شب برأت ایک نظر میں

از قلم : حیدر علی قاسمی
روزِ اول سے ہی یہ بات قوتِ سماع سے ٹکراتی ہوئی آ رہی ہے کہ خالقِ ارض وسماءنے اس دارِ عارضی کا نظام مکمل و مستحکم بنایا ہے اور اہل ایمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اسی کے اذن وامر سے کائنات عالم کی ہر شئ رواں دواں ہیں ہیں ٹھیک اسی طرح مکمل مستحکم نظام الہی کے دفاتر میں یہ نظام بھی پیوست ہے کہ یہ ایام اور سالوں کا نظام کس طرح وجود میں آئے؟
لہذا رب کریم نے اس نظام عالی کو کچھ یوں ترتیب دیا کہ کل ایام کو تیس دنوں پر مشتمل کر دیا جو کہ ایک ماہ کہلاتا ہے اور اسی طرح بارہ ماہ کے اختتام پر ایک سال کی مدت انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔
شب برأت کی حقیقت :
قابلِ غور طلب بات کچھ یوں ہے کہ درمیان سال ایک مہینہ آتا ہے جس سے اہل علم و جہل ماہ شعبان کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ غور طلب اس ماہ کی پندرہویں شب ہے جو کہ شب برات کہلاتی ہے ہم اگر اس شب کی حقیقت کے تئیں جائیں تو ہم بجائے اختلافات میں الجھے ہوئے اس شب یعنی شب برأت جس نام سے موسوم ہے اس میں غوروخوص کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شب ، برأت و چھٹکارے کی شب ہے بندہ اس رات بارگاہ رب العزت میں اپنی تمام خطائیں، لغزشیں، اور نافرمانیوں سے توبہ و استغفار کر کے بری ہو جاتا ہے ویسے تو ہر رات اگر انسان اللہ رب العزت سے طلبِ بخشش کی امید کرے اور اس کے لیے جدوجہد بھی کرے تو ذاتِ غفارو ستار ضرور اس کی امید کو دوبالا کر دیں گے مگر چونکہ جس طرح عارضی زندگی میں عارضی حکمران یا پھر صاحبِ سلطنت کبھی کبھی کسی خاص موقع و محل کی مناسبت سے اپنے رعایا کو انعامات و اکرامات سے نوازتے ہیں تواحکم الحاکمین کے جو دو سخا کا کیاعالم ہوگا؟
گویا کہ شب برأت اہل ایمان کے لئے ایک عظیم الشان نعمت ہے جو چاہے اسے اپنے لئے نفع بخش بنا لے ورنہ پھر یونہی حرما نصیبی اس کا مقدر ہے۔
اختلافات و فضائل:
شب برأت کے سلسلے میں جو صدائے بازگشت قوت سماع سے ٹکراتی ہے تو دریں اثناء یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اسکا ثبوت قرآن و حدیث میں موجود ہے یا نہیں؟
ارباب حل و عقل اس سلسلے میں اپنی قرطاس اور اقلام کو کچھ یوں حرکت دیتے ہیں کہ کلام الہی میں تو صراحت کے ساتھ اس کی فضیلت ثابت نہیں البتہ احادیث نبویہ کے ذریعے اس کے ثبوت کو ظاہر و باہر کیا ہے تقریبا دس صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس شب کی فضیلت مروی ہے اگرچہ ان صحابۂ کرام میں سے کسی کی روایت ضعیف ہو لیکن اگر ایک ضعیف روایت کے مقابلے میں دو چند مضبوط روایتیں آجائے تو اس کا ضعف ہلکا ہو جاتا ہے لہذا یہ کہنا کہ اس شب کی کوئی فضیلت نہیں ہے یا پھر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا غلط و نامناسب ہے۔
بے شمار لوگوں کی مغفرت:
ان عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ فخرجت فاذا ھو باالبقیع فقال أکنت تخافین ان یحیف اللہ علیک قلت یا رسول اللہ ظننت انک اتیت بعض النسائک فقال ان اللہ تبارک و تعالیٰ ینزل لیلۃ النصف من شعبان الی سماء الدنیا فیغفر لأکثر من عدد شعر غنم کلب۔
صبح تک اللہ تبارک وتعالی کی نداء :
عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلھا وصوموا نھارھا فان اللہ ینزل فیہا لغروب الشمس الی سماء الدنیا فیقول الا من مستغفر لی فاغفر لہ الا من مسترزق فارزق لہ الا مبتلا فاعافیہ کذا الا کذا حتی یطلع الفجر ۔
پانچ راتوں میں دعاء رد نہیں ہوتی :
عن ابن عمر قال خمس لیال لا یرد فیھن الدعاء لیلۃ الجمعۃ و اول لیلۃ من رجب و لیلۃ النصف من شعبان و لیلتا العید۔
ان تمام احادیث مبارکہ سے یہ بات بالکل عیاں اور واضح ہوگئی کہ شب برأت یوں ہی فضیلت والی شب نہیں بلکہ زبان مبارک صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی فضیلت ثابت ہے مزید یہ کہ امت مسلمہ کے جو خیر القرون کا زمانہ ہے اس میں بھی تمام صحابۂ کرام ، تا بعین ، تبع تابعین اور اکابر و اسلاف نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے اور اس شب میں عبادت و ریاضت میں مشغول ہونا اپنے لیے باعث اجر و ثواب سمجھتے ہیں لہذا یہ سمجھنا کہ اس شب کی فضیلت نہیں ہے یہ بے بنیاد ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں یہ بالکل غلط اور ناشناسی والی بات ہے-
عبادت کا کوئی خاص طریقہ ملحوظ نہیں :
