جمیل صدیقی : سیرت رسول ﷺ کا مثالی پیامبر

دانش ریاض، معیشت،ممبئی
جن بزرگوں سے میں نے اکتساب فیض کیا ان میں ایک نام داعی و مصلح مولانا جمیل صدیقی کا ہے۔ میتھ میٹکس کے استاد آخر دعوت و اصلاح سے کیسے وابستہ ہوگئے اس پر گفتگو تو شاید بہت سارے بند دروازے کھول دے اس لئے بہتر ہے کہ اگر ان کی شخصیت کو جانناہےتوان کی صحبت اختیارکی جائےجو مستفدین پر دور رس اثرات مرتب کرتی ہے۔
اتر پردیش کا قدیم ضلع بستی جو موجودہ سدھارتھ نگر کہلاتا ہے وہاں ایک چھوٹے سے گائوں ’’محمد نگر‘‘میں، محمد مکی صدیقی کے گھر، 15اپریل 1962کو آنکھیں کھولنے والے اس پیر باصفا نے لکھنو میں سکونت اختیار کررکھی ہے۔دعوت و ارشاد کی محفل کا عالم یہ ہے کہ جو شخص ایک بار ان کی محفل میں شریک ہوجاتا ہے تو اس کی خواہش رہتی ہے کہ وہ بار بار ان کی بوریا نشینی کا حصہ بنے۔ پاک طینت و پاکباز جمیل صدیقی زمانہ طالب علمی سے ہی یہ سودا سمائے بیٹھے تھے کہ وہ درس و اصلاح کی محفل سجائیں گے اور اس کار نبوت کو انجام دیں گے جس کی تلقین سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں سے کی ہے۔حالیہ برسوں میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر اگر کسی شخصیت نے کام کیا ہے تو ان میں نمایاں نام ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم(پیرس)اور پروفیسر یسین مظہر صدیقی مرحوم کا ہے لیکن مختلف گوشوں کو عملی طور پر زندگی میں داخل کرنے کے حوالے سے اگر کسی شخصیت پر نظر پڑتی ہے تو ان میں ایک نام مولانا جمیل صدیقی کا بھی ہے۔
آٹھ بچوں کی پرورش و پرداخت ان کے تعلیم و تعلم کا انتظام ،کرائے کا مکان ،مہمانوں کی آمد اورپھر ان کی ضیافت ،اگر دنیا پرست دیکھے تو اسے سمجھ ہی نہ آئے کہ آخر ایک بوریا نشیں اس مہنگائی کے دور میں کیسے اپنی سفید پوشی قائم رکھے ہوئے ہےجبکہ اس نے وہ راستے بھی اختیار نہیں کئے جن راستوں کو سہارا بناکر لوگ باگ اپنی خانقاہیں سجاتے ہیں۔ لیکن جو ایک بار ان کے دربار میں حاضری دے لے تووہ بار بار ان کی کٹیا کا درشن کرناکار ثواب سمجھتا ہے۔ صدق و صفا کے پیکر جمیل صدیقی کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نئی نسل کو سیرت نبوی ﷺ کا حقیقی عاشق بنایا ہے۔اپنی ذات کو بھی سیرت کا نمونہ بنانے کی کوشش کی ہے اور اپنے متعلقین کوسیرت کے سانچے میں ڈھالنے کا عزم لئے قریہ قریہ دوڑ لگایا ہے ۔دراصل ان کے اندر دعوت و ارشاد کا جذبہ وراثتاً منتقل ہوا ہے ۔جن دنوں تحریک شہیدین کا زور تھا اور سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید علاقے کا علاقہ فتح کررہے تھے ان دنوں بستی میں ان کے دوست مولانا جعفر علی نقوی رحمۃ اللہ علیہ مامورتھے جو علاقے کا دورہ کیا کرتے تھے اور دعوت و ارشاد کی محفل سجایا کرتے تھے مولانا جمیل صدیقی کے دادا جان سرتاج علی صدیقی مذکورہ تحریک سے متاثر تھے اور ان کی نشستوں میں بیٹھا کرتے تھے کہ اسی دوران انہوں نے مولانا سید عبد الطواب محدث ملتانی رحمہ اللہ سے تعلق استوار کیا اور ان سے بیعت ہوگئے۔ اس بیعت و دعوت نے گھر پر ایسا اثر کیا کہ والد محترم محمد مکی صدیقی بھی علماء صادقپور کے زیر اثر آگئے اور جمیل صدیقی صاحب کوادارہ دار القرآن (محمد نگر) میں داخل کروادیا ،یہ ایک ایسا مدرسہ تھا جسے1922میں رجسٹرڈ کرایا گیا تھا۔
