ہندوستان کی آزادی اور دفاع کی جنگ 1857 سے پہلے

(انگریز کی ہندوستان آمد سے 1857ءتک کے قدرے تفصیلی حالات.)

تحریر: مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

رابطہ 9905387547

 

آزادی کی نعمت جانباز مجاہدین کی عظیم قربانیوں کا ثمرہ :

 

15 اگست 1947ء کو وطن عزیز ہندوستان انگریز کے تسلط سے آزاد ہوا. اسی تاریخ کو انگریزی سامراج کا خاتمہ ہوا اور یونین جیک کی جگہ ہندوستان کی عظمت کا نشان ترنگا لال قلعہ پر لہرایا؛ اس تاریخ کو ہم ہر سال یوم آزادی کی تقریب بڑے جوش و خروش سے منعقد کرتے ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ آزادی ہمیں تحفہ میں نہیں ملی، ملک کی آزاد فضاؤں میں سانس لینے کی یہ نعمت سہولت و آسانی کے ساتھ حاصل نہیں ہوئی؛ بلکہ اس آزادی کے پس منظر میں استقلال وطن کے لیے پیش کی جانے والی جانی ومالی قربانیوں کی ایک طویل اور تابناک تاریخ ہے. آزادی وطن کے لیے بےشمار شیدائیان وطن نےجامِ شہادت نوش کیا، ہزاروں نے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو چوما، لاکھوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، لاکھوں گھر بار تباہ وبرباد ہوئے، بے شمار آباد وسرسبز و شاداب چمن ویرانے اور کھنڈر میں تبدیل کردیئے گئے. ہزاروں سینے چھلنی ہوئے اور ان گنت سرتن سے جدا کئے گئے ۔

"ہیں عام ہمارے افسانے دیوار چمن سے زنداں تک ”

 

کیا 1857 کی جنگ پہلی جنگ آزادی تھی؟

 

البتہ تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر یہ سوال بجا طور پر ہمارے سامنے آتا ہے کہ

ملک کی آزادی اور اس دفاع کے لیے کی جانے والی کوششوں اور چلائی جانے والی تحریکوں اور لڑی جانے والی جنگوں کا نقطۂ آغاز کیا ہے؟

1857 کی جنگ آزادی یقیناً استخلاص وطن کی ایک زبردست کوشش تھی؛انگریز کے ظلم و بربریت کے خلاف ہمہ گیر بغاوت تھی، جسے انگریز قلمکاروں نے "غدر” کا نام بھی دیا ہے. ان سب کی شروعات 10 مئی 1857 کو میرٹھ میں اس وقت ہوئی تھی جب بنگال لانسر کے سپاہیوں نے بغاوت کر کے دلی کی جانب کوچ کیا تھا. اس جنگ کے شعلے دہلی پہنچے اور 11/مئی سنہ 1857 بروز پیر مطابق 16رمضان المبارک کو وہاں بھی جنگ شروع ہوگئی . اس جنگ کا دورانیہ (10 مئی 1857ء–تا یکم نومبر 1858ء)

1 سال 5 ماہ 22 دن ہوتا ہے.

سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ اچانک شروع ہو گئی؟ کیا اسے پہلی جنگ آزادی قرار دیا جاسکتا ہے؟؟

جب کہ سچائی یہ ہے کہ اس سے پہلے ملک کی آزادی اور اس کے دفاع کے لیے مسلح جدوجہد کی ایک عظیم تاریخ ہے. کئی ایسی محاذ آرائیاں اور کشت و خون کے واقعات پہلے سے رونما ہوتے رہے جو 1857 کی جنگ کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوئے … یہ سوالات پہلے صرف اخبارات ورسائل؛اور اہل تاریخ کے درمیان زیر بحث رہا کرتے تھے؛ لیکن ملک کے ایوان اقتدار میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اس بحث کو اہل اقتدار سے لے کر ملک کے ہر محب وطن ذی علم اور صاحب شعور شہری تک پہنچا دیا.

 

1857 کے پس منظر میں پارلیمنٹ میں بحث :

 

مئی 2007ء کی ابتدائی تاریخ ہے ، ہندستانی پارلیمنٹ کا مرکزی ہال ہے ۔ صدر جمہوریہ، وزیراعظم اور معزز اراکین پارلیمنٹ سمیت ہندوستان کی تمام اہم اور معزز شخصیات موجود ہیں ۔

نائب صدر جمہوریہ اور ایوان بالا کے صدر نشین بھیرو سنگھ شیخاوت مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں ۔ موقع ہے پہلی جنگ آزادی ١۸۵۷کی ڈیرھ سوسالہ یادگار تقریبات کا۔

نائب صدر جمہوریہ کی ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی 1857 کے حوالے سے تقریر جاری ہے کہ اچانک ایک صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے اور پورے پارلیمنٹ میں ایک سناٹا چھا جاتا ہے ، حاضرین سرا پاحیرت بن جاتے ہیں۔ یہ آواز ہے : ڈپٹی اسپیکرایوان زیریں جناب چیرن جیت سنگھ اٹوال کا، جو نائب صدرجمہوریہ کے خطاب میں مداخلت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ۔ اس تقریب میں 1845 کی اس جنگ کا بھی تذکرہ ہونا چاہئے جو سکھوں نے انگریز کے خلاف لڑی ،جو بڑی حدتک 1857 کاپیش خیمہ ثابت ہوا ۔ان مجاہدین کو اس مو قع پر فراموش کرنا بڑی نا انصافی ہے ۔ جناب اٹوال کے اس صدائے احتجاج میں اکالی دل کے متعدد ممبران بھی شریک ہوئے. (روزنامہ قومی آواز مورخہ 2/مئی 2007) ۔

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو پہلی جنگ آزادی قرار دیئے جانے پر سکھ طبقہ سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ کے اس احتجاج نے بحث کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ۔ اورعلمی وفکری حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ۔ اس پس منظر میں ہر انصاف پسند یہ سوچنے پرمجبور ہو گیا کہ 1857 کی جنگ, آزادی کی پہلی جنگ ہونے کے بجائے ہمہ گیر آخری مسلح جنگ تو نہیں؟ اور اسے پہلی جنگ قرار دے کر دانستہ یا نادانستہ طور پر ہم ان سرفروشان ملت اور فرزندان وطن مجاہدین آزادی کی حق تلفی تو نہیں کر رہے ؟ جنہوں نے اپنے وطن کے دفاع کیلئے ۱۸۵۷ء سے قبل قربانیاں دیں، جن کے خون کی خوشبو کے جھونکے آج بھی پلاسی کے میدان اور قلعہ میرقاسم مونگیر کے کھنڈرات سے رہ رہ کر آتی رہتی ہے ۔ جن کے ایثار و قربانی کی گواہی بکسر کا مقتل، سرنگا پٹم کے کھنڈرات ، قلعہ ٹونک ودہلی کے باقیات اور معرکہ بالاکوٹ کی پہاڑیاں اور عظیم آباد (پٹنہ) کے محلہ صادق پور کی تنگ و تاریک گلیاں آج بھی بانگ دہل دے رہی ہیں ۔ ان کی حوصلہ مندی کے نشانات آج بھی گوالیار، ناگپور، احمد آباد ، بڑودہ ، پونا،مالوہ، بھوپال، جھانسی، لکھنؤ اور آگرہ کے تاریخی مقامات بلکہ ملک کے چپہ چپہ پر آج بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم اس موقع پر ان کی لازوال قربانیوں کو فراموش کرتے ہیں تو یہ بڑی ناسپاسی کی بات ہوگی۔

جو قوم اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتی ہے تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرتی ہے.

ضرورت ہے کہ انگریز کی ہندستان آمد سے لیکر ۱۸۵۷ء تک کی تاریخ کا مکمل انصاف اور حقیقت پسندی کے ساتھ از سر نو جائزہ لیا جائے اور گل کردہ شمع کو پھر سے جلایا جائے ۔

” نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے ”

مزید یہ کہ بھر پور قوت کے ساتھ ان حقائق کو سامنے لایاجائے جنہیں جان بوجھ کر بھلایا یا نظرانداز کیا جارہا ہے: ہدی را تیز تر می خواں چوں محمل را گراں بینی ۔

 

سرزمین هند پر مغربی اقوام کی یلغار :

 

ہندوستان متنوع ثقافت اور رنگارنگ تہذیب کا حامل ایک عظیم ملک ہے. یہ ملک اپنے قدرتی وسائل: زرخیز زمین، بیش قیمت پیدا وار، زیر زمین دفن معدنیات ودیگر کئی اسباب کی وجہ سے ہمیشہ غیر ملکی تاجروں کی آماجگاہ رہا ہے. ہندوستان کے ساتھ کئی ملکوں کے تجارتی تعلقات تھے لیکن عربوں کے ساتھ یہاں کے تجارتی تعلقات سب سے زیادہ وسیع اور مستحکم تھے. یہ روابط بہت زمانے سے چلے آ رہے تھے۔ پندرھویں صدی کے اختتام تک بحر ہند اور بحیرۂ قلزم پر اسی طرح زیادہ تر اہم تجارتی بندرگاہوں پر عربوں کی مضبوط پکڑ تھی ۔

دوسری طرف اہل یورپ بھی سمندری تجارت پر اپنی بالادستی کے لیے کوشاں تھے. اسی کی ایک کڑی کے طور پر وہ ایک عرصہ سے ہندوستان سے رابطہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اس مہم جوئی میں انھیں اب تک کامیابی نہیں ملی تھی.

ہندوستان پہنچنے کے لیے ہفت خوان عالم کی اسیری کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی، لیکن جب پرتگالیوں نے اس سمت میں جاں توڑ کوشش کی اور بالآخر پرتگالی جہاز راں واسکوڈے گاما ہندوستانی سمندری راستے کی دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا. تو صورت حال یکسر بدل گئی.

کہا جاتا ہے کہ واس کوڈے گاما ایک پرتگالی بحری قزاق تھا. جس نے یورپ سے جنوبی افریقہ کے گرد گھوم کر ہندوستان تک بحری راستہ دریافت کیا اور مہم جوئی اور تجارت کی ایک نئی دنیا کی داغ بیل ڈالی ۔ وہ 1469ء میں پرتگال میں پیدا ہوا اور 1524ء میں کوچی(کیرالا) میں وفات پاگیا۔ اس زمانے میں یورپی حکمران اپنے ملک سے باہر ڈکیتی جائز سمجھتے تھے.

اس دریافت کے بعد سو سالوں تک پرتگالیوں کو مشرق کے ساتھ مصالحوں کی تجارت پر برتری حاصل رہی۔

واسکوڈے گاما 20 مئی 1498 کو کالی کٹ ہندوستان پہنچا تھا۔ اس سے چار سال قبل کولمبس امریکہ دریافت کر چکا تھا، جبکہ مغل فرماں روا ظہیر الدین محمد بابر نے 1526 ء میں دہلی کے تخت نشین ہوئے.

