آزاد اور خودمختار فلسطین اب ناگزیر ہے

 

مشرف شمسی

 

مضمون جب لکھ رہا ہوں تو غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی پر رضامندی ہو گئی ہے ۔غزہ میں جنگ بندی کی پاسداری دونوں جانب سے ہوتی رہی تو پہلے مستقل جنگ بندی اور پھر ایک آزاد اور خودمختار فلسطین کے قیام کو اب کوئی نہیں روک سکتا ہے ۔

امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ نے فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں کہا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اسرائیل بہت طاقت ور ہے اور اس کے مقابلے فلسطین بہت کمزور ہے ۔لیکِن غزہ نے پندرہ مہینے کی جنگ میں بتا دیا کہ وہ چاروں جانب سے محصور ہونے کے باوجود دنیا کی سب سے طاقت ور فوج اُنہیں شکست نہیں دے پائی۔ایک دن پہلے ہی امریکہ کے موجودہ وزیر خارجہ بلنکن نے اپنی تقریر میں صاف صاف کہا کہ غزہ میں حماس کو شکست نہیں دئ جا سکتی ہے ۔اس سے پہلے 2023 کے دسمبر میں ہی فرانس کے صدر میکرون نے کہا تھا کہ غزہ میں حماس کو سات سال تک ہرایا نہیں جا سکتا ہے ۔کہنے کا مطلب صاف ہے کہ اب طاقت کا توازن یک طرفہ نہیں ہے یعنی فلسطین اپنے اوپر مسلّط صیہونی طاقتوں کے خلاف اُسی کی زبان میں جواب دینا جان گئے ہیں ۔پندرہ مہینے کی جنگ میں اسرائیل نے پوری دنیا میں اپنے بہت سے نزدیکی دوست ممالک کو کھویا ہے ۔دنیا عدل کی بنیاد پر اب فلسطینی کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست سے محروم رکھنا نہیں چاہتی ہے ۔جب تک آزاد اور خودمختار فلسطین کا قیام نہیں ہوتا ہے تب تک مشرقی وسطیٰ میں امن ممکن نہیں ہے ۔بلينکن بھی یہی کھ رہے ہیں کہ غزہ اور اسرائیل کے درمیان مستقل جنگ بندی کے بعد ایک آزاد اور خودمختار فلسطین کے لئے وقت متعین پر کام کرنا ہوگا۔ مستقل جنگ بندی ایک عارضی مرحلہ ہے اور حقیقی امن تبھی ممکن ہے جب تک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام نہیں ہو جاتا ہے ۔

خلیجی ریاستیں ،اردن اور مصر یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ فلسطین کی قیادت حماس کے ہاتھ میں جائے۔ساتھ ہی امریکہ بھی نہیں چاہتا ہے کہ فلسطین میں حکومت حماس کی ہو۔لیکِن فلسطین کے عوام کو یہ حق دیا ہی جائے گا کہ وہ اپنی حکومت کو منتخب کریں۔ایسے میں حماس جو ایک منظم تنظیم ہے اور فلسطین کے لوگوں میں مقبول بھی ہے اُسے نظر انداز کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔پھر حماس کی قیادت کی قربانیوں کو بھی فلسطینی عوام نے نزدیک سے دیکھا ہے ۔یحییٰ سنوار کس طرح تین دنوں سے بھوکے پیٹ فرنٹ پر جا کر اسرائیلی فوجیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔سنوار فلسطینیوں کے آج کی تاریخ میں سب سے بڑے ہیرو ہیں ۔اسماعیل ھنیھ اور ابو دیف خود بھی شہید ہوئے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لئے پورے خاندان کو قربان کر دیا۔فلسطینی اتھارٹی بنا عوامی حمایت کے کیسے حکمرانی کر سکتی ہے جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی اصلیت اب فلسطینی سمجھ چکے ہیں ۔اُن کی گرفت تو اب مغربی کنارے میں بھی تقریباً ختم ہو چکی ہے ۔محمود عباس کے بارے میں عام رائے ہے کہ وہ اسرائیل کا آدمی ہے۔ویسے بھی اب محمود عباس کا کام ختم ہو چکا ہے ۔اسرائیلی کو معلوم ہو چکا ہے کہ اگر اسرائیل میں امن و سکون سے رہنا ہے تو فلسطینی کو اُنکے جائز حقوق دینے ہی ہونگے۔کیونکہ اسرائیل کی خطے میں سپر پاور کی حثیت ختم ہو چکی ہے اور اب آگے کوئی جنگ کی حالت بنتی ہے تو اُنہیں امریکہ بھی بچا نہیں سکتا ہے ۔اسرائیل کی زمینی فوج کی کمزوری دنیا کے سامنے عیاں ہو چکی ہے ۔صرف ہوائی برتری اور مغربی ممالک کے انٹیلیجنس حمایت کی وجہ سے اسرائیل جنگ میں اب تک بنا رہا اور عام آدمی کو قتل کر اپنی برتری ثابت کرتا رہا ۔لیکِن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی افواج امریکہ اور مغربی یورپ کے گولہ بارود اور تکنیک کے باوجود محصور غزہ میں حماس کو پندرہ مہینے میں شکست نہیں دے سکا۔یہاں تک کہ شمالی غزہ کو حماس سے پاک کرنے کی حسرت اسرائیل کی پوری نہیں ہو سکی اور اسرائیل کو شمالی غزہ کی جنگ میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

جنگ بندی اہل غزہ کے لئے اچھی خبر ہے اور اب یہاں سے جو بھی ہوگا فلسطین کے لئے اچھا ہی ہوگا۔

میرا روڈ ،ممبئی

موبائیل 9322674787

Comments are closed.