جس طرح جمیل صدیقی کے والد محترم کامیاب ٹیچر تھے اسی طرح ان کے بڑے ابو محمد ذکی صدیقی اور چچا محمد تقی صدیقی بھی تعلیم و تعلم سے وابستہ تھے ۔کہتے ہیں کہ والد محترم کی تعلیمی خدمات کا حکومت اتر پردیش نے بھی اعتراف کیا تھا اور انعامات و اکرامات سے نوازنا چاہا تھا لیکن والد محترم نے شاید اسے قبول نہیں کیا۔
ایک ایسے دور میں جب دعوت و ارشاد اور تبلیغ و خطاب بھی اکتساب زر کا ذریعہ قرار پایا ہے خالصتاً اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لئے اپنی جان کو ہلکان کرنا،نوجوانوں کو راہ راست پر لانے کے لئے نماز فجر سے قبل بیدار ہوکر دیر رات گئے سرگرم رہنا اور بس یہ خواہش دل میں جاگزیں رکھنا کہ آج کا نوجوان اسلام کا حقیقی داعی بن جائےجمیل صدیقی جیسے بزرگوں کا ہی وطیرہ ہے۔نوجوان ڈاکٹروں کو خطاب کرتے ہوئے اپنی ایک تقریر میں جمیل صدیقی ایک برطانوی ڈاکٹر کے حوالے سےجس نے داڑھی کےقانون میں تبدیلی کروادی کہتے ہیں’’تاریخ بزدل اور منافقین نہیں بناتے بلکہ جو لوگ عزم و حوصلہ رکھتے ہیں وہی تاریخ رقم کرتے ہیں ،لیکن اس کے لئے جہاں صالح ہونا ضروری ہے وہیں صلاحیت سے بھرپور ہونا بھی انتہائی ضروری ہے‘‘۔ جمیل صدیقی نہ صرف دنیا بیزار ہیں بلکہ اپنے آپ کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ دنیا اور متاع دنیا کی اب ان کے نزدیک کوئی قدرو قیمت نہیں،فکر آخرت میں مگن ،نبوی پیغام کو حرز جاں بنائے اس راہ کے مسافرہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہےکہ
یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
ایک ایسے دور میں جبکہ افراد سازی عنقا ہوچکی ہے نوجوانوں کو باکردار بنانا،ان کے لئے فکر مند رہنا، ان کی بہتر طور پر رہنمائی کرنا اور پھر ان کے لئے دعا کرنا میں نے مولاناجمیل صدیقی میں ہی دیکھا ہے۔ان کے چاہنے والے کبھی کبھی سوشل میڈیا پر جب ان کی گفتگو شیئر کرجاتے ہیں تو وہ یہ سوال ضرور کرلیتے ہیں کہ آخر آپ ایسا کیوں کررہے ہیں؟ کارپوریٹ صحافت کا حصہ بننے اور اسمارٹ فون کا کثرت سے استعمال کرنے کے باوجود میری کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ میں مولانا جمیل صدیقی سے یہ کہہ سکوں کہ مجھے ’’آپ کی‘‘ یا’’ آپ کے ساتھ ایک تصویر‘‘ کھینچنی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب گذشتہ برس وہ ممبئی آئے اوران سے ملاقات کےلئے ہم دودوست گئے تو کچھ تحفہ بھی ساتھ لے گئے ،جمیل صاحب نے اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور بڑی بے اعتنائی سے کہا کہ ’’ملاقات کافی تھی ،یہ ساتھ میں تحفہ کیوں لے آئے ؟ اور پھر میں نے دیکھا کہ انہوں نے وہ تحفہ ان لوگوں کے حوالے کردیا جن کے وہ مہمان تھے۔دفعتاً مجھے وہ واقعہ یاد آگیا جب میں ایک خانقاہی پیر صاحب کی محفل میں ایک بڑے تاجر کو لے کر چلا گیاتھا ،نماز عصر سے نماز مغرب تک خانقاہی پیر صاحب صرف اس کوشش میں لگےرہے کہ وہ کسی طرح ’’جناب تاجر ‘‘کو قائل کرلےجائیں اور اپنی خانقاہ کے لئے کچھ نذرانہ وصول کرلیں۔
