اسلام ہمارا پسندیدہ مذھب کیوں؟ 

پہلی قسط

 

مولانا احمد حسین قاسمی

امام و خطیب مسجد دار ارقم شیواجی نگر گوونڈی ممبئی

 

حامداً ومصلیاً ومسلماً! أمّابعد! فأعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم، باسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم،،

⬇️إنّ الدین عند اللہ الإسلام، وما إختلف الذین أوتوا الکتاب إلاّمن بعدماجآئھم العلم بغیًا بینھم، و من یکفر بآيات اللہ فإنّ اللہ سریع الحساب،

⬇️ومن یبتغ غیرالإسلام دیناًفلن یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخٰسرین،

⬇️ألیوم أکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الإسلام دیناً،

===================

تمہیدی کلمات:

محترم قارئین کرام: اللہ تبارک وتعالی نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات اور اکرم الخلاق ہونے کا شرف بخشا، اور اپنے بے انتہا و بیش بہا فضل وانعام سے نوازا، حتی کہ اپنی ساری کائنات کو انسان کی خدمت میں لگا دیا، جیسا کہ ارشاد باری عز اسمہ ہے”و سخر لکم ما فی السموات وما فی الأرض جمیعا منہ، ان فی ذالک لأیٰت لقوم یتفکرون” جاثیہ پ 25 / ہم نے زمین و آسمان کی ساری مخلوقات کو تمہارے تابع کر دیا، اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، نیز اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات اور اکرم الخلائق بنانے کے ساتھ مخدوم مخدوم کائنات بھی بنایا ہے، لہذا حضرت انسان پر ابتداء آفرینش ہی سے اللہ تبارک وتعالی کے فضل وانعام کی بارش کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کے بارے میں ارشاد ربانی ہے” وان تعدوا نعمت اللہ لاتحصوھا” سورہ نحل 14″ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمارکرنا چاہو توشمارنہیں کر سکتے،

خالق کائنات، مالک ارض و سمٰوات کی ان بے شمار اور لا متناہی نعمتوں میں سب سے بڑی اور عظیم نعمت،اور اسکی زندگی کاسب سے اہم اور بنیادی مقصود ومطلوب: ایمان کی بیش قیمت و بے بہا دولت ہے، چناچہ حیات انسانی کا سب سے زیادہ انمول جوہر اور ایجاد و جود بنی آدم کا مبنی و منتھی جس پر حضرت انسان کی ساری شرافت وکرامت دنیا و آخرت کا مدار کلی ہے وہ یہی دولت دین وایمان ہے، جس کے پاس دین و ایمان کی دولت نہیں وہ انسان اگر ہفت اقلیم کا مالک ہو جائے تو بھی اللہ رب العزت والجلال کے یہاں کسی مکھی اور مچھر کے پر کے برابر بھی اس کی کوئی قدر و منزلت نہیں، حتی کہ جس بد نصیب کے پاس ایمان و اسلام کی دولت نہیں وہ اگر دنیا میں کوئی نیک اور اچھا کام کرے مثلا خدمت خلق، رفاہی کام، محتاجوں، ضرورت مندوں، بیکسوں اور بے سہاروں کیساتھ مدارات و ہمدردی، خیرخواہی اور امداد و تعاون، یتیموں بیواؤں کی دستگیری و فریاد رسی، صلہ رحمی اعزہ واقرباء کے ساتھ حسن سلوک اور روا داری وغیرہ! تو بھی اس کے اچھے کاموں کا بدلہ اسے دنیا ہی کےاندر موت سے پہلے صحت و تندرستی، مال و دولت کی فراوانی اور رفع آلام و مصائب وغیرہ کی شکل میں دیکر اسکا حساب بیباک کر دیا جاتا ہے، ایمان واسلام سے محرومی کے باعث جزائے آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ عز اسمہ ہے” قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا، الذین ضل سعیھم فی الحیاۃ الدنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا، اولئک الذین کفروا بآیات ربھم ولقائہ فحبطت اعمالھم فلانقیم لھم یوم القیٰمۃوزنا” اےنبی جی آپ فرما دیجئے کہ کیا میں تمھیں بتلاؤں کہ اعمال کر کے بھی سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے کون لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیاوی زندگی کی ساری کوششں اکارت گئی اور وہ یہ سمجھتے رہےکہ ہم تو اچھے اچھے کام کر رہے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پالنہار کی آیات کا اور اسکی ملاقات کا انکار کیا، سو انکے اعمال ضائع ہوئے، اور ہم قیامت کے دن انکے لئے وزن ہی قائم نہ کریں گے، پ 16/ سورہ مریم،

