تم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے۔۔۔۔

عارف شجر
حیدرآباد (تلنگانہ)
8790193834
…………………..
آہ !خورشید پرویز صدیقی ہمارے بیچ نہیں رہے ۔ میرا ذہن اب بھی تسلیم نہیں کر رہا ہے کہ خورشید پرویز صدیقی جیسی شخصیت اور بے باک صحافی اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔میںروز مرہ کی طرح جب آفس کے لئے گھر سے نکلا تو مجھے ہزاریباغ سے فون آیا کہ فاروقی تنظیم کے بے باک صحافی خورشید پرویز صدیقی مالک حقیقی سے جا ملے انہوں نے رانچی کے انجمن اسپتال میں آخری سانس لی۔ میں یہ بری خبر سنتے ہی تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ کو سنبھال نہیں پایا اور ایک جگہ بیٹھ گیا اور خورشید پرویز صدیقی کا چہرہ میری نظروں کے سامنے گھومنے لگا اور میں یقین نہیں کر پا رہا تھا کہ یہ سچ ہے کیوں کہ ابھی ایک ماہ پہلے ہی تو ان سے بات ہوئی تھی انہوں نے ہماری خیریت پوچھی اپنی طبیعت کے بارے میں بتائی اور کہا کہ تم حیدرآباد سے جھارکھنڈ کب آرہے ہو میں نے ان سے بس اتنا ہی کہا بہت جلد، مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ خورشید پرویز صدیقی شایدمجھ سے آخری بار ملنے مجھے دیکھنے اور کچھ کہنے کے لئے بلا رہے تھے۔ میں نے خورشید پرویز صدیقی کی رحلت کے تعلق سے روزنامہ فاروقی تنظیم کے مینجر ابو بکر فاروقی عرف حافظ صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے فون پر ساری تفصیلات بتائی۔
مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ خورشید پرویز صدیقی اپنے اندر علم کا سمندر رکھتے تھے ،آبروئے صحافت تھے اور اردوجرنلزم کے پاسدار تھے ایک عظیم شخصیت تھے ایک مخلص اور بے باک صحافی تو تھے ہی وہ ایک خوددار شخصیت کے بھی مالک تھے۔ میری ان سے دیرینہ تعلقات تھے۔جب وہ پٹنہ سے جھارکھنڈ تشریف لائے تھے اس وقت میں فارقی تنظیم میں ایک رپورٹر کی حیثیت سے ہزاری باغ سے خبریں بھیجا کرتا تھا۔ جب میں رانچی آفس کے کام سے جاتا تو ان سے گھنٹوں باتیں ہوتی تھیں اس وقت سے تعلقات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا اور اتنا گہرا ہو گیا کہ جب میں 2013 میںحیدرآباد ہیڈ آفس ای ٹی وی نیوز چینل میں جوائن ہوا تو وہ ہمیشہ فون کرکے میری خیریت پوچھتے رہے میں بھی فون کرکے انکی خیریت اور جھارکھنڈ خاص کرکے رانچی کی ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کے تعلق سے ان سے پوچھتا تھا اور جب بھی جھارکھنڈ اپنے گھر آنا ہوا تو رانچی جاکر انکے گھر پٹھوریہ ملنے کے لئے چلا جاتا یا پھر جھارکھنڈ کے معروف شاعر سہیل سعید کے ٹنٹ ہائوس دکان کے باہر ملاقات ہو جاتی وہیں کرسی پہ بیٹھ کر گھنٹوں علم و ادب اور جھارکھنڈ کی اردو صحافت پر باتیں ہوتی جہاں برصغیر کے شاعر مرحوم صدیق مجیبی، مسجد جعفریہ کے اما م و خطیب مولانا تہذیب الحسن، ڈاکٹر سرور ساجد ، سہیل سعیدکے علاوہ کئی اہم شخصیات بھی موجود رہتے تھے۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ وہ جسمانی طور سے لاغر ضرور ہو چکے تھے لیکن ذہنی اعتبار سے وہ کافی مضبوط انسان تھے۔ انکے تعلق سے کافی ساری باتیں ہیں انکے صحافتی خدمات پر اگر کچھ لکھنا چاہوں تو اخبارات کے صفحات کم پڑ جائیں گے۔ المختصر یہ کہ علم کا سمندر ،آبروئے صحافت اور جرنلزم کا پاسدار ایک مخلص انسان اردو صحافت کا ایک عظیم صحافی خورشید پرویز صدیقی ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے اور جاتے جاتے یہ درس دے گئے کہ صحافت ایمانداری اور بے باکی سے کی جا سکتی ہے خواہ اردو صحافت کے لئے یہ راہ اور یہ کام مشکل ہی کیوں نہ ہو۔ خورشید پرویز صدیقی نے ہمیشہ اردو صحافت کی آبرو رکھی اسے کبھی ذلیل نہیں ہونے دیا اسے زندہ رکھتے ہوئے صفحہ قرطاس پر بے باکی کے ساتھ اداریہ لکھتے رہے خورشید پرویز صدیقی نے کبھی بھی اپنی صحافت اور قلم سے سمجھوتہ نہیں کیا جب وہ روزنامہ سنگم پٹنہ میں تھے تو ااس وقت بے باکی سے لکھا کرتے تھے اور جب وہ ریاست جھارکھنڈ سے شائع ہونے والا روزنامہ فاروقی تنظیم میں اداریہ لکھتے تھے تو بھی بڑے ہی دلیری اور بے باکی سے لکھا کرتے تھے چاہے وہ سیاسی ہو علمی ہو یا پھر دینی ہو حالانکہ ان کے اس بے باک صحافت سے کچھ لوگ ناراض اور نالاںضرور تھے لیکن انکے خلاف تحریری طور پر کسی نے لکھنے کی ہمت نہیں کی کیوں کہ ان میں یہ خوبی تھی کہ جب وہ کسی موضوع پر لکھا کرتے تھے تو پورے ثبوت اور دلیل کے ساتھ لکھا کرتے تھے ۔ جس سے دشمن بھی ہاتھ مل کر رہ جاتے تھے ویسے بھی صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جس سے ہر کسی کو خوش نہیں رکھا جا سکتا۔ بہر کیف خورشید پرویز صدیقی کی ایماندارانہ صحافتی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ خورشید صاحب نے اپنی صحافت کا کبھی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا انکی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے کسی کے سامنے اپنی مجبوریاں کبھی نہیں کہیں، انکا تعلق ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کے ساتھ خوشگوار تھا یعنی خورشید پرویز صدیقی میں انسانیت بھری پڑی تھی۔
مجھے یہ بات بھی کہہ لینے دیجئے کہ روزنامہ فاروقی تنطیم کے مالک مرحوم علی ظفر فاروقی نے بھی انکے بے باک قلم کو لکھنے کی چھوٹ دے رکھی تھی مرحوم نے کبھی بھی خورشید پرویز صدیقی کے قلم کی روانی کو روکا نہیں مرحوم ظفر فاروقی کو بھی اس بات کا علم تھا کہ وہ جو بھی لکھتے ہیں پورے جواز کے ساتھ لکھتے ہیں یہی وجہ تھی کہ فاروقی تنظیم کا اداریہ کافی مقبول ہوا اور اتنا مقبول ہوا کہ لوگوں نے انکے اداریہ کو کتابی شکل دے کر شائع بھی کرائی۔ اداریہ مقبول ہونے کے بعد خورشید پرویز صدیقی نے’’ شذرات‘‘ عنوان کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا جو پٹنہ سبزی باغ سے شروع ہوکر رانچی اور اطراف کے شہروں، قصبوں تاریخی عمارتوں اور مقامی شخصیات پر انکا قلم چلتا رہا جسے کافی لوگوں نے پسند کیا۔ اپنی علالت باوجود بھی شذرات کا کالم مستقل لکھتے رہے ، اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شذرات کا کالم ایسا تھا کہ قارائین کو اس کالم کا بے صبری سے انتظار رہتا تھا قارائین کو عام فہم الفاظ میں بہت ساری جانکاری میسر ہو جاتی تھی ۔قارائین نے اس ’’شذارات‘‘ کالم کی خوب پذیرائی کی اور اسکی روز بروز مقبولیت بڑھتی رہی۔
بہر حال مرحوم خورشید پرویز صدیقی نے جو صحافت کی بے لوث خدمت کی اسے کبھی بھلایا نہیں جا سکتا کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اور اسے قطئی نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ جب بھی صحافت پر کچھ لکھا جائے گا خورشید پرویز صدیقی کا نام لئے بغیر کتاب ، کالم ، مضمون یا ادایہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ مجھے یہ بات بھی کہہ لینے دیجئے کہ جھارکھنڈ اردو کے ایک عظیم صحافی ا ایک چھی شخصیت سے محروم ہوگیا۔ شاید ہی جھارکھنڈ میں اس خلا کو کوئی پر کر سکے۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خورشید پرویز صدیقی جب بھی کسی موضوع پر لکھتے تھے تو قارائین انکی تحریر مکمل پڑھ کر ہی چھوڑتے تھے بلکہ انکی تحریری مزیدتشنگی چھوڑ جاتی تھی اور جب وہ بولتے تھے تو مجمع خاموشی سے بغور سنتا تھا۔۔
بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ
تمہیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
ختم شد
Comments are closed.