دل: آئینہ حقیقت، چراغِ ہدایت، اور سرابِ خواہشات

 

مفتی محمد عارف بالله القاسمی

 

"دِل” وہ نادیدہ گوہر ہے جس میں زندگی کی حقیقتیں چھپی ہیں اور وہ اسرار پوشیدہ ہیں جنہیں عقل کی آنکھ نہ دیکھ سکتی ہے اور نہ ہی زبانِ فصیح بیان کر سکتی ہے۔ دل، جو کہ شبستانِ وجود کا چراغ ہے، کبھی نغمۂ محبت سے سرشار ہوتا ہے تو کبھی نالۂ نفس کی بندشوں میں گرفتار ہو جاتا ہے، اگرچہ دل کے لطیف تاروں میں خیر و شر کا سرگم برابر بجتا ہے، مگر شریعت کی بزم میں اس کی زیست کی طنابیں ہمیشہ کھنچی اور بندھی رہتی ہیں۔

 

دل وہ بحرِ بیکراں ہے جس کی گہرائیوں میں نورِ عرفان کے موتی بھی ہیں اور خواہشاتِ نفس کے خار بھی۔ دل اگر حق و صداقت کی روشنی سے معمور ہو جائے، تو یہ آئینۂ بے غبار بن جاتا ہے، جس میں رب کی نشانیوں کا پرتو دکھائی دیتا ہے۔ گویا دل وہ "گلشنِ نایاب” ہے، جس میں عشقِ حقیقی کے گل کھلتے ہیں، اور محبتِ الٰہی کے نخل تناور ہوتے ہیں، لیکن یہ "گلشن” اسی وقت مہک پاتا ہے جب اس پر شریعت کی ہوائیں چلتی ہیں اور تقویٰ کا نور اس پر سایہ فگن ہوتا ہے۔

قرآنِ مجید میں دل کو "قلبِ سلیم” کا خطاب دیا گیا ہے۔ یعنی وہ دل جو ہر فریب، ہر بدکاری اور ہر نفسانی خواہش سے پاک ہو، وہی دل کامیاب ہے: "يوم لا ينفع مال ولا بنون، إلا من أتى الله بقلب سليم” (الشعراء: 88-89)

یہ دل وہی ہے جس پر شریعت کی چادر تنی ہو، جو دنیوی آلائشوں سے دور ہو، اور جس کی حرارت ایمان کی شمع سے حاصل ہوتی ہو۔

 

دل کی رہنمائی ایک "سرابِ طلسمی” بھی ہے، اور "چراغِ راہ” بھی۔ اگر دل کو بے لگام چھوڑا جائے اور اس کے ہر وسوسے، ہر خواہش، اور ہر جھکاؤ کی پیروی کی جائے، تو یہ وہ سراب ہے جو انسان کو صحرا میں بھٹکا کر مایوسی کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ دل کی حالت، گو کہ نرم و نازک ہے، مگر اگر وہ خواہشات کی دھند میں غرق ہو جائے، تو "طلسم ہوشربا” کی مانند دھوکہ دے سکتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "أفرأيت من اتخذ إلهه هواه وأضله الله على علم”

"کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا؟”(الجاثیہ: 23)

یہ وہی دل ہے جو سرکشی کی راہ پر گامزن ہو، نفس کی دہکتی ہوئی آگ میں جھلس جائے، اور دنیا کی فریبناک روشنیوں میں اپنی حقیقت کھو بیٹھے۔ یہی دل جب خواہشات کا تابع ہو، تو یہ "نافرمانِ شریعت” اور شیطان کا دستِ راست بن جاتا ہے، بلکہ ایک اس سے بڑھ کر اپنے اطاعت گزار کا "معبود” تک بن جاتا ہے۔

 

دل کی تعمیر، دل کی اصلاح، اور دل کی تربیت ایک عظیم مقصد ہے، دل کو شریعت کی سانچے میں ڈھالنا ایسے ہے جیسے ایک خام ہیرے کو تراش کر اس سے جواہرِ تاباں نکالنا، دل کو دل بنانے کے لیے تقویٰ کا آبِ زر چاہیے، اور ایمان کی روشنی چاہیے، وہ دل جو اللہ کی محبت، خوفِ خدا اور اتباعِ شریعت سے منور ہو، وہی "قلبِ منیب” کہلاتا ہے، یہی وہ دل ہے جسے قرآن کریم میں "قلبِ سلیم” کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

دل کا حق تبھی ادا ہوتا ہے جب وہ نفس کی خواہشات کو مسل کر، اپنے آپ کو خالقِ حقیقی کی اطاعت میں جھکا دے، یہی وہ دل ہے جس کی محبت اور عشق حقیقی ہوتے ہیں، اور جو فانی دنیا کی محبتوں سے بے نیاز ہوتا ہے۔

 

دل کی رہنمائی اس وقت تک معتبر نہیں جب تک اس پر شریعت کا سایہ نہ ہو۔ دل کو ہر موڑ پر، ہر پیچ پر، شریعت کے نور سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ غلط راہوں پر نہ چلے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "لا يؤمن أحدكم حتى يكون هواه تبعًا لما جئت به”

"تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشات اس کے تابع نہ ہو جائیں جو میں لے کر آیا ہوں۔”(شرح السنة)

گویا دل اس وقت تک رہنمائی کا ذریعہ نہیں بن سکتا جب تک وہ قرآن و سنت کے تابع نہ ہو جائے۔ اور یہ مقام نہ ہر دل کو حاصل ہے اور نہ ہی اتنا آسان ہے، بشیر بدر نے بہت خوب کہا ہے:

"عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں”

 

خلاصہ تحریر یہی ہے کہ دل کی حقیقت و عظمت اس وقت عیاں ہوتی ہے جب وہ شرعی احکام کا پابند ہو، اگرچہ دل کی لطافت اور فطری رحجان اسے نیکی کی طرف مائل کرتا ہے، لیکن اس کی رہنمائی بغیر شریعت کے فریب بن سکتی ہے۔ دل کو دل بنانا، یعنی اسے نورِ ایمان اور محبتِ الٰہی سے مزین کرنا، ایک ایسی راہ ہے جس پر چل کر انسان دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹ سکتا ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دل کو دل بنانا، یہ وہ راز ہے جو اہلِ دل ہی جانتے ہیں، اور "اہل دل” کہتے بھی ہیں کہ دل اگر حق کے نور سے خالی ہو تو یہ راہزن سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے، تاریک راہ پر دل کہ صحیح رہنری کے لئے شریعت کا نور ضروری ہے، ورنہ یہ سراب ہے، فریب ہے اور اندھیروں میں بھٹکانے والا مغرور و گمراہ ساتھی ہے۔

Comments are closed.