لہذا جس خوش نصیب انسان کو یہ قیمتی سرمایہ اور عظیم دولت حاصل ہو جائے وہی در حقیقت” اولئک ھم خیرالبریہ” کاصحیح اور سچا مصداق ہے، اور بد قسمتی سے جو انسان اس گوہر بیش بہا سے محروم رہ گیا تو بزبان قرآن عظیم الشان وہی انسان” اولئک ھم شرالبریہ”اور اولئک کالانعام بل ھم اضل” کا عین مصداق ہے،

(ایمان واسلام کی عظیم دولت کیسےملتی ہے)

ایمان کی یہ عظیم دولت کبھی تو جان و مال کی عظیم قربانیوں کے بعد نصیب ہوتی ہے، جیسے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین وامثالھم کو ملی، اور کبھی یہ عظیم دولت آباءواجداد کی بیش قیمت قربانیوں کے نتیجے میں بغیرکسی محنت ومشقت اور بغیر کسی قربانی کےبطور وراثت مل جاتی ہے، جیسے ہمیں اور آپکو ملی ہوئی ہے کہ آباء و اجداد پہلے سے مسلمان تھے اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مسلمان بندوں کے گھر میں پیدا فرما کر عظیم احسان فرماتے ہوئے مفت میں دولت اسلام اور نعمت ایمان سے سرفراز فرما دیا، فالحمد للہ علی ذالک حمدا کثیرا والشکر لہ علی کل نعمہ شکرا جزیلا،

(دولت دین و ایمان کا تحفط و بقاء)

البتہ اب اس دولت ایمان کی بقاء اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری ہماری ہے، کہ ہم ایسے تمام اسباب وعوامل کو اختیار کریں،اور اللہ و رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کےبتائے ہوئے تمام اصول وفروع اور قوانین وضوابط کواپنانے میں اپنی تمام تر طاقت و توانائی کو بروئے کار لائیں،جو دین وایمان کےتحفظ وبقاء کی ضمانت و گارنٹی ہیں، اس باب میں ادنی درجہ کا تساہل و تغافل دین و ایمان کی دولت سے ہمیں محروم وتہی دست بنا کر ہماری دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر سکتا ہے،

اور ایسے تمام امور جو دین و ایمان کے تحفظ و بقاء کی ضمانت و گارنٹی کی حیثیت رکھنے والے ہیں انمیں سب سے زیادہ اہم اور بنیادی امر دینی تعلیم وتربیت ہے،دین اسلام اور قرآن و سنت کی تعلیم، اور پیغمبرانہ تربیت کے علاوہ ایمان کی بقاء وتحفظ کا کوئی راستہ نہیں ہے، دینی تعلیم وتربیت بعثت انبیاءکے اہم اوربنیادی مقاصد میں سے ہے، ارشاد باری تعالیٰ عز اسمہ ہے” ھو الذی بعث فی الأمیین رسولا منھم یتلو علیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ و إن کانوا من قبل لفی ضلال مبین” تلاوت آیات، تزکیہ نفوس، ( دینی تربیت ) تعلیم کتاب و حکمت ( احکامات الہیہ اورسنت نبویہ علی صاحبھاالصلوۃ والسلام کی تعلیم)یہی چار بعثت انبیاء کےاہم اور بنیادی مقاصد ہیں، پ28/ سورہ جمعہ،

اور آقائے مدنی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے” طلب العلم فریضة علی کل مسلم! وواضع العلم عند غیر اھلہ کمقلد الخنازیر الجوھر واللؤلؤ والذھب(سنن ابن ماجہ ج 1 صفہ 214 حدیث 224) اور ایک روایت میں ہے”علی کل مسلم مسلمہ! ہر مسلمان مرد وعورت پر علم دین کا حاصل کرنا فرض ہے،،