دوسری طرف کچھ ہی عشرے قبل 1453ع میں عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرکے یورپ کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔اور آبنائے باسفورس پر تسلط قائم کرکے یورپ کی تجارتی راہداری کو مسدود اور محدود کردیا تھا. اس پس منظر میں مغربی اقوام نئے جہاں کی جستجو میں تھیں، واسکوڈی گاما نے ان کی مہم جوئی کو آسان بنا دیا تھا.

بہر حال یہ دریافت تاریخی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ثابت ہوا ۔ کیوں کہ اس کے ذریعہ مغربی قوموں کیلئے ہندوستان کے دروازے کھل گئے. پہلے وہ یہاں کی تجارت پر حاوی ہوئیں. پھر سیاسی لوٹ گھسوٹ اور استحصال کے ذریعے انھیں اقتدار اعلیٰ کے حصول کے مواقع بھی حاصل ہوئے ۔ اس کی بدولت یورپ کی بحری تنہائی ختم ہو گئی، دنیا کی مخالف سمتوں میں واقع مشرق و مغرب پہلی بار سمندری راستے سے ایک دوسرے سے نہ صرف جڑے بلکہ ٹکرا گئے، بحرِ اوقیانوس اور بحرِ ہند آپس میں منسلک ہو کر ایک شاہراہ بن گئے اور دنیا کی تاریخ نے ایک نئی کروٹ بدلی۔

دوسری طرف یہ کسی یورپی ملک کی جانب سے ایشیا و افریقہ میں نوآبادیات قائم کرنے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا، جس کے باعث درجنوں ملک صدیوں تک بدترین استحصال کی چکی میں پستے رہے جس سے نکلنے کی خاطر وہ آج بھی ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔(ظفر سید. بی، بی سی. اردو. 9/جولائی 2018)

واسکوڈی گاما کے بعد پرتگالی تجار کا ہندوستان آنا جانا رہا. اور اس خطے کی تجارت پر ان کی مضبوط پکڑ قائم ہوگئی.

 

برطانوی تاجروں کی آمد :

 

اس کے بعد یورپ کی دیگر اقوام بالخصوص برطانیہ کے جہاز رانوں اور تاجروں نے اس تجارت میں پرتگالیوں کی اجارہ داری کو للکارنا شروع کر دیا۔اور اپنی بالا دستی کی کوششیں شروع کیں.

اس حوالے سے تھامس اسٹیونس نامی انگریز خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ کیوں کہ وہ پہلا انگریز تھا جو 1579ء میں ہندستان آیا اور اس نے سالسٹ کے مقام بر نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ اسی طرح1583 ء میں تین انگریز سوداگر خشکی کے راستے ہندوستان آئے ۔

 

ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام اوراسکا استحکام : –

 

لندن کے سرجیمز لینکاسٹر سمیت دو سو سے زائد برطانیہ کے بااثر شخصیات اور تاجروں نے برطانوی حکومت سے مشرقی ممالک، بالخصوص ہندوستان میں تجارت کرنے کی اجازت طلب کی ۔ 31 دسمبر 1600ء کو ملکہ ایلزبتھ نے ایک چارٹر (منشور ) کے ذریعہ اس کی اجازت دے دی۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی وجود پذیر ہوئی ۔

تقریباً ڈیڑھ سو سال تک یہ کمپنی صرف تجارت تک محدود رہی… لیکن اس کے بعد حکومت پر بھی مسلط ہوگئی. برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کا دورانیہ 1612تا –1757 کل ایک سو پینتالیس سال بنتا ہے.

 

کمپنی راج1757–1858:

 

اس زمانے میں یورپ کی بڑی طاقتیں، پرتگال اور اسپین، تجارت میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ چکی تھیں ۔ تاجروں کے روپ میں برطانوی قزاق ان کے تجارتی جہازوں کو لوٹنے پر اکتفا کرتے تھے.

 

پہلی برطانوی تجارتی کوٹھی :

 

1613ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے گجرات میں سورت کے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی، اس زمانے میں اس کی تجارت انڈیا کے ساتھ ساتھ جاوا اور سماٹرا وغیرہ سے تھی۔ جہاں سے مصالحہ جات برآمد کرکے یورپ میں بھاری داموں پر فروخت کیا جاتا تھا.

تجارت کے لئے مغل شہنشاہ محمد سلیم جہاں گیر کی رضا حاصل کرنے کے لیے نیم خواندہ ہاکنز نامی برطانوی تاجر نے بڑی کوششیں کی لیکن وہ ناکام رہے۔ اس کے بعد1615میں انگلستان کے بادشاہ جیمز اول نے برطانوی رکن پارلیمان اور سفارت کار سر تھامس رو کو مغل شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں سفیر اور ایلچی کے طور پر بھیجا ۔ وہ 1615 میں مغل دارالحکومت آگرہ پہنچے۔ بادشاہ کو شکاری کتوں اوران کی پسندیدہ مشروبات سمیت کئی بیش قیمت تحائف پیش کیے۔

اس نے جہانگیر سے ہندوستان میں تجارت کرنے کی اجازت طلب کی ۔ ساتھ ہی یہ منشا بھی ظاہر کیا کہ ہم اس ملک میں تجارتی کمپنیاں لگانا چاہتے ہیں. جس سے دونوں ملکوں کی تجارتی و معاشی حالت مستحکم ہوگی. تجارت کا فروغ اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا؛ شہنشاہ جہانگیر اس کے خفیہ مقاصد کو نہیں سمجھ سکا اور اس کے دام تزویر میں پھنس گیا اس نے کمپنی کو نہ صرف یہ کہ تجارت کی اجازت دے دی ؛ بلکہ کمپنی کو ٹیکس کی معافی کا پروانہ بھی مل گیا۔ (اے نیو ہسٹری آف انڈیا، اردو ایڈیشن، ایشوری پرشاد ص: 294)دی انڈین پریس لمیٹڈ الہ آباد1953)

 

لمحوں نے خطا کی تھی :

 

اس وقت مغل فرمانروا جہانگیر انگریزوں کے شاطرانہ عزائم اور مستقبل میں پیش آنے والے خطرات کو قطعاً نہیں بھانپ سکا اور نہ یہ محسوس کرسکا کہ اس کا یہ معمولی اجازت نامہ مستقبل میں کیا کچھ گل کھلائے گا ۔ اور

"لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی” کے مصداق اس لمحے بھرکی غلطی کی سزا ملک کے باشندوں کو صدیوں بھگتنا پڑے گی

عالم گیر کی اجازت کی مطابق سورت میں انگریزوں کا پہلا تجارتی مرکز قائم ہوا۔ اس کے علاوہ کولکاتا ، مدراس مسولی پٹنم(مشرقی ساحل) اور ممبئی میں بھی انگریزوں کے تجارتی مراکز قائم ہوئے اور نو آبادیاں قائم ہوئیں، تقریباً سو سال تک انھوں نے اپنے آپ کو تجارت تک محدود رکھا اور طویل المیعادی منصوبہ کے طور پر بڑی خاموشی سے اہم تجارتی مقامات پر اپنی بنیاد اور اپنے قدم کو مضبوط کرلیا اور ہندوستانی تجارتی منڈیوں پر اپنا شکنجہ کستےرہے. ہندوستانی منڈیوں میں لوٹ کھسوٹ کر سارا سرمایہ برطانیہ منتقل کرتے رہے.

کمپنی کا اثرو رسوخ اتنا بڑھا کر لگان وصول کرنے کی ذمہ داری مقامی رجواڑوں اور نوابوں نے کمپنی کے حوالے کر دیا۔

 

تجارت سے سیاست و اقتدار کی طرف :

 

اب کمپنی کا مطمح نظر تجارتی منافع اور لگان کی زیادہ سے زیادہ وصولیابی تھا.

کمپنی کے زیادہ ترافسران انگلستان کے روساء وامراء کے صاحب زادے ہوا کرتے تھے، ہندوستان میں زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھا کرنے اور یہاں لوٹ کھسوٹ مچانے آتے تھے.

کمپنی کی دولت کی فراوانی کو دیکھ کرخود برطانیہ کے ممبران پارلمنٹ کے منہ میں بھی پانی آنے لگا اور وہ بھی اس لوٹ کھسوٹ میں اپنی حصہ داری کا مطالبہ کرنے لگے. کچھ دنوں بعد انھوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو "کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کردیا اورا ٹھارہویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں ہندستان کے چھوٹے چھوٹے علاقوں پر قابض ہو گئے، اگرچہ کمپنی نے شروع میں اپنے تجاری عزائم ظاہر کئے تھے مگر استحکام اور قوت کے بل بوتے پر کمپنی کی نظم ونسق قیادت اور جنگ سے بھی دلچسپی لینے لگی. خاص طور پر کلکتہ میں انگریزوں نے سازشوں کا جال بن کر اس پر مکمل حاوی ہونے کی کوشش کی۔ یوں تو ۱۶۳۳ ء سے ہی بنگال میں کمپنی کی چھوٹی چھوٹی ٹکریاں موجود تھی پھر انہوں نے ۱۶۵١ء میں ہگلی کے مقام پر ایک بڑا کارخانہ قائم کیا. تو کلکتہ کو ایک بڑے تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی اوراسے انگریزوں کے پایۂ تخت کا درجہ مل گیا ۔

1670 ع میں برطانوی بادشاہ چارلس دوم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو بیرون ملک جنگ کر کے نو آبادیاں قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ برطانوی اسلحہ سے لیس کمپنی کی فوج نے سب سے پہلے ہندوستان میں پرتگالی، ولندیزی اور فرانسیسی حریفوں سے مقابلہ کیا اوربیشتر جنگوں میں فتح یاب رہی۔ رفتہ رفتہ اس نے بنگال کے ساحلی علاقوں پر قدم جما لئے۔

 

پرتگالیوں سے جنگ :

 

بنگال کے حکمراں کی اجازت سے پرتگال کے تجارت پیشہ افراد ہگلی (بنگال) میں آباد ہو گئے تھے۔ انھوں نے وہاں اپنی نو آبادیات قائم کر لیں اور خفیہ طور پر آلات جنگ و حرب حاصل کرکےجنگی طور پر مستحکم ہو گئے تھے؛ انہوں نے اپنے کو اچھی طرح قلعہ بند بھی کر لیا تھا پھر رفتہ رفتہ اپنی فوجی قوت میں مزید اضافہ کرتے رہے ۔

