Baseerat Online News Portal

شب برات : فضائل ، اعمال اور احکام

 

بقلم : عالمہ حمیرا حسین مومناتی

( شیخ پورہ دانی ، دربھنگہ ، بہار )

کچھ عرصہ بعدرمضان المبارک کی آمد آمد ہے ،اس
برکتوں والے ماہِ مبارک کے آنے سے قبل ’’شعبان المعظم‘‘میں ہی سرکارِ دو عالم اس کے استقبال کے لیے کمر بستہ ہو جاتے، آپ کی عبادات میں اضافہ ہو جاتا۔ آپ نے ’’رمضان المبارک ‘‘کے ساتھ اُنس پیدا کرنے کے لیے ’’شعبان المعظم ‘‘کی پندرہویں رات اور اس دن کے روزے کی ترغیب دی ہے اوراس بارے میں صرف زبانی ترغیب پر ہی اکتفاء نہیں فرمایا، بلکہ آپ نےعملی طور پر خود اس میدان میں سب سے آگے نظرآتے ہیں، چنانچہ اس ماہ کے شروع ہوتے ہی آپ کی عبادات میں غیر معمولی تبدیلی نظر آتی، جس کا اندازہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ کے اس ارشاد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، آپؓ فرماتی ہیں: ’’ما رأیتہٗ فی شھرٍ أکثر صیامًا منہ فی شعبان۔‘‘ کہ ’’میں نے آپ کو شعبان کے علاوہ اور کسی مہینے میں کثرت سے (نفلی)روزے رکھتے نہیں دیکھا۔‘‘ (صحیح مسلم ،رقم الحدیث:۲۷۷۷)
حضور پاک کے ’’شعبان المعظم ‘‘میں بکثرت روزے رکھنے کی وجہ سے اس مہینے میں روزے رکھنے کو علامہ نووی نے مسنون قرار دیا ہے،فرماتے ہیں: ’’ومن المسنون صوم شعبان۔‘‘ (المجموع شرح المہذب،ج:۶،ص:۳۸۶)
اس ماہ ِ مبارک کی پندرہویں شب خصوصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ کہ اس کے بارے میں بہت کچھ قرآن کریم و احادیث نبویہ میں مذکور ہے

1. شبِ برأت قرآن کریم کی روشنی میں

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ ۝ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ
(سورۃ الدخان: 3-4)

ترجمہ:
“بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا، بیشک ہم خبردار کرنے والے ہیں۔ اسی رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔”

مفسرین کی آراء:
1. جمہور مفسرین (ابن عباس، قتادہ، حسن بصری، مجاہد رحمہم اللہ) کے مطابق اس آیت میں “لیلۃ مبارکہ” سے مراد لیلۃ القدر ہے، کیونکہ قرآن صرف لیلۃ القدر میں نازل ہوا تھا۔
2. بعض دیگر مفسرین، جن میں عکرمہ، ابن عباس (بعض روایات)، اور ابن نجیح رحمہم اللہ شامل ہیں، کے نزدیک یہ آیت شبِ برأت کی طرف اشارہ کرتی ہے، کیونکہ اس رات میں فیصلے لکھے جاتے ہیں۔

شب برات احادیث نبویہ کی روشنی میں : ،
.
1. ⁠ مغفرت کی رات:

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
“إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا يَوْمَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ، أَلَا مِنْ مُسْتَرْزِقٍ فَأَرْزُقَهُ، أَلَا مِنْ مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ، أَلَا كَذَا، أَلَا كَذَا، حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ.”
(سنن ابن ماجہ، حدیث: 1388، امام بیہقی نے بھی اس حدیث کو روایت کی ہے)

ترجمہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جب شعبان کی پندرہویں رات آئے تو اس میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، بے شک اللہ تعالیٰ اس رات سورج غروب ہونے کے بعد آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فرماتا ہے: ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں؟ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے عافیت دوں؟ اور یہ سلسلہ فجر تک جاری رہتا ہے۔”

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات اپنے بندوں پر نظر فرماتا ہے، پس سب کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔”
(ابن ماجہ، حدیث: 1390، مسند احمد، حدیث: 6353، صحیح ابن حبان، حدیث: 5665)

بخشش و رحمت کی وسعت:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:
“فَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَطَّلِعُ عَلَى عِبَادِهِ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِأَهْلِ الْأَرْضِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ.”
(سنن ابن ماجہ، حدیث: 1390، )

ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: “ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہ پایا، تو میں نے تلاش کیا اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے، مگر مشرک اور کینہ رکھنے والے کو نہیں۔”