اسی طرح ارشاد عالی ہے” من خرج فی طلب العلم فھوفی سبیل اللہ حتی یرجع!(جامع ترمذی باب فی فضل طلب العلم حدیث2647_اوکماقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم” جو شخص علم کی طلب میں نکلا تو وہ اللہ کے راستے میں ہے، یہاں تک کہ لوٹ کر آجائے، اس طرح قرآن مقدس اور ذخیرہ احادیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دینی تعلیم و تربیت کے فضائل سے بھرا پڑا ہے، اور ظاہر ہےکہ دین اور شریعت وسنت کے علم کے بغیر عمل اور عمل کے بغیر دین و ایمان کی حفاظت ناممکن اور محال ہے،

( ایک ضمنی مگر اہم بات)

ایک بات اور بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ عام طور سے لوگ اس غلط فہمی کاشکار ہیں کہ قرآن مقدس اور احاد یث مبارکہ کے اندر جھاں کہیں علم کی اھمیت وضرورت اور اسکے فضائل و مناقب بیان کئے گئے ہیں وہ عام ہیں، دینی و عصری دونوں قسم کی تعلیم کیلئے، چنانچہ اس مضمون کی تمام آیات و روایات کو دنیوی اور عصری تعلیم کی اھمیت وضرورت کیلئےتقریروں اور تحریروں میں انتہائی پر اعتماد انداز میں پیش کیا جاتا ہے، یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے،

یاد رہے کہ عصری اور دنیاوی تعلیم کی قدر وقیمت اور اہمیت: انسانی ضرورت کے پیش نظر اپنی جگہ مسلم ہے، اس سے قطعا انکار نہیں، لیکن قرآن مقدس، حدیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اورشریعت اسلامیہ کی نظر میں علم” فقط علم دین اور علم شریعت کا نام ہے، باقی دنیا کے جتنے علوم ہیں وہ در حقیقت علم نہیں بلکہ انسانی فنون وتجربات اور مشاہدات ہیں جنکا زمانوں کے تغیرات اور انسانی حاجات و ضروریات اور وقت کے تقاضوں کے لحاظ سے انسان کے دل و دماغ پر اللہ تبارک وتعالی محض اپنے فضل وکرم سے القاء فرماتے دہتے ہیں،

جبکہ علم در حقیقت ایک نور ( نور خداوندی اورمعرفت الہی) ہے جوکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں، قرآن و سنت کی نظر اور شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں علوم قرآن و سنت اور تعلیمات شریعت ہی میں منحصر ہے، اور یہ علم انسانی فنون وتجربات، مرئیات و مشاہدات، معقو لات و منقو لات اور محسوسات وادراکات سے ما وراء و بالاتر محض فضل خداوندی وانعام ربانی ہے، جسےاللہ رب العزت نے بذریعہ وحی اپنےانبیاء کے سینوں پر اتارا ہے، اور انبیاء کرام کے واسطے سے حضرت انسان تک پہنچایا ہے، جسکے متعلق ارشاد ربانی ہے "علم الانسان مالم یعلم” سور علق! اللہ رب العزت نے انسان کو وہ سب سکھلایا ہےجو انسان نہیں جانتا تھا،

لہذا قرآن وحدیث کے اندر جھاں کہیں علم کی اھمیت وضرورت اور اسکے فضائل بیان کئے گئے ہیں اس سے فقط علم دین ہی مراد ہے، یعنی وہ علم جس سےلوگ عبادات ومعاملات کےاحکام سے باخبر ہو سکیں، اور اللہ تبارک تعالی عزاسمہ کی معرفت حاصل کرسکیں،، حدیث پاک میں ہے،

777 – عن ابي هريرة رضي الله عنه ان النبى صلى الله عليه وسلم دخل المسجدفرأى جمعامن الناس على رجل فقال ما هذا قالوا يا رسول الله رجل علامة قال وما العلامة قالوا اعلم الناس بانساب العرب واعلم الناس بعربية و اعلم الناس بشعر و اعلم الناس بمااختلف فيه العرب فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هذاعلم لاينفع وجهل لايضر