مغل فرمانروا شاہ جہاں کو جب ان کی کارستانیوں کا علم ہونا تو وہ پرتگالیوں کی اس روش سے سخت ناراض ہوئے، خاص طور پر اس لیے بھی کہ پرتگالیوں نے اپنے افسروں کے ذریعے سے تجارتی مال پر چنگی لگائی اور سلطنت کی آمدنی کو نقصان پہونچایا ۔ اس کے علاوہ وہ طرح طرح کی لالچ دے کر یہاں کے عام لوگوں کو عیسائی بھی بنانے لگے اور کبھی کبھی اس سلسلے میں زبر دستی بھی کر جاتے تھے۔ سب سے بڑھ کر زیادتی یہ کی کہ ملکہ ممتاز محل کی دو باندیاں پر تگالی مشنریوں نے زبر دستی پکڑلیں۔ بادشاہ اس بات سے بےحد ناراض ہوئے اور ان کو سزا دینے کا ارادہ کرلیا۔ شہنشاہ کے حکم سے بنگال کے حاکم قاسم خان ان پر یلغار کیا اور ہگلی کو چاروں طرف سے گھیرلیا. پرتگالیوں نے مقابلہ کیا لیکن آخر میں انھیں شکست ہوئی اور تقریباً ان کے دس ہزار سپاہی قتل ہوئے اور بے شمار گرفتار کرلئے گئے۔

اے نیو ہسٹری آف انڈیا؛ اردوایڈیش. ص297)

 

اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں :

 

شاہ جہاں کے بعد محی الدین اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں حالات نے کروٹ لی. انگریزوں کے لیے حالات سازگار ہوگئے. ہوا یوں کہ ایک برطانوی سرجن” گوبریل بوتھم” نے اورنگزیب کا علاج ومعالجہ کیا. اس کے کامیاب علاج سے خوش ہو کر اورنگزیب نے اسے ایک بڑی اراضی تحفہ میں عطا کی. ان اراضی پر 1667 میں کلکتہ شہر کی تعمیر نو کی بنیاد پڑی کی اور "فورٹ ولیم "قائم کیا گیا.

مگر یہ بھی اتفاق ہے کہ سترھویں صدی میں انگریز صرف ایک بار مغلوں سے نبرد آزما ہوئے۔

واقعہ یہ ہے کہ 1681 میں کمپنی کے ڈائریکٹر سر چائلڈ سے ان کے اہل کاروں نے شکایت کی کہ بنگال میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے بھانجے نواب شائستہ خان کے اہل کار ٹیکس اور دیگر معاملات میں انھیں تنگ کرتے ہیں۔ چائلڈ نے اپنے بادشاہ کو فوجی مدد کے لیے خط لکھا۔ چنانچہ 1686 میں لندن سے ایک بڑا بحری بیڑا بنگال کی طرف روانہ ہوا جس میں انیس جنگی جہاز، دو سو توپیں اور چھ سو فوجی سوار تھے۔ ادھر مغل بادشاہ کی فوج بھی تیار تھی زبردست مقابلہ ہوا، عالمگیر کی فوج بے جگری سے لڑی نتیجہ یہ نکلا کہ اس جنگ میں عالم گیر کی افواج کو فتح حاصل ہوئی ۔

سنہ 1695 میں ایک برطانوی بحری قزاق ہنری ایوری نے اورنگزیب کے بحری جہاز ’فتح محمد‘ اور گنج سوائی کو لوٹ لیا تھا۔جس میں عالمگیر کا خزانہ سوار تھا اس خزانے کی مالیت چھ سے سات لاکھ برطانوی پاونڈ تھی۔

تاریخ دان ولیم ڈیل رمپل کا کہنا ہے کہ برطانوی فوجیوں کو مغل فوج نے مکھیوں کی طرح مارا اور اس کے بعد کمپنی کی بنگال میں پانچ فیکٹریوں کو تہس نہس کر کے سب انگریزوں کو بنگال سے نکال باہر کیا۔

سورت کی فیکٹری بند کر دی گئی جبکہ بمبئی کو بلاک کر دیا گیا۔ کمپنی کے ملازمین کو زنجیروں سے باندھ کر شہروں میں گھمایا گیا اور ان کو چوروں اور قاتلوں کی طرح شدید ہتک کا نشانہ بنایا گیا۔ کمپنی کے پاس معافی مانگنے اور اپنی فیکٹریوں کی واپسی کے لیے بادشاہ کے دربار میں بھکاریوں کی طرح پیش ہونے کے سوا چارہ نہ رہا۔

تاج برطانیہ نے ہنری ایوری کی سرکاری سطح پر مذمت کی اور مغل بادشاہ سے معافی مانگی۔چنانچہ اورنگزیب عالم گیر نے 1690 میں کمپنی کو معاف کر دیا.

 

اورنگزیب کے بعد انگریزوں کی دسیسہ کاریاں :

 

سنہ 1707 میں بادشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد مختلف علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ کمپنی نے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقامی افراد پر مشتمل لاکھوں کی فوج تیار کی جسے یورپ میں صنعتی انقلاب کی بدولت جنگی ٹیکنالوجی میں بھی برتری حاصل ہو گئی۔ یہ چھوٹی مگر مؤثر فوج مغلوں، مرہٹوں، سکھوں اور مقامی نوابوں کی پرانی ٹیکنالوجی سے مسلح بڑی فوجوں کو ایک ایک کر کے شکست دیتی گئی۔

لیکن جب فر خ سیر نے اپنے عہد ۱۷۱۳ ، ۱۷۱۹ء میں انگریز کو بنگال میں ٹیکس ادا کئے بغیر تجارت کی اجازت دیدی توان کا اثر و رسوخ پورے علاقہ پر مزید مستحکم ہوگیا. مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہدمیں ان کی بھاری بھرکم شخصیت کی وجہ سے انگریز کسی حد خائف رہے ۔ اور انھوں نے اپنے سیاسی عزائم کو طشت از بام نہیں ہونے دیا؛ لیکن جوں ہی ۲۱ فروری 1707 میں ان کا انتقال ہوا اور ان کے ناخلف جانشیوں میں اقتدار کی جنگ ہونے لگی تو انگریز بھی ہوس ملک گیری کے ساتھ بے نقاب ہوکر میدان میں آگئے.

 

انگریز ہندوستان میں اقتدار اعلیٰ کے حصول کے لیے پر تولنے لگے:

 

1739میں جب نادر شاہ نے ہندستان پرایک خطرناک حملہ کیا اورسلطنت مغلیہ پر ایک کاری ضرب لگائی توانگریز ہندوستان میں اقتدار اعلی قائم کرنے کیلئے پر تولنے لگے ۔ یہاں تک کہ وہ بنگال پر قبضہ کی منصوبہ بندی کر نے لگے.

ولیم ڈیل رمپل اپنی کتاب ‘دی انارکی دا ری لینٹ لس رائز آف ایسٹ انڈیا کمپنی’ میں لکھتے ہیں کہ یہ تاریخ کی ایک منفرد مثال ہے؛ جس میں اٹھارویں صدی کے وسط میں ایک نجی کمپنی نے اپنی زمینی فوج اور بحریہ کی مدد سے 20 کروڑ لوگوں پر مشتمل ایک پوری قوم کو غلام بنا دیا تھا۔(بحوالہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)

 

بنگال پر قبضہ کی کوشش اور سراج الدولہ کا کامیاب دفاع:

 

1756اٹھارہویں صدی میں بنگال نے ایک آزاد ملک کا درجہ حاصل کر لیا۔ مغل حکومت کو پچاس فیصد آمدنی اسی ریاست سے حاصل ہوتی تھی۔ بنگال ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں ٹیکسٹائل اور جہاز سازی کا بہت بڑا مرکز تھا۔ علاقے کے لوگ ریشم، سوتی ملبوسات، اسٹیل، پوٹاشیم نائٹیریٹ اور زرعی و صنعتی سامان برآمد کر کے خوب کماتے تھے۔

شروع میں مرشد قلی خان بنگال کے مغل گورنر تھے. لیکن ان کی حکمرانی خود مختار تھی ۔ان کے بعد انکے داماد نے 1739 تک حکومت کی. بعدازاں علی وردی خان حاکم بنے اور 1741 میں اپنے خود مختار ہونے کا اعلان کر دیا. علی وردی خان کے زمانہ میں بھی انگریز سے کشمکش جاری رہی؛

فورٹ ویلیم پر یلغار :

 

1756 میں جب علی وردی خان کا انتقال ہوا؛ تو انکے جانشین جواں مردو جواں سال نواب سراج الدولہ بنے، تو کشمکش میں اوراضافہ ہو گیا؛ وہ بنگال میں انگریزکی موجودگی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے زمانہ میں سراج الدولہ کے خلاف انگریزوں نے اشتعال انگیز کاروائیاں کیں اس کے جنگجو کلکتہ میں قلعہ بند ہو گئے ۔ اور فورٹ ولیم کی دیواروں پر توپوں کو نصب کردیا ۔ اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے سراج الدولہ کے جنگی مجرموں کو بھی اپنے پاس پناہ دینا شروع کردیا ۔ ان باغیانہ کارروائیوں سے سراج الدول سخت مشتعل ہو گئے؛ کیوں کہ انہیں کی مملکت میں ان کی حاکمیت کو چیلنج کیا جارہا تھا۔جب کمپنی نے کلکتہ میں اپنے قلعوں کی توسیع شروع کر دی اور اپنی سپاہ کی تعداد بھی بڑھا دی، تو نواب نے کمپنی کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنے دائرہ کار میں اضافہ نہ کریں۔ حکم عدولی پر انگریز کی نکیل کسنے اور انھیں سبق سکھانے کیلئے سراج الدولہ نے اپنی فوج کےساتھ انگریزوں پر حملہ کردیا ۔ انگریزوں کے کئی قلعے اپنے قبضے میں لے لئے ، انگریز قیدیوں کو فورٹ ولیم کے تہہ خانے میں قید کر دیا گیا۔ قاسم بازار میں قائم انگریزوں کی فیکٹری پر قبضہ کر لیا

جون 1756 ء میں کلکتہ کی طرف پیش قدمی کی. کلکتہ کی لڑائی میں بھی بے شمار انگریز قیدی بنا لئے گئے۔ اور نواب سراج الدولہ کو شاندار فتح حاصل ہوئی۔

 

جنگ پلاسی، دفاع وطن کی پہلی باضابطہ جنگ :

 

کلکتہ کی جنگ میں انگریز کی شکست کی خبر جیسے ہی مدراس پہنچی؛ انگریز میں صف ماتم بچھ گئی اور فوری اقدام کے تحت رابرٹ کلائیو کی سرکردگی میں ایک فوج بنگال روانہ کی گئی اور ایک بحری فوج ایڈمرل واٹمین کی سرکردگی میں کلکتہ بھیجی گئی لیکن انگریز کو خوب معلوم تھا کہ نواب سراج الدولہ کوئی نوالہ تر نہیں کہ ا سے فورا نگل لیاجائے؛ بلکہ وہ شیر دل مجاہد ہے جس کی ایک دھاڑ سے انگریزی فوج کے پانی پتے ہو سکتے ہیں۔ لہذا رابرٹ کلائیو نے وہ پلان تیار کیا جو انکے آبا و اجداد کا صدیوں کا آزمایا ہوا نسخہ تھا؛ یعنی مال ومتاع ، دولت وعزت اور زن و زر کی لالچ دے کر غداران قوم ابن الوقتوں کو تیار کرنا۔ اور اسے اپنے اشارۂ ابرو کے مطابق استعمال کرنا.

