھی مختلف اداروں میں اہم عہدوں پر باہر سے آنے والے باشندے فائز ہوگئے ہیں ۔ اسی لیے سرحدوں کی سخت نگرانی کرکے اندر آنے والوں کو روکا جارہا ہے ۔ بدقسمتی سے ان میں بڑی تعداد ہندوستانیوں کی ہے جن کو سارے مصائب کے باوجود امریکہ وطن عزیز سے بہتر دکھائی دیتا ہے۔
امریکہ میں تشدد عام ہے پچھلے سال ملک بھر میں چار سو سے زیادہ مرتبہ عوامی سطح پر گولی باری ہوئی اکیلے شکاگو شہر میں پانچ سے زیادہ لوگ اس کا شکار ہوئے ۔ عوام میں منشیات کا چلن بڑھ رہا ہے اور اخلاقی بے راہ روی شباب پر ہے ۔بین الاقوامی سطح پر امریکہ کا قرض آسمان کو چھو رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ قرض حریف اول چین کا ہے ۔ چین عالمی سطح پر امریکہ کی برتری کو چیلنج کرنے کے لیے بڑی حکمت کے ساتھ اپنا جال پھیلا رہا ہے۔ اس نے مخملی سڑک کے ذریعہ وسط ایشیا اور مشرقی یوروپ کو جوڑنے کا جو منصوبہ بنایا وہ سبھی کے لیے معاشی طور پر فائدہ مند ہے۔ امریکہ و یوروپ کے برعکس چین لوگوں کو توڑ کر ان کا استحصال کرنے کے بجائے انہیں جوڑ کر خوشحال بنانے کی حکمت عملی پر کاربند ہے۔ امریکہ کی سیاسی برتری کے خلاف چین نے اقتصادی بنیادوں کا متبادل کھڑا کردیا ۔ دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک اس میں شمولیت کے خواہشمند ہیں جبکہ ان کی دلچسپی اقوام متحدہ میں کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ امریکہ نے اپنے ویٹو کے ذریعہ اس کو بے اثر کر دیا ہے ۔ فلسطین کے مسئلہ پروہ دنیا سے الگ تھلگ ہوچکا ہے۔ یوروپ کے حلیف بھی اس کے ساتھ کھڑے رہنےمیں عار محسوس کررہے ہیں ۔
اس سنگین صورتحال میں امریکہ کو سنبھالنے کے لیے جو سب سے نااہل فرد ہوسکتا ہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہے مگر امریکی جمہوریت نے اسی کے سر پر تاج رکھ دیا ۔ اس طرح اقبال کے مرد فرنگی بات درست ہوگئی کہ منتخب کرتے وقت ٹرمپ کے حامیوں کو گنا گیا مگر افسوس کے سزا دینے کی باری آئی تو ان کو تول کر معاف کردیا گیا۔ جمہوریت کی بابت بڑے زور و شور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کا مطلب صرف ووٹ ڈالنا اور نمائندے منتخب کرنا نہیں بلکہ عوام کے مسائل حل کرنا، اداروں کی شفاف پالیسی کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ آئین کے مطابق انسانی حقوق کی پاسداری بھی اہم ذمہ داری ہے لیکن کیا عدلیہ کی توہین کرنے والے مجرم سربراہ سے یہ توقع درست ہے جو ججوں پر جانبداری اور سیاسی انتقام کا الزام لگا ئے؟اس سوال کا جواب بچہ بچہ جانتا ہے ۔ ایسے میں امریکی عوام کے لیے اجے سہاب کی یہ دعا زبان پر آتی ہے ؎
جمہوریت کی لاش پہ طاقت ہے خندہ زن اس برہنہ نظام میں ہر آدمی کی خیر
Comments are closed.