(کتاب جامع بیان العلم وفضلہ لإبن عبد البر)

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں داخل ہویے تو دیکھا کہ لوگوں نے ایک شخص پر بھیڑ لگا رکھی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہے اور یہ کیسی بھیڑ ہے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یہ آدمی علامہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ کیسا علامہ ہے اور اسے کس طرح کا علم ہے تو لوگوں نے کہا کہ یہ عرب کے انساب کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے، اور عربی زبان کو سب سے زیادہ جانتا ہے، شعر وشاعری کا ہم سے بڑا عالم ہے، اور عرب نے جن باتوں میں باہم اختلاف کیا ان باتوں کا سب سے زیادہ علم رکھتا ہے، تو نبی پاک صلی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کی یہ ایسا علم ہے کہ جس کے حاصل ہونے سے کوئی نفع نہیں اور نہ حاصل ہو تو کوئی نقصان نہیں،،

778- وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم العلم ثلانة، وما خلا فهو فضل، آية محكمة، أو سنة قائمة، أو فريضة عادلة.

(کتاب جامع بیان العلم وفضلہ لإبن عبد البر)

رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ نے ارشاد فرمایا کہ در حقیقت علم تین ہی چیزوں کا نام، ان تین کے سواء جو کچھ ہے وہ حقیقت علم سے ماسواء فضل ہے،،

والمراد بالعلم العلم الشرعى الذى يفيد معرفة ما يجب على المكلف من امر دينه فى عباداته و معاملاته والعلم بالله و صفاته و ما يجب له من القيام بأمر وتنزيهه عن النقائص ومكرر ذالك على التفسير والحديث والفقه،

أور علم سے مراد وہ علم شرعی ہے جو ان امور دینیہ کی معرفت کا فائدہ دے جو مکلف شرع پر واجب ہیں عبادات و معاملات کی قبیل سے، اور اللہ رب العزت کی ذات و صفات کے علم کا اور ان امور الہیہ کے علم کا فائدہ دے جنکا قیام اللہ کے لیے واجب ہے، اور اس کی ذات و صفات کے تمام نقائص سے پاک ہونے کے علم کا فائدہ دے، اور یہ بات طیے شدہ ہے کہ وہ علم تفسیر و حدیث اور فقہ پر منحصر ہے،

حاصل کلام یہ کہ قرآن وحدیث اور شریعت کی اصطلاح میں علم سےمرادعلم وحی ہے جسے اللہ رب العزت نے قرآن و حد یث کی شکل میں اپنے محبوب کو اور اپنے محبوب کے توسط سے ہمیں عطا فرمایا ہے، لہذا” إقرأ باسم ربک الذی خلق” اور اس جیسی دیگر آیات قرآنیہ، اور طلب العلم فریضۃ "اور اس جیسی دیگر احادیث نبویہ کو جو علم دین اور علم شریعت کے فضائل کے بیان میں ہیں عصری علوم و فنون کی اہمیت و فصیلت پر منطبق نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان تمام آیات وروایات کا حاصل یہ ہے کہ ضروریات دین کا علم (جس سے کم از کم دین و ایمان کی اھمیت و ضرورت کا احساس پیدا ہو جائے، اللہ تعالی کی ذات وصفات کی معرفت: کم از کم تا حیات دین وایمان کی سلامتی کی حدتک حاصل ہو جائے، حلال و حرام کی تمیز پیدا ہو جائے اور فرائض واجبات کا صحیح علم ہوجائے)ہرمسلمان مرد وعورت پرفرض عین ہے، اگر دین کا اتنا علم حاصل نہ کیا تو بوقت سوال عند اللہ خلاصی مشکل ہے، اور عصری علوم و فنون کام ان باتوں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں،

(بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کاذمہدارکون؟)

اب اس دینی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری سب سےپہلے والدین کے اوپر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کا انتظام واھتمام کریں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے(يا ايها الذ ين آمنو قوا انفسكم و اهليكم نارا) اےایمان والو اپنے آپ کواور اپنےاھل وعیال کوجھنم کی آگ سے بچاو،

نیزاحادیث کےاندر اپنےبچوں کی دینی تعلیم وتربیت کی تاکیدوترغیب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار فرمائی ہے،

حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک شخص آپ کےپاس آیا اورعرض کیا امیر المومنین میرا بیٹا میرے حقوق ادا نہیں کرتا، امیرالمومنین رضی اللہ تعالی عنہ نے بیٹے کو بلایا اور اس سے فرمایا یہ تمھارے والد ہیں بیٹے نے کہا ہاں فرمایا یہ تمھاری شکایت کررہے ہیں کہ تم انکے حقوق ادا نہیں کر رہے ہو،تو بیٹے نے عرض کیا امیرالمو منین اگر اجازت ہو تو میں کچھ پوچھوں؟ امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا پوچھو! تو اس نوجوان نے عرض کیا امیر المو منین کیا صرف والدین ہی کا حق ہے اولاد پر یا اولاد کا بھی کوئی حق ہے والدین پر؟

امیرالمومنین نے فرمایا! کیوں نہیں اولاد کا حق والدین کےاوپر توپہلے ہے، نوجوان نے پوچھا وہ کیا ہے، امیر المومنین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا! والدین پر اولاد کے تین حقوق ہیں،،

پہلاحق : جب کوئی اولاد پیدا ہو اور اس کا نام رکھے تو اسلامی نام رکھے،

دوسرا حق: بچہ کی دینی تعلیم و تربیت کا معقول انتظام و اہتمام کرے،

قرآن پاک میں اللہ رب العزت نےارشاد فرمایا ہے”یا ایھا الذین آمنواقوا انفسکم و اھلیکم نارا”

اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنی آل و اولاد کو جھنم کی آگ سے بچاؤ،

اس آیت میں عام مسلمانوں کو حکم ہے کہ جہنم کی آگ سے اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے اہل وعیال کوبھی، ایک روایت میں ہےکہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا یا رسول اللہ اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کی فکر تو سمجھ میں آگئی "کہ ہم گناہوں سے بچیں اور احکام الٰہی کی پابندی کریں”مگر اہل و عیال کو ہم کس طرح جہنم سے بچائیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایاکہ اسکاطریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو جن کاموں سے منع فرمایا ہے ان کاموں سے ان سب کو منع کرو اور جن کاموں کے کرنے کا تم کو حکم دیا ہے تم ان کے کرنے کا اہل وعیال کو بھی حکم کرو، تو یہ عمل انکو جہنم کی آگ سے بچا سکے گا،

حضرات فقہاء کرام نے فرمایا کہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی اور اولاد کو فرائض شرعیہ اور حلال و حرام کے احکام کی تعلیم دےاور اس پر عمل کرانے کے لئے کوشش کرے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمت نازل کرے جو کہتا ہے اے میرے بیوی بچو، تمہاری نماز، تمہارا روزہ، تمہاری زکوٰة،تمہارا مسکین، تمہارا یتیم، تمہارے پڑوسی، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو اسکے ساتھ جنت میں جمع فرمائیں گے۔ تمہاری نماز، تمہارا روزہ وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کاخیال رکھواس میں غفلت نہ ہونے پائے اور مسکینکم یتیمکم وغیرہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جو حقوق تمہارے ذمہ ہیں ان کو خوشی اور پابندی سے ادا کرو اور بعض بزرگوں نے فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب میں وہ شخص ہوگا جسکے اہل و عیال دین سے جاہل وغافل ہوں، (معار القرآن)

تیسراحق: جب وہ شادی کے لائق ہو جائےتو اچھا دینی رشتہ تلاش کرکےاس کا نکاح کردے،،

نوجوان نے عرض کیا امیر المومنین! میرے والد نے ان میں سے میرا کوئی حق ادا نہیں کیا، امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نےباپ سےفرمایا جب تم نے اپنی اولاد کاحق ادا نہیں کیا تو اب تمھیں اپنا حق ان سے مانگنے کا کوئی حق نہیں،

اب غور فرمائیں!کہ والدین آج اپنے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے تئیں کتنے مخلص کتنے حساس اور کتنے فکر مند ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ آج کے موجودہ حا لات اس حقیقت کو بیان کرنے کے لئے کافی سے زائد ہیں، ہر صاحب عقل بحسن وخوبی سمجھ سکتا ہے،کہ اگر یہ بیچارے مولوی خود اتنے فکر مند نہ ہوں تو آج قوم کو شاید اتنا احساس بھی نہ رہے کہ دینی تعلیم و تربیت بھی کس پرندے کا نام ہے!