یہ حدیث امام ابن حبان اور البوصیری کے مطابق صحیح ہے، جبکہ بعض محدثین نے اس میں ضعف کی نشاندہی بھی کی ہے۔

نزولِ رحمت:

حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“جب نصف شعبان کی رات آتی ہے تو تم اس کی رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے وقت آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے:

’’کیا کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں؟
کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ میں اسے رزق عطا کروں؟
کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ میں اسے عافیت بخشوں؟‘‘

یہ سلسلہ طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے۔”
(ابن ماجہ، حدیث: 1388 )

بعض مخصوص گناہ گاروں کے لئے محرومی

ایک اور روایت میں آیا ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر مومن کو شامل حال ہوتی ہے، مگر مندرجہ ذیل افراد کی مغفرت نہیں کی جاتی:
1. مشرک
2. دل میں کینہ رکھنے والا
3. والدین کا نافرمان
4. قطع رحمی کرنے والا
5. زنا کرنے والا
6. تکبر کرنے والا
7. جادوگر

(مسند احمد، حدیث: 6353، المعجم الكبير للطبراني، حدیث: 215،)

3. علمائے کرام کی آراء

1. امام شافعی رحمہ اللہ:

“ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعا رد نہیں کی جاتی:
1. جمعہ کی رات
2. رجب کی پہلی رات
3. شعبان کی پندرہویں رات
4. عید الفطر کی رات
5. عید الاضحیٰ کی رات”
(کتاب الام، 1/231)

2. امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:

“شبِ برأت میں اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اور یہ مغفرت کی رات ہے، لہٰذا اس رات میں عبادت کرنا مستحب ہے۔”
(مجموع الفتاویٰ، 23/131)

شب برات میں روزہ رکھنے کا حکم

فقہائے کرام کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا 15 شعبان کا روزہ رکھنا مستحب ہے یا نہیں؟
1. جمہور علمائے کرام (احناف، شوافع، مالکیہ) کے مطابق:
• شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھنا سنت ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ اکثر شعبان کے روزے رکھتے تھے۔
• 15 شعبان کا خاص طور پر روزہ رکھنا مسنون نہیں بلکہ عام نفلی روزوں میں شامل ہے۔
2. حدیث “إذا انتصف شعبان فلا تصوموا” (جب شعبان کا نصف گزر جائے تو روزہ نہ رکھو) کے بارے میں:
• یہ حدیث امام احمد، امام بخاری، اور امام ابن مہدی کے نزدیک ضعیف ہے۔
• امام شافعی اور بعض دیگر علماء نے اس حدیث کو صحیح قرار دے کر نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کو مکروہ کہا ہے، البتہ اگر کسی کی عادت ہو تو جائز ہے۔

نتیجہ:
• اگر کوئی شعبان کے عام نفلی روزے رکھنے کا عادی ہو تو وہ 15 شعبان کا روزہ رکھ سکتا ہے۔
• لیکن اس دن کا روزہ رکھنا لازمی یا سنت مؤکدہ نہیں ہے۔

شب برات میں کئے جانے والے اعمال خیر وعبادات:

. مستحب اعمال:

1. قیامُ اللّیل (نوافل اور تہجد کی نماز

1. نبی کریم ﷺ کا اس رات قیام کرنا
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی کریم ﷺ کو بستر پر نہ پایا۔ میں باہر نکلی تو دیکھا کہ آپ ﷺ جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
“بے شک، یہ ایسی رات ہے کہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو معاف فرما دیتا ہے۔”
(ابن ماجہ: 1389، مسند احمد: 26038)

2. نماز شب کے بارے میں عمومی فضیلت
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“تم پر قیام اللیل (رات کا قیام) لازم ہے، کیونکہ یہ تم سے پہلے صالحین کا طریقہ ہے، یہ اللہ کے قرب کا ذریعہ، گناہوں کا کفارہ اور برائیوں سے روکنے والی چیز ہے۔”
(ترمذی: 3549)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شبِ برات میں نوافل اور تہجد کی نماز ادا کرنا سنت اور باعثِ برکت عمل ہے۔

2. توبہ و استغفار

1. اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا اعلان
حضرت معاذ بن جبلؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات کو اپنی مخلوق پر نظر فرماتا ہے اور مشرک اور کینہ رکھنے والے کے سوا سب کو بخش دیتا ہے۔”
(ابن ماجہ: 1390، طبرانی: 215)
2. نبی کریم ﷺ کی استغفار کی عادت
نبی کریم ﷺ دن میں ستر سے سو مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے۔ (بخاری: 6307) اگر آپ ﷺ جو معصوم تھے، اتنا استغفار کرتے تھے، تو ہمیں بھی خصوصاً اس بابرکت رات میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔

