معروف شاعر، ادیب اور محقق ڈاکٹر تابش مہدی کا سانحہ ارتحال، اردو حلقے میں رنج و غم کا ماحول، شاہین باغ قبرستان میں سپردِ خاک

نئی دہلی،22جنوری (آئی این ایس انڈیا)
اردو زبان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر و ادیب و محقق ڈاکٹر تابش مہد ی کا گذشتہ رات 9 بجے انتقال ہوگیا۔ انہوں نے دہلی کے میکس ہاسپٹل میں آخری سانس لی۔ وہ دل اور گردے میں پریشانی میں مبتلا تھے اور طویل عرصے سے علیل تھے۔ ان کی عمر تقریباً 74 برس تھی۔ ڈاکٹر تابش مہدی کے لواحقین میں ان کی بیوہ کے علاوہ چھ اولادیں شامل ہیں۔ ان کی تجہیز و تکفین دہلی کے شاہین باغ قبرستان میں انجام دی گئی۔ ڈاکٹر تابش مہدی نے اپنی تخلیقات کے ذریعے اردو زبان و ادب کو ایک نئی جہت دی۔ ان کی علمی و ادبی زندگی کئی دہائیوں پر محیط رہی، جس میں انہوں نے شاعری، تنقید، اور تحقیق کے میدان میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ ان کی تخلیقات میں گہرائی، فکری پختگی اور تخلیقی نکھار کی جھلک نمایاں ہے۔ اردو ادب میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ڈاکٹر تابش مہدی کی تصنیفات:ان کی تصنیفات اور شعری مجموعوں میں نقش اول (1971ء)، لمعات حرم (1975ء)، سرود حجاز (1977ء)، تعبیر (1989ء)، سلسبیل (2000ء)، کنکر بولتے ہیں (2005ء)، صبح صادق (2008ء)، طوبیٰ (2012ء) غزل نامہ (2011ء)، مشکِ غزالاں (2014ء)، رحمت تمام (2018ء)، غزل خوانی نہیں جاتی (2020ء)، دانائے سبل (2023ء)، تنقید مولانا منظور نعمانی کی تصویر (1980ء)، جماعت اسلامی حقیقت کے آئینے میں (1981ء)، تبلیغی نصاب – ایک مطالعہ (1983ء)، تبلیغی جماعت اپنے بانی کے ملفوظات کے آئینے میں (1985ء)، اردو تنقید کا سفر (1999ء)، نقد غزل (2005ء)، تنقید و ترسیل (2011ء)، تجزیے صل علی صل علی (1992ء)، میرا مطالعہ (1995ء)، شفیق جونپوری – ایک مطالعہ (2002ء)، رباب رشیدی – ایک سخن ور پیارا سا (2006ء)، عرفانِ شہباز (2014ء)، حالی شبلی اور اقبال (2017ء) اور خود نوشت ’تابش، ایک مسلسل سفر‘ شامل ہیں۔تابش مہدی 3 جولائی 1951ء کو پرتاپ گڑھ، اتر پردیش،میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1964ء میں ڈسٹرکٹ بورڈ پرتاپ گڑھ سے جونیئر پرائمری اسکول کا امتحان پاس کیا، 1966ء و 1967ء میں بالترتیب تجوید و قرائت سبعہ انھوں نے مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد و مدرسہ تعلیم القرآن حسن پور، مرادآباد میں حاصل کی۔سنہ 1970ء میں انھوں نے عربی و فارسی بورڈ الٰہ آباد سے مولوی (عربی)، 1978ء میں منشی (فارسی) اور 1980ء میں کامل (فارسی) کا امتحان پاس کیا۔ نیز 1971ء میں جامعہ دینیات دیوبند سے عالم دینیات (اردو)، 1977ء و 1985ء میں بالترتیب جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب ماہر و ادیب کامل (اردو) کا امتحان کا پاس کیا۔ اخیر میں 1989ء میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) اور 1997ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے اردو تنقید میں پی ایچ ڈی کیا۔ شیراز ہند جونپور سے ان کا قلبی اور ذہنی لگاؤ رہا۔ انہوں نے جونپور کے جامعۃ الشرق بڑی مسجد سے کچھ سال تعلیم حاصل کی تھی اور علامہ شفیق جونپوری ان استاد کے استاد تھے۔تابش نے جون 1991ء سے 3 جولائی 2009ء تک مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔ نیز وہ ابوالکلام آزاد انٹر کالج پرتاپ گڑھ و ادارہ ادب اسلامی ہند کے رکن اساسی، عالمی رابطہ ادب اسلامی (ہند) اور دار الدعوۃ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن دہلی کے رکن؛ ادبیات عالیہ اکادمی لکھنؤ کے چیئرمین، ادارہ ادب اسلامی ہند کے سابق نائب صدر، سہ ماہی کاروان ادب لکھنؤ کے مشیر اعزازی و رکن ادارت ہیں۔علامہ تابش مہدی نے جولائی 1971ء میں ابوالکلام آزاد کالج پرتاپ گڑھ سے تدریسی زندگی کا آغاز کیا جولائی 1973ء تک وہاں تدریسی فرائض انجام دیے، پھر جنوری 1974ء سے جون 1978ء تک دار العلوم امروہہ میں تدریسی خدمات انجام دیں اور جون 1986ء تا اپریل 1990ء جامعۃ الفلاح عربک کالج بلریا گنج، اعظم گڑھ میں بہ حیثیت مدرس کام کیا۔ فی الحال اپریل 2018ء سے اسلامی اکادمی جماعت اسلامی ہند، دہلی میں فن تجوید و قرائت کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹر تابش مہدی مختلف اوقات میں پندرہ روزہ پیغام حق پرتاپ گڑھ، پندرہ روزہ اجتماع دیوبند اور ماہنامہ الایمان دیوبند کے مدیر، ماہنامہ گل کدہ سہسوان (بدایوں)، ماہنامہ ذکریٰ رامپور، ماہنامہ تجلی (دیوبند)، ماہنامہ زندگی نو (نئی دہلی) اور ماہنامہ ایوان اردو (دہلی اردو اکادمی) کے معاون مدیر اور ماہنامہ کتاب نما (دہلی) کے مہمان مدیر رہ چکے ہیں۔ نیز فی الحال اپریل 2002ء اور جنوری 2005ء سے بالترتیب ماہنامہ پیش رفت (دہلی) کے رکن مجلسِ ادارت اور سہ ماہی کاروان ادب (لکھنؤ) کے مشیر اعزازی و رکن مجلسِ ادارت تھے۔ خیال رہے کہ ڈاکٹر تابش مہدی کی نمازِ جنازہ ان کے چھوٹے صاحبزادے مولانا شاہ اجمل ندوی نے پڑھائی۔ نمازِ جنازہ میں سید سعاد ت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی، ہند، مولانا اصغر امام سلفی، مولانا صغیراحمد پرتاپگڈھی، مولانا بدرالاسلام قاسمی استاد جامعۃ الامام محمد انور شاہ، دیوبند سمیت دہلی میں مقیم اردو نواز اور اہل علم افراد اور طلبہ عزیز کی کثیر تعداد موجود تھی۔
Comments are closed.