آج دین سے دوری اور دین بیزاری کا یہ عالم ہے کہ گھر سے چار قدم کے فاصلے پر دینی مکتب اور اسلامی مدرسہ ہے مگر بچے کو وہاں بھیجنے یا پہو نچنانے کی فرصت نہیں، اور عصری تعلیم کے لئے دو چار کلو میٹر دور تک لانے اور لے جانے کیلئےنہ ماں کے پاس وقت کی کمی ہے نہ باپ کے پاس، اس سے یہ نہ سمجھیں کہ عصری اسکول و کالج میں نام لکھوانے سے یا وقت پر اسکول پہنچانے سےکوئی آپکو منع کر ریا ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ جتنی فکر اولاد کی عصری تعلیم کی ہے اس سےزیادہ نہیں توکم ازکم اتنی توکرلیں، اس لئے کہ دینی تعلیم مقصد زندگی اور فرض شرعی ہے، جبکہ عصری تعلیم محض دنیا کی چند روزہ زندگی کی ایک ضرورت ہے، اور یہ بات ہر کسی کے نزدیک مسلم ہےکہ ضرورت کو مقصدپر قربان توکیا جاسکتا ہےلیکن مقصدکو ضرورت پر قربان نہیں کیا جا سکتا، غفلت و کوتاہی کا یہی حال اولاد کے باقی دونوں حقوق کے سلسلہ میں بھی ہے جو محتاج بیان نہیں،

آج مسلم بچیوں کے ارتداد کی جو مصیبت قوم پر ٹوٹی ہے اس کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب دین سے دوری اور دین بیزاری ہے, اور اس کےذمہ دار والدین ہیں, کیونکہ جب بچے کو اس کے پیدا ہونے سے لےکر جوانی تک، ماں کی گود سے لے کر گھر کے آنگن تک، گھر کے آنگن سے لے کراسکول اور کالج تک الحاد وبےدینی کے ماحول میں رکھا جائے گا تونیتجہ وہی کفرو ارتداد ہی کا برآمد ہوگا جو آج سامنےہے، اللہ تبارک و تعالی ہی اپنا فضل وانعام فرمائیں تو الگ بات ہے ورنہ کسی اچھے نتائج کی امید نہیں کی جا سکتی، انسان جو بوئے گا وہی کاٹے گا، حنظل کے درخت پر آم اور انار کے پھل کی توقع عبس اور بیکار ہے، اس لئے اگر ہم اس طوفان بلا خیز کو روکنا چاہتےہیں تووالدین کو اپنےبچوں کی دینی تعلیم وتربیت کاانتظام کرنا ہوگا اور اسکے لئے اپنے ہر کام سے پہلے اور کام سے زیادہ فکر مند ہونا ہی پڑے گا،

قارئین کرام! ذرا غور فرمائیں! ایک موروثی مسلمان جس نےحصول ایمان واسلام کے لئےجان و مال و اولاد، و طن و گھربار، اعزہ و اقرباء اور عزت وآبرو میں سےکسی چیزکی قربانی نہ پیش کی ہو، بلکہ آباء و اجداد کی عظیم قربانیوں کے نتیجے میں، یا کسی مسلمان کے گھر میں پیدا ہو جا نے کی بدولت بطور وراثت دین و ایمان اور دولت اسلام نصیب ہوگئ ہو،پھر اسےدین کا علم بھی نہ ہو، اپنے اجداد کی قربانیوں سے واقفیت بھی نہ ہو، وہ صرف اتنا ہی جانتا ہو کہ میں ایک مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہوں اسلئے مسلمان ہوں، مزید اس نےکا فرزانہ وملحدانہ ماحول میں تعلیم وتربیت پائی ہو،توپھرظاہر ہےایسےمسلمان کومذہب اسلام کی عظمت وتقدس،اسکی اھمیت و ضرورت، اس کی خیر و خوبی اور قدرو قیمت کا اندازہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ایسی صورتحال میں شیطان بڑی آسانی سے کسی بھی وقت اسے کفر و ارتداد کے تاریک کنوئیں میں دھکیل سکتا ہے،