 

ننگ دیں، ننگ قوم ، ننگ وطن:

 

چنانچہ رابرٹ کلائیو نے سازش کا ایک جال بنا، جس کا مقصد شیر دل نواب؛ نواب سراج الدولہ کواقتدار سے بےدخل کر کے اس کی جگہ اپنے حاشیہ بردار پٹھو کو بٹھانا اور پورے بنگال پر انگریز کے ظالمانہ پنجے کو مستحکم کرنا تھا.

اس مقصد کے لیے ضمیرفروشی کا تمغۂ ذلت سراج الدین کے سپہ سالار اعظم میر جعفر کے سر باندھنا طے پایا، اس نے اپنے ضمیر اپنی حمیت و غیرت کو انگریزوں کے بھینٹ چڑھا کر قوم کی پشت میں خنجر مارنے کے لئے اپنے ہم مشربوں کی ایک ٹولی تیار کی، جس میں نواب کی فوج کے کئی عہدیداران شامل تھے. سازشوں کا جال بچھا کر رابرٹ کلائیو نے تین ہزار دوسو سپاہیوں پر مشتمل فوج کے ساتھ بنگال کے پایۂ تخت مرشد آباد کی طرف پیش قدمی کی. مقابلے کے لئے سراج الدولہ کے پاس انگریزوں سے کئی گناہ زیادہ پچاس ہزار کی فوج تھی لیکن یہ تعداد محض” ہاتھی کے دکھانے کے دانت” کے مصداق تھی. حقیقت میں اتنی بڑی فوج کا سپہ سالار میر جعفر ذیلی کمانڈروں کے ساتھ پہلے ہی بک چکا تھا اور انگریزوں سے خفیہ اتحاد کر چکا تھا.

دونوں فوج جون( 1757) سترہ سو ستاون کو پلاسی کے میدان میں مدمقابل ہوئیں. پلاسی کلکتہ سے 70 میل کے فاصلے پر دریائے بھاگیرتی کے کنارے، قاسم بازار کے قریب واقع ہے ، سراج الدولہ کے تصور کے برعکس ان کی فوج کا بڑا حصہ جو دھوکے بازوں اور غداروں پر مشتمل تھا؛ اس نے لڑائی میں عملاً کوئی حصہ نہیں لیا اور میر جعفر محض ایک کرائے کے ٹٹو کی طرح تماشائی بنا رہا.

نواب کی وفادار فوج نے جان کی بازی کے ساتھ مقابلہ کیا گھمسان کا رن پڑا. لیکن تا بکے؟؟ سراج الدولہ کو گرفتار کر لیا گیا اور انہیں بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا؛ بلاشبہ دفاع کے نام پر شہید ہونے والے پہلے نواب تھے. وہ ایک سورج تھے جن کے غروب ہونے کے ساتھ ہی گھٹا ٹوپ تاریکی تقریباً پورے ہندوستان پر چھا گئی.

حسب وعدہ انگریزوں نے میر جعفر کو بنگال کا نواب بنا دیا اور اس نے انگریزوں کو وہ تمام رعایتیں بحال کردیں جو سراج الدولہ نے منسوخ کردی تھیں.

اسی طرح انگریز بہار و بنگال کے مالک بن گئے؛ جنگ پلاسی کی فتح اور بنگال کے لوٹ کے کھسوٹ سے انگریز کو وسیع تر مالی وسائل حاصل ہوئے؛ جس کے ذریعے انہوں نے بھاری افواج تیار کرنا شروع کر دیا.

(مستفاد از”ہندوستان کی تاریخ. ازخان بہادر شمس العلماء مولوی محمد ذکاء اللہ دہلوی: مطبوعہ 1915ء مطبع انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ، برطانوی ہند۔ج:9 ص:262)

 

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم :

 

میر جعفر نے عہدے کی لالچ میں بدترین غداری کے ذریعے اپنی پوری قوم کو سات سمندر پار کے رہنے والے انگریزوں کی غلامی میں ڈال دیا اور حسب وعدہ وقتی طور پر بنگال کا نواب بھی بن گیا؛ لیکن مشہور مثل ہے: "دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا "قوم کی نظر میں مبغوض ہوکر بھی انگریزوں کا محبوب نہ بن سکا. "نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم_ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے.”

میر جعفر اپنے آقا انگریز کے نت نئے مطالبات اور بھاری بھرکم ٹیکس کی ادائیگی پر قادر نہیں تھا. میر جعفر کا کام مکمل ہوچکا تھا.

اب انگریزوں کی نظر میں اس شخص کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ گئی تھی

پٹے ہوئے مہرے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رہ گئی تھی؛ لہذا اسے معزول کر کے ایک ایسی شخصیت کو اپنی دانست میں اپنا مہرہ بنانا چاہا جو” برعکس نہند نام زنگی کافور” کے بموجب انگریزوں کے تصورات کے برعکس ثابت ہوا.

 

قلعہ مونگیر. دفاعی افواج کا دوسرا مستقر :

 

نئے نواب کا نام میر قاسم تھا ؛ جنہوں نے مرشدآباد کے تخت پر بیٹھتے ہی انگریزوں کے تمام منصوبوں پر پانی پھیرنا شروع کر دیا. میر قاسم اپنے خسر میر جعفر کے برعکس تعلیم یافتہ اور زیرک تھے . معاملہ فہم، خود دار اور مالیاتی امور میں مہارت کے حامل تھے . انھوں نے مال گزاری میں اضافہ کیا اور صوبہ کو ترقی دی؛ وہ چونکہ خود دار تھے، اس لیے اسے انگریزوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بننا قطعا گوارا نہیں تھا؛ لہذا انگریزوں کے احکامات ماننے سے صاف انکار کردیا؛ بلکہ انھوں نے انگریزوں کو ملنے والی ان تجارتی رعایتوں کو بھی ختم کر دیا؛ جو انہیں پہلے سے حاصل تھیں.. انھوں نے سب سے بڑا کارنامہ یہ انجام دیا کہ منافقین کی آماجگاہ اور سازشیوں کے جمگھٹے "مرشد آباد” سے ہٹ کر دور آزادی کے ساتھ حکمرانی کرنے کے لیے دفاعی لحاظ سے اہم ترین شہر ” مونگیر” کو اپنا دار السلطنت بنایا؛ جو دو اطراف سے دریائے گنگا اور دو اطراف میں پہاڑی سلسلے سے گھرا ہوا ہے؛ انہوں نے دریائے گنگا کے کنارے کشادہ اور مضبوط قلعہ کو اپنا مستقل مرکز بنایا. جس میں ایمرجنسی حالات کے لئےمتعدد سرنگیں تھیں، جن کے باقیات کا مشاہدہ آج بھی کیا جا سکتا ہے.( عاجز راقم السطور نے متعدد بار اس قلعہ اور اس میں واقع سرنگوں کا مشاہدہ کیا ہے) یہاں انہوں نے از سر نو فوج کی تیاری کے لیے اقدامات کیے.

میر قاسم کی خود داری اور آزادی عمل انگریز کو پسند نہیں آئی؛ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میر قاسم کو انگریز اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے ۔ چنانچہ انگریز حکام نے بنگال کی حکمرانی سے میر قاسم کو معزول کر کے دوبارہ اپنے پٹے ہوئے مہرے میر جعفر کو بنگال کا نواب بنا دیا۔

 

جنگ بکسر 1764 ء :

 

بنگال اور بہار کی سلطنت کا سقوط مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کے لیے دھچکے سے کم نہ تھا۔ لیکن تدبیر کی کمی، منصوبہ سازی کے فقدان اور اراکین سلطنت کی غداریوں کی وجہ سے اب تک اس کے تدارک کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کر سکا تھا۔ اس لیے جب میر قاسم کو بنگال کی حکم رانی سے بے دخل کر دیا گیا؛ تو انھوں نے مختلف نوابوں خاص طور سے اودھ میں مغل شہنشاہ کی طرف سے وزیر اعظم شجاع الدولہ اور مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کو انگریز کے مقابلے کے لیے جہاد کی دعوت دی، ان کی رگ حمیت کو جھنجوڑا اور انگریزوں سے لوہا لینے کے لیے للکارا۔ چنانچہ نقیبِ اتحاد میر قاسم کی تگ ودو، نوابِ اودھ وزیر اعظم شجاع الدولہ اورشہنشاہ شاہ عالم ثانی پر مشتمل ایک جمعیت تشکیل دی گئی ۔

ان تین طاقتوں کی مشترکہ پچاس ہزار کی فوج کا وزیر اعظم شجاع الدولہ کی قیادت میں انگریز کی سات ہزار فوج کے ساتھ ۲۳/ اکتوبر 1764 ء میں بکسر کے مقام پر مقابلہ ہوا ۔ انگریزی افواج کی قیادت میجر جنرل ہیکٹر منگرو نے کی… لیکن وائے افسوس آپسی تال میل کے فقدان ، کچھ ابن الوقتوں کی دغا بازی اور مفادات کے ٹکراؤ کا نتجہ شجاع الدولہ کے زیر قیادت افواج کی شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ جنگ بکسر کے نتیجے میں اسلامی عظمت رفتہ اور مغلیہ سلطنت کی شان و شوکت کو بحال کرنے کا خواب نہ صرف یہ کہ تشنۂ تکمیل رہ گیا بلکہ اس شکست نے مسلمانوں کو مزید قعر مذلت میں ڈھکیل دیا۔ جنگ بکسر کے بعد میر قاسم لاپتہ ہو گئے. اس کے دو نو عمر صاحب زادگان گل اور صنوبر قلعہ مونگیر کے اندر ہی شہید کردیے گئے.

