Baseerat Online News Portal

ایلینز : سائنسی مفروضہ یا حقیقت؟

 

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

 

دنیا میں نت نئی سائنسی تحقیقات اور نظریات کی روشنی میں ایلینز (غیر زمینی مخلوقات) کا تصور ایک عرصے سے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس تصور کو لے کر لوگوں کے اذہان میں متعدد قیاس آرائیاں، افسانے اور توہمات جنم لے چکے ہیں، کبھی ایلینز کو مافوق الفطرت مخلوقات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور کبھی انہیں زمینی مخلوقات پر حملہ آور دکھایا جاتا ہے اور آج کل ویڈیو ایڈیٹنگ اور اے آئی (AI) ٹکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اس طرح کی ویڈیوز بڑے پیمانے پر وائرل کی جاتی ہیں جن میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فلاں علاقے میں ایلینز زمین پر اتر آئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان ویڈیوز کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ محض فریب، دھوکہ اور کذب بیانی ہے، جو بہت برا عمل ہے۔

سائنسی تحقیقات میں یہ تصور تو پیش کیا جاتا ہے کہ کائنات میں کہیں اور زندگی موجود ہو سکتی ہے اور بعض سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ دوسرے سیاروں پر انسانوں کے مثل یا مختلف قسم کی مخلوقات ہو سکتی ہیں، تاہم اس نظریے کی ابھی تک کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے، بلکہ "ناسا” کا کہنا ہے کہ انہیں زمین یا اس سیارے سے باہر خلائی مخلوق کی موجودگی کے مضبوط شواہد نہیں ملے، اس لئے تاحال ایلینز کے حوالے سے مختلف قسم کے دعوے محض قیاس آرائیاں ہیں۔

اس سلسلہ میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ کیا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس طرح کی کسی فضائی مخلوق کا وجود ممکن بھی ہے یا نہیں اور اس سلسلہ میں اسلامی تصور کیا ہے؟ سورۃ الشورى کی ایک آیت میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِنْ دَابَّةٍ” (الشوریٰ: 29)

ترجمہ: ” اور اللہ کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کا پیدا کرنا اور ان جانداروں کا پیدا کرنا بھی ہے ، جن کو اس نے آسمان و زمین میں پھیلا دیا ہے۔”

اس آیت میں اللہ کی قدرت کی وسعت اور تخلیق کی تنوع کا ذکر ہے، اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں اپنی مخلوقات کو پھیلا رکھا ہے، لیکن یہ مخلوقات کیسی ہیں، کہاں ہیں، اور ان کی نوعیت کیا ہے؟ اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی، بعض مفسرین کی یہ رائے ہے کہ شاید آسمانوں میں بھی کوئی جاندار مخلوق ہو سکتی ہے، لیکن یہ قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ وہ انسانوں کی مانند ہے یا نہیں؛ کیونکہ ان کی شکل وشباہت اور نوع کیا ہے اس کا بھی کوئی حتمی ذکر نہیں ہے، بعض مفسرین کے مطابق آیت قرآنی میں مذکور "دابة” کا لفظ آسمانوں اور زمین دونوں کی جاندار مخلوقات کو شامل ہے، علامہ ابن کثیر، طبری اور رازی رحمہم اللہ جیسے مفسرین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آسمانوں میں بھی مخلوقات ہو سکتی ہیں، لیکن ان مخلوقات کی نوعیت واضح طور پر بیان نہیں کی گئی، نیز سورہ فاتحہ اور دیگر آیات میں لفظ "العالمين” کو جمع استعمال کرتے ہوئے متعدد عالم کے وجود کا اجمالی علم تو انسانوں کو دیا گیا ہے، لیکن ان کی تفصیلات اللہ ہی کے علم میں ہیں، چناں چہ مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف عالَم بنائے ہیں اور ہر عالم میں مختلف مخلوقات ہو سکتی ہیں، جن میں فرشتے، جنات، اور دیگر جاندار شامل ہیں، لیکن ان کے انسانوں کے مثل ہونے کی کوئی صراحت مذکور نہیں ہے، ہاں اگر مستقبل میں ایسی کسی مخلوق کی یافت ہوتی ہے تو وہ اللہ کی قدرت کا مظہر ہوگی اور اس سے اسلامی افکار وتعليمات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا؛ کیونکہ کسی چیز کا کسی مصلحت سے ذکر نہ کرنا اس کی نفی وانکار کی دلیل نہیں بن سکتی ہے، جبکہ قرآنی آیت کے الفاظ کے عموم میں اس کی گنجائش بھی ہے، اور یہ نا قابل انکار حقیقت بھی ہے کہ الہی مصلحت کے تحت تمام تر انکشافات کے باجود کائنات کے بہت سے حقائق انسانی نظروں سے اوجھل ہیں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو نہیں دیا ہے اور یہ چیزیں غیب کے زمرے میں آتی ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا”(بنی اسرائیل: 85)

ترجمہ: "اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔”

لہٰذا اگر کسی اور مخلوق کا وجود ہے تو اس کا علم اللہ کے پاس ہے، اور ہمیں غیب کے معاملات میں کسی قیاس آرائی یا غیر ضروری توہمات کا شکار نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ایسے امور میں انکار واثبات کے بجائے "واللہ اعلم” کہتے ہوئے خاموشی اختیار کرنی چاہئے اور جس چیز کا یقینی ثبوت اور حتمی علم نہ ہو اسے محض قیاسات وامکانات کی بنیاد پر حقیقت بتانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔

ان تفصیلات کی روشنی میں ایلینز کے بارے میں پھیلائی گئی باتیں تاحال توہمات کے علاوہ کچھ نہیں ہیں، اسی طرح یہ خیال کہ ایلینز کبھی زمین پر حملہ آور ہو کر انسانیت کو ختم کر دیں گے، اسلامی نقطہ نظر سے بالکل غیر منطقی خیال ہے، قرآن وحدیث میں کسی ایسی فضائی مخلوق اور اس کی مافوق الفطرت قوت وتصرف کوئی ذکر نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ دنیا کا اختتام بروز قیامت "نفخ صور” سے ہوگا۔

"وَنُفِخَ فِى الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِى السَّمَاوَاتِ وَمَن فِى الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ” (الزمر: 68)

ترجمہ: "اور صور میں پھونکا جائے گا، تو جو لوگ آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، وہ سب مر جائیں گے، سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے۔ پھر اس میں دوبارہ پھونکا جائے گا، تو وہ سب اُٹھ کر دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔”

اسی طرح بعض لوگ ایلینز کے اترنے کو قیامت کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ قیامت کی علامت پوری ہوگئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیث میں قیامت کی علامات کو بہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے، یاجوج ماجوج اور دجال کا خروج اور ان کی تفصیلات بھی احادیث میں آئی ہیں، لیکن قیامت سے پہلے دنیا میں اس طرح کی کسی فضائی مخلوق کی آمد کا کوئی تذکرہ کسی بھی روایت میں نہیں ہے۔

بہر حال ایلینز سے متعلق پھیلائی جانے والی باتیں محض سائنسی قیاسات اور توہمات ہیں اور اس طرح کی افسانوی باتوں پر یقین رکھنے کے بجائے ہمیں قرآن اور حدیث کی تعلیمات پر مضبوطی سے قائم رہنا چاہئے اور ان جیسے امور کو اللہ کے علم پر چھوڑتے ہوئے احتیاط اور تدبر سے کام لینا چاہئے اور بغیر کسی مضبوط دلیل کے غیر حقیقی باتوں کو حقیقت سمجھنے اور ان کو حقیقت کے طور پر پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہئے۔

Comments are closed.