اسی لئے مدنی آقاصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مشہورحدیث پاک ہے”فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد” دین کی سمجھ رکھنے والا ایک عالم شیطان پر سو عابدون کے بالمقابل بھاری ہے،یعنی شیطان کیلئےسو عابدوں کو”جنھیں دین کی سمجھ اور تفقہ فی الدین نہ ہو جوصرف سیکھ کرعبادت کرنےوالے ہوں”بہکانا اورگمراہ کرنا کفر وارتداد میں مبتلاکر دینا آسان ہے،لیکن دین کی سمجھ رکھنےوالےایک عالم دین کوبہکا پانا اورگمراہ کرپانا بہت مشکل ہے، تصور تو فرمائیں! کہ جب شیطان کے مقابلہ میں عابد کی کمزوری کایہ عالم ہے توپھر ایک ایسا شخص جو علم دین سے بیزار، علم دین سے ناآشنا، اور عبادت کےنورسےبھی محروم ہو تونفس وشیطان کے مقابلے میں وہ کتنا کمزور ہو گا،،

آج جن مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں یا مسلم گھرانوں اور خاندانوں کےارتداد کی المناک خبریں آرہی ہیں،ان کےارتداد کابڑا سبب انکا دین اسلام کی عظمت و تقدس اور اس کی خوبیوں سے تہی دست ہونا اورقرآن وسنت کی تعلیم سے نابلد اور جاھل ہونا ہے، وہ مسلمان کےگھر میں پیدا تو ہوگئے لیکن دین اور علم دین سے دوری و بیزاری کے سبب مذہب اسلام کی عظمتوں اور خوبیوں کونہ جانا نہ پہچانا اسلئے وہ اس عظیم وثمین سرمایے کی قدر نہ کر سکے، اور کسی کے بہکاوے میں آکر، یا دنیا کی لالچ میں پڑ کر، یا کسی وجہ سےخوف وہراس کاشکار ہوکر، یا پھر دنیا کی پر فریب چکا چوند رنگینیوں سے خیرہ نظر، عیش و عشرت میں بدمست، نفس وشیطان کے دام فریب میں گرفتار خواب و خیالات کی تاریک وادیوں میں بھٹک گئے، اور دنیا کی ذلیل وحقیر خواہشات، کھوٹی تمناؤں اور آرزؤوں کی بھینٹ چڑھکر اپنےدین وایمان کا سودا کربیٹھے، نتیجة ارتداد کی بھیانک گمراہی میں مبتلاء ہو گئے، اور یہ کوئ بہت زیادہ حیرت وتعجب کی بات نہیں، اس لئے کہ جس کی ساری زندگی بے دینی، اور دھیریت کے آزادانہ ماحول میں گذری ہو،یا اسکولوں اور کالجوں کے کافرانہ و ملحدانہ فضاء میں زندگی کو انجوائے کرتے ہوئے پروان چڑھی ہو، اسے بھلا مذھب اسلام کی عظمت و تقدس اور خیر وخوبی کا کیا اندازہ ہوگا، ہیرے اور موتی کی قدر وقیمت تو جوہری ہی بتائے گا، پرچون کی دکان پر بیٹھے ہوئے بنئے کو ہیرے موتی کی قیمت کی کیا خبر؟

اس لئے سب سے پہلے ہمیں اپنے اپنے وسائل واسباب کی حدتک نئی نسل کواسلام کی عظمت اور خوبیاں بتا کر اس کی اہمیت اور قدر وقیمت کا احساس دلانا ہو گا، اور اپنے پیارے مذھب کے تئیں انھیں بیدارکرنا اور جگانا ہوگا،

