نصرتِ الہی کی مؤثر کلید

 

مفتی محمد عارف باللہ القاسمی

 

مظلومیت اور عزیمت کا امتزاج وہ مؤثر کنجی ہے جس سے نصرتِ الٰہی کے دروازے کھلتے ہیں، جب انسان ظلم و جبر کی چکی میں پِس رہا ہو، لیکن اس کے دل میں یقین کا چراغ روشن رہے، جب اس کی قدموں میں لغزش نہ ہو اور وہ اپنی راہ کو ہمت اور استقامت کے ساتھ طے کرتا جائے، تو یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں اللہ کی مدد آسمان سے زمین کی جانب متوجہ ہوتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ زندگی میں تند و تیز جھونکوں کا سامنا ہر فرد کو کرنا پڑتا ہے، لیکن وہی شخص سربلند ہوتا ہے جو ان جھونکوں سے گھبرا کر پیچھے نہیں ہٹتا، بلکہ ان کو اپنے عزم کی بلند پرواز کا زینہ بنا لیتا ہے۔

تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

ایک فرد یا قوم کا کسی حقیقی یا حکمی فرد کے ظلم واستبداد اور ناانصافی کا سامنا کرنا "مظلومیت” ہے، اور ایسے حالات میں بھی اصولوں اور دینی تعلیمات پر ڈٹے رہنا اور اللہ کے وعدے اور اس کی رضا پر پختہ یقین رکھتے ہوئے مشکلات کو برداشت کرنا "عزیمت” ہے۔

اللہ تعالیٰ ظالمین وطاغین کی گرفت اور مظلومین کی نصرت کا وعدہ قرآن مجید میں بار بار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ”(سورۃ ابراہیم، 14:42)

ترجمہ: "اور تم اللہ کو ظالموں کے اعمال سے غافل نہ سمجھو۔”

یہ صاف صاف تنبیہ وتبشیر ہے کہ ظالمین اپنے کئے کی سزا ضرور پائیں گے اور مظلوموں کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہے اور ان کے لیے نصرت مہیا کرتا ہے۔ ان کی مظلومیت کو مقبول بنانے والی ان کی عزیمت انہیں اللہ کی حمایت ونصرت کا مستحق بنارہی ہے اور بنائے رہے گی۔ "اِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ” (سورۃ البقرہ: 153)

ترجمہ: "اور بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”

صبر کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل بلکہ صابرین کی پہلی فہرست میں ہیں جو ظلم اور مشکلات سے سینہ سپر ہوتے ہوئے دین اور حق پر ثابت قدم رہتے ہیں اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے الہی تعلیمات کو بجا لانے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ہیں اور اللہ کی قدرت ونصرت پر نظر رکھتے ہوئے دین اور حق کی راہوں کے مصائب کو اپنی ثابت قدمی اور عزیمت سے ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں اور ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کے اللہ پر ایمان ویقین کو حوادث اور طوفانی حالات متزلزل نہیں کرسکتے۔

حدیث شریف بتاتی ہے کہ مظلوم کی دعا کو اللہ کی بارگاہ میں قبولیت اور سرعتِ اجابت کا وہ مقام حاصل ہے کہ اللہ عزوجل تک اسکی رسائی میں کوئی چیز حجاب نہیں بن سکتی، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

"اتق دعوة المظلوم فإنها ليس بينها وبين الله حجاب”(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2448)

ترجمہ: "مظلوم کی دعا سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔”

یہ حدیث مبارکہ اس ابدی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ مظلوم کی آہ جس میں عزیمت شامل ہو، سیدھا عرش الٰہی پر پہنچتی ہے، جب کوئی قوم یا فرد اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے باوجود اپنے اخلاق و اصول کو برقرار رکھے، تو وہ وقت دور نہیں ہوتا جب اللہ کی نصرت اس کے لیے ظاہر ہوتی ہے۔

تاریخ اسلام مظلومیت اور عزیمت کے بے مثال واقعات سے بھری ہوئی ہے، جہاں اللہ کی نصرت مظلومین کی ثابت قدمی اور عزیمت کے عوض انہیں عطا ہوئی۔

غزوہ بدر اسلامی تاریخ کا وہ تابناک معرکہ ہے جس میں مظلوم مسلمان حق و باطل کے معرکے میں عددی قلت اور وسائل کی کمی کے باوجود ثابت قدمی اور ایمان کی پختگی کے ساتھ کھڑے رہے، جب ظاہری اسباب کمزور تھے اور ہر طرف سے مشکلات کا سامنا تھا تو مسلمانوں نے عزیمت کے ساتھ اللہ کی رضا کی راہ پر چلنا جاری رکھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان اور عزیمت کے بدلے فرشتوں کی مدد بھیجی اور انہیں فتح عطا فرمائی، قرآن مجید میں اس عظیم فتح کا ذکر یوں فرمایا گیا:

"وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ” (سورۃ آل عمران، 3:123)

ترجمہ: "اور بے شک اللہ نے تمہاری بدر میں مدد کی جبکہ تم کمزور تھے۔”

یہ واقعہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ جب مظلوم عزیمت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، تو نصرتِ الٰہی ضرور شامل حال ہوتی ہے۔

کربلا کا معرکہ عزیمت اور مظلومیت کا وہ عظیم درس ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے جانثاروں نے ظلم و جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا، لیکن حق پر استقامت کا علم ہمیشہ بلند رکھا، ان کی عزیمت اور مظلومیت کا یہ امتزاج آج بھی ہر مومن کے لیے مشعل راہ ہے۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ حق پر ڈٹے رہنے اور عزیمت کے ساتھ ظلم کا مقابلہ کرنے والوں کو اللہ کی نصرت ہمیشہ حاصل ہوتی ہے، خواہ ظاہری شکست ہو یا فتح ، حقیقت میں مظلوم ہی کامیاب اور فاتح ہے۔

آج کے دور میں بھی مظلوم قوموں اور افراد نے جب عزیمت کا مظاہرہ کیا تو اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہی۔ فلسطین کی مظلوم عوام کی جدوجہد (جہاں وہ اپنی سرزمین اور حقوق کے لیے قربانیاں دئے ہیں اور دے رہے ہیں) ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ عزیمت اور مظلومیت کے امتزاج کے نتیجے میں اللہ کی نصرت کبھی دور نہیں ہوتی، بلکہ مقبول قربانیاں شبِ تاریک کو چاک کرہی دہتی ہیں اور امیدوں سے کہیں زیادہ روشن صبح ان کا استقبال کرتی ہے، جانے والے شہادت پاکر مقیمِ جنت ہوتے ہیں اور شعور وادراک سے ماورا ابدی لذتوں کے مزے لیتے ہیں تو بچنے والے فتح ونصرت کی وہ لذت پاتے جن کا حقیقی مزہ دور بیٹھے تماشائی کبھی بھی محسوس نہیں کرسکتے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے:

"إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ” (سورۃ محمد: 7)

ترجمہ: "اگر تم اللہ کی مدد کرو (یعنی اس کے دین پر قائم رہو) تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔”

یہ اصول آج بھی اتنا ہی سچ ہے جتنا کہ ابتدائی دورِ اسلام میں تھا، جب مظلومین عزیمت کے ساتھ اللہ کی راہ پر استقامت سے جمے رہتے ہیں تو اللہ کی مدد انہیں ضرور ملتی ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتی ہے۔

Comments are closed.