نواب شجاع الدولہ نے روہیلہ علاقہ میں پناہ لی اور جہاں تک خاندان تیمور یہ کے چشم و چراغ؛ مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی کا معاملہ ہے ، تو انھوں نے اپنے آپ کو اپنے سب سے بڑے دشمن انگریز کی پناہ میں دے دیا۔ شاید ایسے ہی مواقع کے لیے کہا گیا ہے "حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے ”

جنگ بکسر کے هولناك نتائج / کمپنی کا تسلط:

 

جنگ بکسر کے ذریعہ جنگ پلاسی کا ادھورا کام انگریزوں نے مکمل کر لیا اوربنگال و اڑیسہ پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کا دعوی مستحکم ہو گیا ۔

فروری 1765 میں ننگ وطن میر جعفر کا انتقال ہو گیا ۔ انگریزوں نے اس کےبیٹے نظام الدولہ سے ایک نئے عہد نامہ پر دستخط حاصل کر لیا ۔1765 میں مغل شہنشاہ شاہ عالم ثانی نے بنگال ، بہار واڑیسہ کی مال گذاری وصول کرنے کے اختیارات ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے دیئے اور بڑی بے غیرتی کہئے یا حالات کی ستم ظریفی وہ خود ایسٹ انڈیا کمپنی کا وظیفہ خوار بن گیا ۔

اس کا وظیفہ چھبیس لاکھ(260000) سالانہ مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد ایسے حالات بھی آئے جب کہ شاہ عالم نے خود کو مرہٹوں کی پناہ میں دے دیا اور الہ آباد اور کڑہ کے اضلاع ان کے حوالہ کر دیئے ۔ (ہندوستان کی تاریخ. ازخان بہادر شمس العلماء مولوی محمد ذکاء اللہ دہلوی: مطبوعہ 1915ء مطبع انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ، برطانوی ہند۔ج:9،10 ص:314)

صحیح معنوں میں یہیں سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کا باضابطہ آغاز ہوتا ہے۔ ہندوستان میں کمپنی کی حکمرانی کا یہ سلسلہ ” ‎۱۸۵۸ تک جاری رہا ، جب کہ برطانوی پارلیمنٹ نے کمپنی سے ہندوستان میں حکمرانی کے اختیارات سلب کرکے حکمرانی کے سارے اختیارات براہ راست اپنے ہاتھوں میں لے لیے ۔

ایسٹ انڈیا کمپنی ایک تجارتی کمپنی تھی مگر ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی فوج رکھتی تھی۔ جہاں تجارت سے منافع ممکن نہ ہوتا وہاں فوج اسے ممکن بنا دیتی۔ کمپنی کی فوج نے اگلے پچاس برس میں ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ ان علاقوں میں کمپنی کے باج گزار مقامی حکمران حکومت کرنے لگے۔ بظاہر اقتدار مقامی حکمرانوں کے ہاتھ میں تھا، مگر ہر ریاست کی بیشتر آمدنی انگریزوں کی تجوریوں میں پہنچ جاتی۔ عوام مجبور تھے.

مورخ سید حسن ریاض کے مطابق اس زمانے میں یہ بات زبان زد عام تھی: ’خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا۔‘

 

لوٹ کھسوٹ کی انتہا :-

 

ایسٹ انڈیا کمپنی کے سیاسی اختیارات کے قیام کے ساتھ ہی انگر یزوں نے کئی ترکیبوں سے ہندوستان کے معاشی وسائل کا استحصال کرنا شروع کر دیا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی نگرانی میں بدعنوانیوں کا بازار اس قدر گرم تھا اور کمپنی والے ہندوستان میں اس قدر لوٹ کھسوٹ کر رہے تھے کہ برطانیہ میں ان کے آقاؤں کو بھی یہ حرکت پسند نہ آئی اور مجبور ہو کر برطانوی پارلیمنٹ نے خواہی نہ خواہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ایک مذمتی قرار داد منظور کی۔ سرجارج کارنوال لیوی نے بھی اپنے بیان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی گھناؤنی حرکتوں کا پردہ فاش کرتے ہوئے کہا کہ یہ میں پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ 1765 سے ۔ 1784 تک ایسٹ انڈیا کمپنی کی جو حکومت رہی ہے، اس سے زیادہ راشی، دھوکہ باز اور ظالمانہ حکومت کا وجود کبھی بھی صفحہ ہستی پر نہیں رہا۔ اسی درمیان برطانوی پارلیمنٹ نے اپنے اختیارات کو مستحکم کرنے کے لیے ریگولیٹنگ ایکٹ منظور کیا ۔ اس قانون کے مطابق کمپنی سے بڑے اختیارات سلب کرلیے گئے اور کمپنی کے بجائے تاج برطانیہ کو ، بنگال کونسل کے ارکان اور کلکتہ میں سپریم کورٹ کے جج کی تقرری کی.

حافظ رحمت اللہ کی انگریزدشمنی:

۱۸۵۷ کے انقلاب سے پہلے جن مجاہدین نے انگریزوں کے خلاف زبردست عملی جہاد کرکے ہندوستان کی آزادی کا راستہ ہموار کیا ان میں ایک اہم اور معتبر نام حافظ الملک حافظ رحمت خان کا ہے۔ آپ کی ولادت قندھار افغانستان میں ۱۱۲۰ھ مطابق۱۷۰۸ء میں’’ روہ‘‘ نام کے ایک مقام پر ہوئی۔

حافظ رحمت اللہ اپنے عہدمیں اپنی شجاعت و بہادری ، جرأت وہمت اور جوش وجذبے کی بنیاد پر ملک دشمن طاقتوں کے لیے آہنی دیوار بنے ہوئے تھے۔ مرہٹوں سے جنگ کے درمیان احمد شاہ درانی کے دست وبازو کی حیثیت رکھتے تھے ۔مختلف علاقوں اور صوبوں کے سرداروں کی وقتاً فوقتاً فوجی اعانت کرنا فرض سمجھتے تھے۔ چنانچہ ۱۷۶۴ء میں شجاع الدولہ پٹنہ میں انگریزوں سے نبرد آزما تھا اس نے حافظ الملک سے امداد طلب کی توانہوں نے اپنے بیٹے عنایت خاں کی سرکردگی میں۶ہزار آزمودہ کار فوجی روانہ کیے جنہوں نے ۱۳جنوری ۱۷۶۱میں پانی پت جنگ میں شرکت کرکے شجاع الدولہ کی مدد کی. لیکن جنگ کے بعد شجاع الدولہ نے عنایت خاں کے خلاف کچھ سازشیں رچیں جس کی وجہ سے عنایت خاں اپنی فوج کے ساتھ اس سے جدا ہوگئے۔جدائیگی کے بعد شجاع الدولہ کو اپنی کمزور طاقت کا احساس ہوا۔اتنی کم طاقت سے وہ انگریزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا اسے فوجی اعانت کی بہت سخت ضرورت تھی اس نازک گھڑی میں بھی حافظ رحمت اللہ نے اس کی گزشتہ غداری اور بے وفائی کو فراموش کرکے اس کا ساتھ دیا۔

حافظ رحمت اللہ دراصل انگریزوں کے بہت سخت دشمن تھے۔ وہ احمد شاہ ابدالی کی مدد سے انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نکالنا چاہتے تھے۔ آپ کی انگریز دشمنی کا شہرہ دوردور تک ہوچکا تھا اس لیے انگریزان کو زیر کرنے کی فراق میں تھے؛ لیکن حافظ رحمت اللہ کے عزائم کی پختگی ،حوصلوں کی توانائی اوربے مثل شجاعت و بہادری اورنصرت خداوندی کی بناپراب تک انگریزاپنے اس منصوبے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے ۔آخر کار انہوں نے منظم سازش کے تحت شجاع الدولہ کو اپنا ہم نوا بنایا اور اس کام کے لیے شجاع الدولہ نے انگریزوں کا حلیف بن کر حافظ رحمت اللہ کی ساری وفاداریوں کو فراموش کرکے پہلے تو سردارانِ روہیل کھنڈ کو حافظ رحمت اللہ کے خلاف برگشتہ کیا اور پھر ان پر تقریباً ایک لاکھ پندرہ ہزار فوج لے کر چڑھائی کردی۔

حافظ رحمت اللہ کی شہادت:

جب صلح کی کوششیں ناکام ہوگئیں تو آپ کے شوقِ شہادت نے آپ کو مہمیز کیا اور اپنے فوجیوں کے سامنے فرمایا:

’’شہادت میرے دل کی آرزو ہے اپنے ملک کی حفاظت میں ایسی عزت کی موت مجھے پھر کب آئے گی‘‘

میدان جنگ میں قدم رکھتے ہی حافظ رحمت اللہ نے اپنی دلیری اور بہادری کے جوہر دکھانے شروع کردیئے ۔وہ انگریزوں کو تہ تیغ کرتے ہوئے شجاع الدولہ تک پہنچنا چاہتے تھے لیکن انگریزی فوج نے اپنی توپ کا دہانہ کھول دیا اور گولہ باری شروع ہوگئی۔ عین اسی وقت آپ کے حلیف چند روہیلہ سرداروں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ دیکھ کر پوری فوج منتشر ہوگئی اور حافظ رحمت اللہ کے پاس بہت کم فوجی رہ گئے لیکن پھر بھی حافظ رحمت اللہ نہایت جرأت وہمت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ آخر کار ایک گولہ ان کے سینے پر لگا اور فوراً ہی آپ کی روح آپ کے جسم کے پنجرے سے آزادہوگئی۔جنگ کرتے ہوئے حافظ الملک کی اس عظیم الشان شہادت کا واقعہ۱۱صفر۱۱۸۸ھ مطابق ۲۳اپریل۱۷۷۴ء میں میران پورکٹرہ میں پیش ان شہادت کے بعد جب انگریزوں نے روہیل کھنڈ پر قبضہ کیا تو اتنی بے دردی سے لوٹ مار مچائی کہ پوری زمین دہل اٹھی۔ پھر شجاع الدولہ کو اس پورے علاقے کا حاکم بنادیا گویا یہ انگریز دوستی کا انعام تھاجو اسے دیا گیا۔

 

سلطنت خداداد کے شیر دل حکمراں :

 