ہمیں اپنی پوری قوم اور ملت اسلامیہ کی خوبیوں اور بھلائیوں سے ناواقف اور ناآشنا قوم کےافرادکو مذہب اسلام کی خوبیوں اوربھلائیوں سے اور دنیا بھر کے تمام ادیان ومذاہب پر اسلام کے تفوق وبرتری، عظمت وتقدس اور اسکے وجہ امتیاز سے متعارف اور آشنا کرانا ہو گا، تاکہ کم ازکم نئی نسل کو اس بات کایقین اوراطمینان ہو جائے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں جو مذہب (مذہب اسلام ) اپنے بے انتہا فضل وکرم سےعطا کیا ہے دنیا کا کوئی مذہب اس سے زیادہ اچھا پسندیدہ اوربہتر نہیں،اورجوخوبیاں مذہب اسلام کے اندر اللہ تبارک وتعالی نے رکھی ہیں اس کا عشرعشیر بھی کسی اور مذھب کے اندر نہیں، اور مذہب اسلام سے پھرنے کا انجام دنیا وآخرت میں ذلت ورسوئی کے سواء کچھ نہیں،

محترم قارئین کرام: مذہب روح انسان کی ایک طبعی اورفطری ضرورت ہے، جیسےجسم انسانی کے لئے ہوا اور پانی، ارشاد ربانی ہے” فطرة الله التى فطر الناس عليها” مذہب اسلام اللہ تبارک و تعالی کی وہ فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، لہذا مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر قوم خود کو کسی نہ کسی مذہب کاپابند گردانتی ہے،خواہ وہ کوئی آسمانی مذہب ہو یا زمینی، یا آباء و اجداد کی جاہلانہ رسموں رواجوں، اور نفس و شیطان کی اتباع کو مذہب کا نام دے دیا گیا ہو، حتیٰ کہ جو لوگ مذھب کی پابندیوں سےآزاد رہنے کےلئے خود کو لامذھب گردانتے ہیں، وہ بھی دھریت اور لا مذھبیت کےاس قدر پابند ہوتے ہینکہ وہی دھریت اور لا مذھبیت ہی بطور مذہب ان کی پہچان بن جاتی ہے،چنانچہ من حیث القوم ان کو دھریے کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے

الغرض جب سےدنیا آباد ہوئی کوئی قوم ایسی نہیں گذری جو کسی نہ کسی مذہب کی پابند نہ ہو، اور یہ بھی ایک واضح تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کا ہرمذہب یہی دعوی کرتا ہے کہ سچائی اور صداقت کاسارا خزانہ اسیکے دامن میں ہے، باقی سارے مذاہب جھوٹے اور باطل ہیں،

ہمارا مذہب اسلام بھی یہی دعوی کرتا ہے کہ دنیا بھر کے تمام ادیان و مذاہب میں سب سے سچا سب سےاچھا اور پسندیدہ مذہب اسلام ہے، لیکن یہ بات بھی سب کےنزدیک مسلم ہےکہ کسی بات کی سچائی اور صداقت کو ثابت کرنے کیلئے صرف دعوی کافی نہیں ہوتا، بلکہ دلیل کی بھی ضرورت ہوتی ہے،،

(تقابل ادیان دلائل کی روشنی میں)

تو آیئے دنیا کے چند بڑے، معروف و مشہور اور قابل ذکر مذاہب کے مابین تقابل اور موا زنہ کرتے ہیں، اور دلائل کی روشنی میں دنیا کے تمام ادیان ومذاہب پرمذھب اسلام کی فوقیت، خوبی اور عظمت وبرتری کو ثابت کرتے ہیں، جسکے لئے ہم” ان شاء اللہ”پندرہ دلائل قرآن مقدس،احادیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم، اھلیان مذہب و اصحاب صائب الرائے کے نزدیک مسلمہ اصول کی روشنی میں پیش کریں گے، جس یہ بات إن شاء اللہ صاف اور واضح ہو جائے گی کہ واقعی میں دنیا کےتمام ادیان ومذاہب میں مذہب اسلام ہی سب سے زیادہ اچھا، خوب صورت، سچا اور پسندیدہ مذہب ہے،

اللہ رب العزت حق کہنے اور حق لکھنے کی، ٹھوس اور مضبوط دلائل پیش کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین یا رب العالمین بجاہ نبیک و رسولک محمدبن عبداللہ الصادق الامین،صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ آصحابہ اجمعین،

جاری……

Comments are closed.