یہ بھی ایک مسئلہ قابل بحث ہے آیا اس شب میں کوئی خاص قسم کی عبادت مطلوب ہے یا پھر عام عبادتوں کی طرح عبادت کرنا مطلوب ہے ؟
اس سلسلے میں تمام فقہاء اور محدثین یوں رقمطراز ہیں کہ اس شب میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خاص قسم کی عبادت منقول نہیں ہے بلکہ وہی عبادتیں جو روزمرہ کی ہے اس میں اضافہ کرنا اور خشوع و خضوع کے ساتھ نفلی عبادتوں میں مشغول رہنا تضرع وگریہ وزاری کے ساتھ رب کائنات کے سامنے اپنی بخشش طلب کرنا یہی مقصود و مطلوب ہے-
شب کا قیام اور دن کا صوم :
اس سلسلے میں زیر تحریر ایک حدیث پاک نقل کی گئی ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ فرمایا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلھا وصوموا نھارھا الخ کہ جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو لہذا رات کے قیام کے بعد دن میں روزہ رکھنا یہ حدیث پاک سے ثابت ہے البتہ یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اس لیے اس روایت کی بنیاد پر خاص شعبان کی *١٥* تاریخ کو روزے کو سنت قرار دینا نا باز علماءکے نزدیک صحیح نہیں ہیں البتہ پورے ماہ شعبان کے روزے کی فضیلت وارد ہوئی ہے احتراز کرتے ہوئے ماہ شعبان کی *٢٨* – *٢٩* تاریخ سے تاکہ رمضان کے روزے کے لیے بدن میں نشاط باقی میں ، ہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جس طرح رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ ایام بیض کے روزے رکھتے تھے یعنی *١٣* – *١٤* – *١٥* تاریخ کو تو اگر یہ سمجھ کر کوئی *١٥* تاریخ کو روزہ رکھے تو کوئی حرج نہیں البتہ خصوصیت کے ساتھ پندرہ شعبان کو روزہ رکھنا سنت سمجھ کر بعض علماء نے اس کو درست نہیں کہا ہے ، واللہ تعالیٰ اعلم۔
نصف شعبان کی شب قبرستان جانا :
یہ موضوع بھی قابل بحث ہے بعض حضرات شب برات میں قبرستان جانے کا بڑا اہتمام کرتے ہیں اور اس کو بھی ایک خاص عبادت سمجھ کر اس پر زور و شور سے عمل کرتے ہیں یہ بات اپنی جگہ بالکل بین اور درست ہے کہ نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نصف شعبان کی شب میں جنت البقیع تشریف لے گئے مگر قبرستان جانے کو مستقل ایک سنت سمجھ لینا یا پھر اس کا خصوصیت کے ساتھ اہتمام کرنا درست نہیں ہے محض یہ سمجھ کر جانا کہ نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والتسلیم گئے ہیں تو ہم بھی آپ کی اتباع میں جا رہے ہیں اور اس کا بڑا اہتمام بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک مرتبہ تشریف لے گئے ہیں لہذا کبھی ترک بھی کر دینا چاہیے تاکہ حدودِ سنت کی پیروی ہوسکے۔
عہدِ حال میں شب برأت کی خرافات :
یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ شیطان انسانوں کا کھلا ہوا دشمن ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ان الشیطان لعدومبین ، خدائے وحدہ لاشریک نے جہاں جہاں اہل ایمان کو اپنی رحمت و نعمت کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں وہاں شیطان مردود نے اپنا جال پھیلا کر اہل ایمان کو پھنسایا ہے بس ایسا ہی نقشہ کچھ اس شب میں بھی ہے تاکہ اہل ایمان اپنی اصل نہج یعنی عبادت و ریاضت سے ہٹ کر خرافات و بدعات میں لگ کر اس شب کے انعامات و اکرامات اور نوازشات سے محروم ہو جائے اور ہوا بھی کچھ اسی طرح کی شیطان مردود اپنے مقصد میں کچھ حد تک کامیاب رہا اور اہل ایمان کی ایک جماعت کو اصل نہج سے ہٹ کر خرافات و بدعات اور رسومات میں مشغول کر دیا اور آج بڑے ہی فخر سے شیطان کے سکھائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جا رہا ہے بندے خدا تعالی کی بندگی کے بجائے شب برات میں مٹھائیاں تقسیم کرنا ، حلوہ و شیرینی بنانا ، شربتیں پلانا ، چراغاں کرنا ، غرض ہے کہ ان تمام امور میں ملوث ہو گئے جو کہ ناجائز اور شریعت میں کہیں بھی اس کی تصدیق نہیں ملتی لہٰذا ان تمام امورِ مکروہ اور خرافات و بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے اصل نہج پر رہ کر اس شب میں عبادت و ریاضت اور توبہ و استغفار میں مصروف رہنا یہی اس کی حقیقت ہے۔
شب برأت کا پیغام امت کے نام :
ان تمام موضوعات مختلفہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے محض اس کی حقیقت و جامعیت پر نظر کریں اور اللہ رب العزت کے انعام و اکرام کو اپنے لئے باعثِ اجر و ثواب اور دارِ بقاء کے لئے ذریعہ نجات سمجھتے ہوئے موقعۂ غنیمت زیرِ ید نہ ہونے دیں مزید یہ کہ اس شب میں ہونے والے خرافات و بدعات سے مکمل اجتناب و احتراز کریں۔
Comments are closed.