ایسٹ انڈیا کمپنی کے سوداگروں کی جماعت رفتہ رفتہ، تاجر سے تاجدار بن چکی تھی ۔ انھوں نے بنگال میں ایک ایسا تجربہ کیا تھا، جس کی روشنی میں پورے ہندوستان پر تسلط کا خواب ایک حقیقت ممکنہ کی شکل میں ان کے سامنے تھا۔ علی وردی خان کے وارثوں میں تخت و حکومت کے الٹ پھیر میں جہاں انھیں بے شمار منافع اور کروڑوں کی دولت ہاتھ آئی، وہیں میر جعفر اور امین چند جیسے ضمیر فروشوں کو دیکھ کر انھوں نے یہ اندازہ کیا کہ ہندوستان جنت نشان میں جہاں زر و جواہر کوڑیوں کے بھاؤ بکتے ہیں؛ وہیں بعض لوگوں کا ضمیر، شرافت و ایمان و اخلاق بھی ارزاں ہے۔ اور چند سکوں کے عوض میں خریدا جا سکتا ہے، بنگال کے اس تجربے سے انھوں نے فائدہ اٹھایا اور حریص نگاہوں سے میسور کی طرف دیکھنے لگے. اس وقت میسور میں حیدر علی جیسا فولادی عزائم کا حکم راں دادِ حکمرانی دے رہا تھا۔ ایک چھوٹی سی حکومت اور وہ بھی اپنے مرکز دہلی سے دور ! عیار انگریزوں کو اس پر قبضہ کرنے میں کیا دیر لگتی …؟ اس نے میر جعفر، امین چند اور اس کے ہم مشربوں کو میسور میں تلاش کرنا بے سود سمجھا ۔ اور ڈائریکٹ بذریعہ اقدامی جنگ میسور پر قبضہ کرنا چاہا؛ لیکن میدان جنگ نے بتا دیاکہ اپنے بل بوتے پر فتح حاصل کرنا آسان نہیں اور تیغ و تفنگ اور گولہ بارود کے ذریعے حیدر علی اور سلطان ٹیپو کا مقابلہ ممکن نہیں ۔

حیدر علی اور سلطان ٹیپو سے چار مرتبہ کی خون ریز جنگوں میں انگریزوں نے اپنے بہت سے مشہور اور بہادر اور نام آور دلیروں کو شمشیرِ حیدری اور سلطان ٹیپو کی تلواروں کی بھینٹ چڑھا دیا؛ کئی ہزار انگریز کا رشتۂ حیات کو نوکِ تلوار سے باندھ دیا اور میسور کی خالی جیلوں کو اپنے سفید فام ساتھیوں سے بھر دیا۔

انگریز سلطان ٹیپو کے خلاف تلوار اٹھاکر پچھتاتے کہ انھوں نے سوتے ہوئے شیر کو کنکری مار کر کیوں غصہ دلایا ۔ بپھرا ہوا شیر جب اٹھا اور خشمگیں نگاہوں سے انگریزوں کی طرف دیکھا تو ان کا پانی پتہ ہوگیا۔ وہ حدود میسور سے اس طرح بدحواس ہو کر بھاگے ، جیسے بھیڑوں کے قلعہ میں شیر نے ڈکار لیا ہو۔ میسور کی پہلی جنگ جو 1767 سے 1769 تک چلی ؟ اس جنگ کی منظر کشی کرتے ہوئے تاریخ مملکت خداداد کے مصنف رقم طراز ہیں:

” سلطان ٹیپو کی فوجیں نواحی مدراس میں قلعہ سینٹ جارج تک پہنچیں اور شہر میں گولہ باری کرنے لگیں، اتفاق سے ایک گولہ اس جگہ گرا جہاں مدراس کے گورنر بیٹھے جنگ کے داؤ پیچ پر بات چیت کر رہے تھے؟ ان پر اس درجہ دہشت طاری ہوئی کہ گورنر مدراس ساحل کی طرف بھاگنے لگے اور جہاز میں بیٹھ کر پناہ لی. اس پریشانی میں گورنر کی ٹوپی اور تلوار وہیں میز پر دھری رہ گئیں ؟ جہاں وہ بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے. حیدر علی اور ٹیپو سلطان کا مدراس پر دھاوا بولنا تاریخ ہند کا ایک عظیم واقعہ ہے ۔

حیدر علی اور سلطان ٹیپو کی عظیم جنگی حکمت عملی :

حیدر علی اور سلطان ٹیپو بڑی دور اندیشی کے ساتھ اپنی جنگی حکمت عملی کو ترتیب دیتے رہے، اور حوصلہ مندی کے ساتھ انھوں نے اس جانب بنگال و اودھ کے نوابوں کو بھی متوجہ کیا، فرانسیسی حکومت سے رابطہ کر کے اسباب جنگ اور جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ دفاع ملک کی اس جنگ کی طرف خلیفہ عثمانی ترکی کو بھی متوجہ کیا. اور ان سے بھی مدد طلب کی. ان کے عزائم کے سامنے کا ایسا لگتا تھا کہ انگریز جنوب میں بس چند دنوں کے مہمان ہیں. ۔ سلطان ٹیپو اور حیدر علی کے اس بہادرانہ کارنامے کی یادگار قلعہ سینٹ جارج کا وہ کتبہ ہے جو حیدر علی کے حکم سے قلعہ کے دروازے پر لگایا گیا۔ سر الفرڈ لائل اس کتبہ کی وضاحت یوں کرتے ہیں :حیدر علی نے اپنی فتح کی یادگار مدراس میں اس طرح چھوڑی کہ اس کے حکم سے انگریزوں نے ایک کتبہ سینٹ جارج کے دروازے پر لگوا یا. جس میں بتلایا گیا کہ گورنر مدراس اور ممبران کو نسل حیدر علی کے آگے اپنے زانو پر بیٹھے ہیں اور حیدر علی ایک ممبر کی ناک جو ہاتھی کے سونڈ کے مشابہ بنائی گئی ہے پکڑ کر کھینچ رہے ہیں جس میں اشرفیاں اور سونے کے سکے گر رہے ہیں. انگریزوں کی قسمت اس وقت حیدر علی کے ہاتھوں میں تھی. انگریزوں کی مرعوبیت اور خوف زدگی کا یہ عالم تھا کہ وہ ہر قیمت پر میسور کے اس بپھرے ہوئے شیر کو منا لینا چاہتے تھے…. مؤرخ کرنل مالیسن پوری صفائی کے ساتھ ہمیں بتاتا ہے کہ "اس وقت حیدر علی کل سیاہ سفید کا مالک تھا مدر اس شہر کی قسمت اس کے ہاتھ میں تھی. اس کی آمد کا رعب اتنا غالب تھا کہ قریب تھا کہ مدراس کا قلعہ بھی اس کے ہاتھ سے جاتا ایسی حالت میں انگریزوں نے اس کے تمام شرائط پر سر تسلیم خم کر دیئے. اس طرح سترہ سو انہتر عیسوی(1769) میں ایک پل صلح نامہ کے ذریعے جنگ بندی عمل میں آئی”

لیکن انگریزوں کے ضابطۂ اخلاق میں بدعہدی کوئی غلط چیز نہیں سمجھی جاتی، ان کی فطرت سازشیں اور غداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی. اس لئے وہ درپردہ سلطنت خداداد کے خلاف سازشیں کرتے رہے. مجبور ہوکر حیدر علی کو بھی جنگی تیاریوں میں مصروف ہونا پڑا. انہوں نے اپنی جنگی صلاحیتوں کے استحکام پر بھرپور توجہ کی اوردفاعی طاقت میں بے پناہ اضافہ کیا. اس کے علاوہ انہوں نے اپنی فوج میں بے شمار فرانسیسیوں کو ملازمت دی اور ان کے ذریعے فوجی قوت کو جدید تکنیک سے مستحکم کیا.

 

میسور کی دوسری جنگ :

 

سترہ سو اسی (1780) میں انگریز کی مسلسل بد عہدی کی وجہ سے دوسری جنگ میسور چھڑ گئی سترہ سو اکاسی(1781) کے اواخر میں انگریز کا مشہور بہادر کرنل بیلی حیدر علی کے جانباز فوجیوں سے بھڑ گیا. نتیجہ پھر وہی ہوا جو مدراس میں ہو چکا تھا. یعنی انگریز کی ذلت ناک شکست. آدھی سے زیادہ انگریزی فوج کی لاشیں میدان جنگ میں تتر بتر ہو کر چیل کووں کی خوراک بن گئیں باقی ماندہ انگریزی فوج نے ہتھیار ڈال کر اپنی جان بچائی.

کرنل بیلی پاپڑ بیلنے کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا. انگریز مؤرخ الفرڈ لائل اس صورت حال پر ماتم کرتے ہوئےلکھتاہے: ہندوستان میں اس سے بڑھ کر مصیبت انگریزوں پر اور کوئی نہیں پڑی، جس میں دو ہزار (2000) سپاہی اسیر ہو گئے. اس میں ڈیوڈ پیر بھی تھا جس نے بعد میں محاصرہ سترہ سو ننانوے (1799) میں نام پیدا کیا…. مورخ ملٹری بیاگرانی میدان جنگ میں کام آنے والے انگریزوں کی تعداد بتاتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس جنگ میں کرنل بیلی کے ساتھ جنگ میں ساڑھے چار ہزار(4000) فرنگی قتل کردیے گئے. کرنل فیچر بھی جنگ میں مارا گیا. کرن بیلی اور کپتان بیرڈ پابند سلاسل کیے گئے. اس شکست کی خبر کا اثر انگریزی فوج کے سورماؤں پر یہ ہوا کہ بنگال کا شہرت یافتہ بہادر سرہکٹر منرو اپنی بڑی توپیں دریا میں پھینک کر مدراس بھاگ گیا. اس طرح تقریبا پورا کرناٹک حیدر علی کے قبضے میں آگیا، جن پر پہلے سے قبضہ تھا اس میں استحکام پیدا ہوا. اس صورت حال انگریزوں نے بھرپور بے حیائی کے ساتھ حیدر علی سے صلح کی درخواست کی. حیدر علی نے پوری صفائی کے ساتھ یہ جواب دیا کہ مجھے گمان تھا کہ انگریزی قوم میں سچائی اور وفا ہے مگر آزمائش سے مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ان صفات سے محروم ہے.

اسی سال سترہ سو اکاسی (1781) میں انگریزوں نے کرنل وائٹ کی ماتحتی میں ایک زبردست فوج ناگ پٹنم تلچری پر چڑھائی کے لئے بھیجی تھی. اس کا مقابلہ سلطان ٹیپو سے ہوا. سلطان نے اسے دریائے کاویری کے قریب گھیر لیا چند دنوں کی لڑائی کے بعد انگریزی فوج کو مکمل شکست ہوئی. انگریزی فوج کے تقریبا سبھی سپاہی قتل کر دیے گئے. جو بچے انہیں گرفتار کر لیا گیا. اس شکست خوردہ فوج کے کمانڈر کرنل بریٹ وائٹ کو جیل میں ڈال دیا گیا.