مولانا جمیل صدیقی صاحب کو جہاں اردوزبان و بیان پر قدرت حاصل ہے وہیں وہ فارسی پر بھی اچھا خاصا عبور رکھتے ہیں۔عربی سے انسیت کا عالم یہ ہے کہ نہ صرف تین بچے اور دو بچیاں حافظ قرآن ہیں بلکہ از خود بھی انہوں نے قرآن کو حرزجاں بنائے رکھا ہے۔ بچوں کے مشہور مصنف مائل خیر آبادی کے صاحبزادے قمر جواد کا واقعہ یاد کرتے ہوئے جمیل صدیقی کہتے ہیں ’’ایک روز ایک فون آیاتو میںنے دیکھا کہ انٹر نیشنل کال ہے توکال ریسیو کرلیا ،دوسری طرف سے آواز آئی جمیل بھائی میں قمر جواد ہوں مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کے پاس کھڑا ہوں ،آپ کہیں تو آقا ﷺ کی خدمت میں آپ کا سلام پیش کردوں، اتنا سننا تھا کہ میری آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور میں نے برجستہ کہا کہ ہاں ہاں ضرور ۔ اس کے بعد جب قمر سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں کہنے لگے دراصل ’’ سیرت اور حکمت سیرت ‘‘پرمیں آپ کی گفتگوسنتا رہاتھا اور وہیں عشق رسولﷺ کا جذبہ پیدا ہوا ۔جب میں روضہ رسول ﷺ پر پہنچا تو دفعتاً آپ کی یا د آئی اور میں نے آپ کو کال لگادی۔‘‘جمیل صدیقی پرجہاں خاندان کے اثرات تھے وہیں علی میاں رحمہ اللہ سے قربت و انسیت بھی دعوت و ارشاد پر گامزن رہنے میں حوصلہ عطا کرتی تھی۔ جمیل صدیقی جب درجہ ششم کے طالب علم تھے تب انہوں نے مولانا سید ابوالحسن علی ندویـؒ کو دیکھا تھااور تقریری مقابلے میں اول آنے پر علی میاں ؒکے ہاتھوں انعام قبول کیا تھا۔ اس کے بعد محبت کا عالم یہ رہا کہ جب لکھنوئو میں رہتے تو فجر بعد جب علی میاں ؒ کے پاس جاتے تو عارف باللہ مولانا علی میاں رحمہ اللہ جمیل صدیقی کو ناشتہ تک روکتے اور پھر ناشتہ کے بعد ہی رخصت ملتی ۔ مولانا جمیل صدیقی کہتے ہیں ’’میں نے علی میاں رحمہ اللہ سے بھر پور استفادہ کیاہے یہاں تک کہ ان کے دسترخوان پر بیٹھ کر کھائی ہوئی دہی جلیبی اب بھی بہت یاد آتی ہے‘‘۔بی ایس سی اور بی ایڈ کرنے والےجمیل صدیقی علی میاں ؒ کی نظر میں کمزور و ناتواںمقرر تھےجس کا خاص خیال رکھنے کے لئے انہوں نے ان کے والد محترم کو خاص ہدایت دی تھی۔اپنی عمر کے آخری دنوں میں علی میاں ؒ اس جمیل صدیقی پر دست شفقت رکھتے جو بچپن میں ہی ان کا گرویدہ ہوگیا تھا ۔
مولانا جمیل صدیقی نے اپنی گفتگو میں حکمت و دانائی کو خاص اہمیت دے رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مخاطب کو اس کی اپنی بساط کے مطابق تذکیر و تفہیم کراتے ہیں۔ وہ یہ کہنا نہیں بھولتے کہ
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
Comments are closed.