 

حیدر علی کی وفات، سلطان ٹیپو کی قیادت :

 

ستمبر 1782 میں چتور سے 8 میل مشرق میں نر سنگارہ، پانی پیٹ کے مقام پر حیدر علی کا انتقال ہوا. (محمود خاں محمود بنگلوری ”تاریخ سلطنت خداداد“. مطبوعہ ۱۹۳۵)

لیکن اس کے خلف الرشید مرد مجاہد جری و بیباک قائد سلطان ٹیپو نے اپنے جلیل القدر والد کے مشن کو جاری رکھا. انگریز سے سلطان ٹیپو کی دوسری جنگ سترہ سو چوراسی (1784) میں کڈنور کے مقام پر ہوئی. اس بار فوجیوں کی کثرت کی وجہ سے انگریزوں کے تیور کچھ اور ہی تھے؛ مگر سلطان ٹیپو کی فطرت اور اس کے فوج کی شجاعت و بہادری نے پھر میدان جنگ کو انگریزی فوج کی لاش سے پاٹ دیا. اس جنگ میں شکست کی خبر بجلی بن کر مدراس پہنچی. انگریز ایک مرتبہ پھر بوکھلا گیے. اور انھوں نے اپنے آزمودہ کار بہادروں کرنلوں اور جنرلوں کو یکے بعد دیگرے حیدر علی اور ٹیپو کے مقابلے میں بھیجا؛ مگر ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکا. اس اس لئے حکومت برطانیہ نے گورنر جنرل کے لیے ایک ایسے شاطر دماغ کا انتخاب کیا جو صرف گندی حکمت عملی اور سازشوں کا قائل تھا اس شخص کا نام تھا کار نوالس. اس شخص نے ایک سازش کے تحت لالچ دے کر حیدرآباد کے نظام اور مرہٹوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا اسی طرح مفاد پرست مقامی راجاؤں اور ضمیر فروشوں کو بھی اپنا آلہ کار بنا لیا اور اس طرح سازشوں کا ایک جال بن کر میسور کی تیسری جنگ سترہ سو نوے (1790) میں شروع کر دی. اس جنگ میں سلطان ٹیپو کی سلطنت کو سخت نقصان اٹھانا پڑا لیکن سلطان کی قوت اور اس کے پختہ عزائم برقرار رہے. سلطان ٹیپو کی شخصیت انگریز کی راہ کی سب سے بڑی چٹان کے روپ میں موجود رہی.

ایک صلح نامہ کے ذریعے میسور کی تیسری جنگ ختم ہوگئی لیکن اندرہی اندر جوالا مکھی پکتا رہا.

"میر صادق از دکن ”

انگریزوں نے پھر ایک بار اس آخری چٹان کو اپنے راستے سے ہٹا کھانے کے لئے دیگر بہت ساری سازشوں کے ساتھ مشہور غدار وطن” میر صادق” کو اپنا آلہ کار بنالیا یہ بے ضمیر وبے غیرت شخص سلطنت خداداد کا وزیراعظم تھا

سلطان ابھی تیسری جنگ میسور کے نقصانات کی بھرپائی ہی کر رہے تھے کہ گورنر جنرلولزی نے سلطان ٹیپو کے خلاف اعلان جنگ کردیا. میسور پردو سمتوں سے حملہ کیا گیا.گھمسان کی جنگ ہوئی سلطان اور اس کے وفادار سپاہیوں نے بے جگری سے مقابلہ کیا.. سلطان کو قابو کرنے کے لیے داؤ آزمایا گیا اور سرینڈر کرنے کے لئے ذلت ناک شرطیں رکھی گئیں. سلطان نے اس توہین آمیز داؤ کو مسترد کرتے ہوئے اس وقت یہ آب زر سے لکھنے کے قابل وہ تاریخی جملہ کہا تھا جو آج بھی زبان زد خاص وعام ہے. اور بے غیرتوں میں غیرت و حمیت پیدا کرنے کا تازیانہ بنا ہوا ہے… انھوں نے دھاڑتے ہوئے کہا کہ:” شیر کی طرح ایک دن کی زندگی گیدڑ کے ہزاروں سال سے بہتر ہے” اور انہوں نے عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دی اور ذلت ناک صلح کو مسترد کر کے جنگ پر ہی قائم رہے.

انگریزی فوج نے سر آرتھر ولزی کی سرکردگی میں سرنگاپٹنم پر حملہ کردیا گھمسان کا رن پڑا سلام کی فوج کی اکثریت نے میر جعفر کے اشارے پر غداری کی. بس چند مٹھی بھر سپاہیوں کی جلو میں تقریباً چھ گھنٹے مسلسل دست بدست جنگ کے بعد سلطان ٹیپو کے دل کے قریب ایک گولی لگی اور انہوں نے 1799 سترہ سو ننانوے میں جام شہادت نوش کیا اس طرح دفاع کے ہندکا آخری چٹان بھی موج حوادث کی نذر ہوگیا.

سلطان کی شہادت کے ساتھ ہی ہندوستان میں مسلمانوں کی اقتدار کی قسمت پر آخری مہر لگ گئی. سلطان ٹیپو شہید کی لاش دیکھ کر جنرل ہارس نے بجا طور پر یہ کہا تھا کہ؛ "آج سے ہندوستان ہمارا ہے”

 

جب 1799 کو کمپنی کے گورنر جنرل لارڈ ویلزلے کو ٹیپو کی ہلاکت کی خبر سنائی گئی تو اس نے اپنا گلاس ہوا میں بلند کرتے ہوئے کہا کہ آج میں ہند کی لاش پر جشن منا رہا ہوں۔

بعدازاں 1803)اٹھارہ سو تین میں انگریز کی طرف سے یہ اعلان کروایا گیا کہ” خلق خدا کی ملک بادشاہ سلامت کا اورحکم کمپنی بہادر کا”

(محمود خاں محمود بنگلوری ”تاریخ سلطنت خداداد“. مطبوعہ ۱۹۳۵)

 

ظلم وجبر اور استحصال کی انتہا :

 

اٹھارہویں صدی کی ساتویں دہائی میں ہندوستان کے زیادہ تر خطوں میں فاقہ کشی اور قحط سالی کی وبا مسلط رہی. 1769 سے 1773 تک قحط سالی سے بہار اور بنگال کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ایک اندازہ کے مطابق اس قحط سے ایک کروڑ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ گورنر جنرل وارن ہاسٹنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک تہائی آبادی بھوک کی وجہ سے ہلاک ہوئی۔

موسمی اور قدرتی حالات تو رہے ایک طرف؛ درحقیقت کمپنی کے بھاری ٹیکس سے دیہی آبادی کنگال ہو گئی تھی۔ نوبیل انعام یافتہ معیشت دان امرتیا سین کے مطابق بنگال میں آنے والا قحط قدرت نہیں انسان کا پیدا کردہ تھا۔

 

بنگال کا خطرناک قحط:

 

نوابوں اور رجواڑوں کے آپسی تنازعات میں ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے فوجی مقامی حکمرانوں کو کرائے پر فراہم کرتی تھی۔ لیکن ان فوجی اخراجات سے یہاں کے نواب اور راجے جلد ہی کنگال ہو جاتے اور اپنی حکمرانی کھو بیٹھتے تھے۔ یوں کمپنی کے مقبوضہ علاقوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا.

کمپنی نے انسانی المیوں سے بھی ناجائز فائدہ اٹھایا۔ بنگال کے قحط میں چاول جو ایک روپے میں 120 سیر ملتا تھا ایک روپے میں صرف تین سیر ملنے لگا۔ ایک جونیئر افسر نے اس طرح 60 ہزار پاونڈ منافع کمایا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 مرتبہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے۔(بحوالہ بی بی سی اردو. مضمون، وقار مصطفیٰ، لاہور)

البتہ کمپنی کے مداحوں کا الگ موقف ہے. اس مخالف فکر کی عکاسی برطانوی اخبار دی ٹائمز کی میں درج ایک مضمون سے ہوتی ہے. اس میں لکھاہے:

اس کمپنی نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں ایسا کام سر انجام دیا جس کی کسی اور کمپنی نے نہ تو کوشش کی ہے اور نہ ہی ممکن ہے آنے والے برسوں میں کر سکے. (حوالہ سابق)

چند دیگر مزاحمتیں :

 

ٹیپو سلطان کے بعد صرف ایک ہی طاقت ایسی رہ گئی تھی جس نے کچھ حد تک انگریزوں سے مزاحمت کی اس طاقت کو مراٹھا طاقت کے نام سے جانا جاتا ہے؛ جو اپنی بہادری اور انگریزدشمنی میں کافی آگے تھے انگریز بھی اندر سے انہیں اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے ستمبر 1803 میں آسائیے کے مقام پر مرہٹہ سردار بھونسلے اور سندھیا نے بے جگری کے ساتھ انگریزی فوجوں کا مقابلہ کیا لیکن انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے ہاتھوں سے آگرہ علیگڑھ وغیرہ نکل کر انگریز کے قبضے میں چلا گیا دوسری مراٹھا جنگ سے مراٹھا طاقت کو سخت دھچکا لگا.

تیسری اینگلو مرہٹہ جنگ[1] (1817ء – 1818ء) مرہٹہ سلطنت اور برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے مابین آخری اور فیصلہ کن جنگ تھی جس کے بعد ہندوستان کے بیشتر علاقے کمپنی کے زیر نگین آگئے تھے۔ اس جنگ کی ابتدا انگریز فوجیوں کی جانب سے مرہٹہ علاقے پر حملے سے ہوئی تھی۔ ان فوجیوں کی کمان گورنر جنرل فرانسس روڈون ہیسٹنگز کے ہاتھوں میں تھی اور جنرل ٹامس ہسلاپ کی زیر کمان فوج تعاون پر مامور تھی۔ ہیسٹنگز نے جنگ کا منصوبہ تیار کر رکھا تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے تیار کردہ منصوبے کے مطابق پنڈاریوں کے خلاف فوجی کارروائی سے جنگ کی ابتدا کی۔ پنڈاری وسطی ہندوستان کے وہ آزاد منش افراد ہیں جن میں بیشتر مسلمان تھے اور درپردہ انہیں مرہٹہ سرداروں کی حمایت حاصل تھی۔

ان کے ذریعے اٹھارہ سو سترہ میں مرہٹوں نے ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی اس سے ان کی رہی سہی عزت بھی ختم ہوگئی مرہٹہ سردار پیشوا باجی راؤ کی قیادت میں جمع ہوئے اور انہوں نے پونا میں نومبر 1917 میں انگریزی ریزیڈنسی پر حملہ کر دیا مرہٹہ فوج کو شکست ہوئی اور وہ آئندہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے.

شاہ عبدالعزیز کا فتوی؛ تحریک آزادی کا زریں باب:

 

ایسے حالات میں جب کہ انگریز پورے ملک کو تاخت و تاراج کرنے میں لگے ہوئے تھے شعائر اسلام پر کھلے عام حملے ہو رہے تھے لوگوں کو جبرا عیسائی بنایا جا رہا تھا ہندوستانی خود اپنے ملک میں دوسرے درجے کے شہری بن گئے تھے. اللہ تعالی نے ایک شخصیت کو ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے برپا کیا. "مرد از غیب بیروں آید” کے مصداق حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فرزند وجانشین حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے میدان عمل میں کود پڑے اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا؛ اس فتویٰ میں ہندوستان کو دارالحرب قرار دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ اس شہر دہلی میں امام المسلمین کا حکم عملا جاری نہیں ہے انگریزحکام کا حکم بے دغدغہ جاری ہے. ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مساجد کو بے تکلف منہدم کر دیتے ہیں، مسلمان ان کی اجازت کے بغیر اس شہر میں داخل نہیں ہوسکتا اس شہر سے کلکتہ تک نصاریٰ کی عملداری پھیلی ہوئی ہے لہذا غلامی کو مٹانا اور حصول آزادی کی جدوجہد کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے.

(فتاوی عزیزی جلد نمبر 1 صفحہ 114) آپ کا یہ فتویٰ ملک کی آزادی اور دفاع کے لیے سنگ میل اور انقلابی قدم ثابت ہوا. ہندوستان کے مسلمانوں ہی میں نہیں بلکہ تمام برادران وطن میں ایک نئی بیداری کی لہر پیدا ہو گئی اس کے ساتھ انہوں نے عملی اقدامات بھی کئے. انہوں نے باضابطہ ایک لائن آف ایکشن تیار کیا جس کے تحت اپنے خاص مرید حضرت سید احمد شہید کو نواب امیر کے لشکر میں فوجی تربیت اور ٹریننگ کے لیے بھیجا. حضرت سید احمد شہید نے وہاں ایک عرصہ قیام کیا اور زبردست فوجی تربیت حاصل کی لیکن جب نواب امیر نے انگریزوں سے مصالحت کر کے ریاست ٹونک جو راجپوتانہ اور مالوہ کے غیر اہم حصوں پر مشتمل تھا پر قانع ہو گیا تو آپ دہلی واپس آ گئے سات سال تک کی فوجی ٹریننگ نے آپ میں سپہ سالاری کی مکمل صلاحیت پیدا کر دی. اس کے بعد شاہ عبدالعزیز نے ایک قافلہ تیار کیا، جس کا مقصد پورے ملک میں جاکر روح شریعت اور جذبہ حریت کو بیدار کرنا تھا، سید احمد شہید کی سپہ سالاری میں مسلم مجاہدین ودعاۃ کے اس قافلہ میں مولانا عبد الحی بڈھانوی مولانا اسماعیل شہید اور حضرت مولانا محمد یوسف ملتی جیسے اکابر تھے.

ان حضرات نے تقریباً پورے ہندوستان کا سفر کیا اور ملت اسلامیہ کو انگریزکے خلاف جہاد کرنے کے لئے تیار کیا.

سید احمد شہید کی اس تحریک کے نتیجے میں انگریزوں سے مسلح جہاد کے لیے ایک بڑی جماعت تیار ہوگی انہوں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ انگریز سے ملک کو آزاد کرانے میں قائدانہ رول ادا کیا. نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری "کے مصداق خانقاہوں اور مدرسوں سے بوریا نشین علماء کی بڑی جماعت میدان عمل میں نکل پڑی… مختلف صوفیا و مشائخ آکر آپ کے قافلہ سے ملتے رہے اور بیعت جہاد کرتے رہے. شاہ عبدالرحیم اپنے تمام مریدوں کے ساتھ آپ کے ہاتھوں پر بیعت جہاد کیا.

اٹھارہ سو اٹھارہ سے لے کر اٹھارہ سو اکتیس تک (1818۔1831) آپ نے جن مقامات کا دورہ کیا ان میں ہندستان کے مشرق سے مغرب تک کے تمام اہم مقامات شامل تھے. جب آپ نے حجت تام کر دی اور جہاد بالقلم اور جہاد باللسان کا مرحلہ تکمیل پذیر ہوا تو آپ نے دوسرا مرحلہ شروع کیا

اپنے اس طویل سفر کا آخری پڑاؤ آپ نے نوشہرہ پنجاب میں ڈالا اور یہیں سے آپ نے جہاد بالسیف کا آغاز کیا

 

معرکہ بالاکوٹ آزادی کے متوالوں کا لازوال کارنامہ:

 

امیر المومنین سید احمد شہید نے پنجاب کے مقام نوشہرہ پہنچ کر سب سے پہلے حاکم لاہور کے نام سے ایک خط بھیجا جس میں اسلام کی دعوت دی ورنہ جزیہ دے کر اطاعت قبول کرنے کا مطالبہ کیا اور بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی گئی. اس مکتوب پر حاکم لاہور جو انگریزوں کا حلیف تھا؛ آمادہ جنگ ہوگیا، اس نے شیر سنگھ کی سپہ سالاری میں سات ہزار کا مسلح لشکر مقابلے کے لیے بھیجا. جب سید احمد شہید کو اس کی اطلاع ملی تو سات ہزار کے بالمقابل صرف 700 مجاہدین کو لے کر میدان میں اترے 1826 کو نصیب کے مقام پر مقابلہ ہوا؛ دشمن کی فوج بری طرح پسپا ہوئی اور صبح ہوتے ہوتے مسلمانوں نے میدان مار لیا… اس کے بعد کچھ فاصلے پر واقع مقام پر دشمنوں سے مقابلہ ہوا. میدان جنگ کا نقشہ مسلمانوں کے حق میں جا رہا تھا کہ اچانک یارمحمد غداری کرکے میدان جنگ سے بھاگ نکلا اور کچھ سردار دشمنوں سے جا ملے جس کی وجہ سے یہ جنگ نتیجہ خیز نہ ہوئی بلکہ مسلمانوں کو نقصان سے دوچار ہونا پڑا؛ اس کے بعد ایمان کے متوالوں کا یہ دستہ راجہ رنجیت سنگھ کے فرانسیسی جنرل اور اس کے دس ہزار کے لشکر کو شکست فاش دیتے ہوئے میدان زباں پہنچا؛ اس مقام پر یار خاں کی فوج پر فتح حاصل کی؛ پھر معیار کی جنگ میں فتح پائی پشاور پر فتح کا جھنڈا لہرایا بالآخر اپنے جان نثار مجاہدین کا قافلہ لے کر بالاکوٹ کی وادی میں پہنچے. راجہ رنجیت سنگھ نے شیر سنگھ کی سرکردگی میں ایک بڑا لشکر اس کے مقابلے کے لیے بھیجا؛ جنگ کا جاۓ وقوع اس کے لیے تباہ کن تھا، اس نے مایوس ہو کر واپسی کا ارادہ کرلیا تھا کہ علاقے کے کچھ غداروں نے اسے مقابلے کی ترغیب دے کر حوصلہ بڑھا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شیر سنگھ کے لشکر نے حملہ کردیا دونوں طرف سے زبردست مقابلہ ہوا؛ گھمسان کی جنگ ہوئی. مسلمان چونکہ تعداد میں کم تھے اس لئے ایک ایک کر کے شہید ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ امیر المومنین سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی نے بھی جام شہادت نوش کیا اور اپنے خون کے قطروں سے مادر وطن کی بے مثال آبیاری کی. خون شہیداں کی خوشبو آج بھی بالاکوٹ کی پہاڑیوں میں محسوس کی جاسکتی ہے. انہیں سے ایسے سرفروش پیدا ہوئے جنہوں نے مادر وطن کو آزاد کرا کر دم لیا اور تحریک بالاکوٹ سے نکلنے والی چنگاری شعلہ جوالہ بن کر انگریزوں کے وجود کو بھسم کر دیا.

تحریک شہیداں کی دوسری منزل صادقپور تھی، علمائے صادقپور نے نہ صرف یہ کہ اس تحریک دوبارہ منظم کیا، اس کی آبیاری کی بلکہ آزادی کے مشن کو اپنا نصب العین بناکر آزادی کا جوش یہاں کے لوگوں میں پیدا کردیا اور آزادی کا نغمہ فرزندان وطن کی زبانوں پر جاری ہوگیا اور بالآخر انگریز کو اپنا بوریا بستر سمیٹ کر ہندوستان چھوڑنا پڑا ۔

مولانا احمداللہ عظیم آبادی مولانا ولایت علی عظیم آبادی مولانا عنایت علی عظیم آبادی مولانا فرحت حسین صادق پوری، مولانا یحییٰ صادق پوری سب کے سب سید احمد شہید کے روحانی فیض یافتہ افراد ہیں.

یہ تحریک آزادی کے ایسے آفتاب و ماہتاب ہیں جنہوں نے اپنے خون جگر کی قربانی دے کر ہندوستان میں انگریزوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا.انگریزی اقتدار کے خلاف ملک گیر بغاوت حضرت سید احمد شہید کے شروع کردہ تحریک آزادی کے اثرات ہیں. سید احمد اور شاہ اسماعیل کی شہادت کے بعد یہ تحریک وسیع اور ہمہ گیر ہو گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے اور یہاں کے دیگر باشندگان نے جہاد آزادی کو اپنا نصب العین بنا لیا اور آئے دن ہندوستانیوں اور انگریزوں کے مابین جھڑپیں ہونے لگیں.

 

اینگلو سکھ جنگ :

ایسا ہی ایک قابل ذکر معرکہ اینگلو سکھ جنگ ہے جو اٹھارہ سو پینتالیس میں لڑی گئی؛ سکھوں نے انگریزی افواج پر حملہ کر دیا تھا؛سکھوں کی عمل داری قائم ہوئی اور مہاراجہ دلیپ سنگھ کو مہارا رنجیت سنگھ کے جانشین کے طور پر انگریز نے تسلیم کر لیا. بعض مؤرخین اس جنگ کو 1857 کی جنگ آزادی کا پیش خیمہ قرار دیا ہے. مذکورہ تفصیلات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی هندوستان کی پہلی جنگ آزادی نہیں ہے بلکہ اس سے کم وبیش سو سال پہلے انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز ہو چکا تھا،عظیم قربانیوں کی سوا سو سالہ تاریخ کو طاق نسیان میں ڈال دینااٹھارہ سو ستاون سے قبل کے مجاہدین آزادی اور دفاع وطن کے لیے قربانی پیش کرنے والے محسنین قوم و ملت کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے۔1857سے پہلے کی ایک سو چھبیس سالہ تاریخ اگر نہ ہوتی تو نہ ۱۸۵۷ء کے شعلے بھڑکتے.نہ ۱۹۴۷ء کاسورج طلوع ہوتااور نہ جانے کب تک انگریزوں کی غلامی میں ہندوستان سانس لیتا. اب جب کہ ہم ہندوستان کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے تو آزادی کے لیے لازوال قربانیاں دینے والے اسلاف کی خدمات کو یادرکھنا ہم سب پر لازم ہے.

Comments are closed.