لہٰذا، اس رات میں کثرت سے استغفار، صدقِ دل سے توبہ، اور گناہوں پر ندامت کا اظہار ایک مستحب اور مؤکد عمل ہے۔

3. درود شریف کی کثرت

1. اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کا درود پڑھنا

قرآن مجید میں فرمایا گیا:
“بے شک، اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔”
(الاحزاب: 56)
2. درود شریف کے فوائد
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں اور اس کے دس درجات بلند کر دیے جاتے ہیں۔”
(مسلم: 408، ترمذی: 484)

لہٰذا، اس مقدس رات میں درود شریف کی کثرت باعثِ مغفرت، نورانیت اور قربِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔

4. قرآن مجید کی تلاوت

1. قرآن مجید کا نزول اور بابرکت راتیں

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
“ہم نے اس کتاب کو ایک بابرکت رات میں نازل کیا، بے شک ہم ڈرانے والے ہیں۔ اسی رات میں ہر حکمت والا معاملہ طے کیا جاتا ہے۔”
(الدخان: 3-4)
مفسرین کے مطابق، یہ شبِ قدر کی طرف اشارہ ہے، لیکن بعض علما کے نزدیک شبِ برات بھی بابرکت راتوں میں شامل ہے۔

2. قرآن مجید کی تلاوت کی عمومی فضیلت

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔”
(بخاری: 5027)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شبِ برات میں قرآن مجید کی تلاوت باعثِ برکت، ذریعۂ نجات اور عبادت کا بہترین طریقہ ہے۔

5. صدقہ و خیرات

1. صدقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“صدقہ گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔”
(ترمذی: 614)
2. ضرورت مندوں کی مدد کا حکم

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“تم نیکی کو ہرگز نہیں پا سکتے جب تک اپنی محبوب چیز میں سے خرچ نہ کرو۔”
(آل عمران: 92)

لہٰذا، شبِ برات میں صدقہ و خیرات دینا باعثِ رحمت اور گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے۔

6. والدین، مرحومین اور امتِ مسلمہ کے لیے دعا

1. نبی کریم ﷺ کا قبرستان جانا

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے اور مرحومین کے لیے دعا فرمائی۔
(مسند احمد: 26038، ابن ماجہ: 1389)
2. مرحومین کے لیے دعا کرنے کا حکم
قرآن مجید میں فرمایا گیا:
“اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے، اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ۔”
(الحشر: 10)

یہ رات مغفرت کی رات ہے، اس لیے ہمیں اپنے والدین، مرحومین اور امتِ مسلمہ کے لیے خصوصی دعائیں کرنی چاہئیں۔

شبِ برات کی رات اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں اور مغفرت کی رات ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس رات عبادت، توبہ، دعا، اور خیرات کے ذریعے اللہ کی قربت حاصل کریں۔

شبِ برأت کی غیر شرعی رسومات اور بدعات

شبِ برأت ایک بابرکت رات ہے، جس میں عبادت، توبہ اور مغفرت طلب کرنا مستحب عمل ہے۔ تاہم، بدقسمتی سے بعض معاشروں میں اس رات سے متعلق کئی غیر شرعی رسومات اور بدعات کو رواج دے دیا گیا ہے، جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ صحابہ کرام، تابعین اور سلف صالحین کے عمل میں بھی یہ چیزیں موجود نہیں تھیں۔

1. مسجدوں میں اجتماعی شب بیداری کرنا
• مخصوص طریقوں سے اجتماعی نوافل پڑھنا، جن کی کوئی شرعی اصل نہیں۔
• تسبیح اور دیگر نوافل کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا۔
• اسپیکر پر نظم خوانی اور دیگر غیر شرعی سرگرمیاں منعقد کرنا۔

2. بازاروں اور ہوٹلوں میں غیر ضروری ہلچل
• نوجوانوں کا سڑکوں اور ہوٹلوں میں گھومنا اور غیر ضروری ہنگامہ آرائی کرنا۔
• شب برأت کو تفریح اور لہو و لعب کی رات بنا لینا۔

3
• مخصوص کھانوں، جیسے حلوہ یا دیگر اشیاء کو شب برأت کا لازمی جزو سمجھنا گرچہ کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن اسے دین کا لازمی حصہ سمجھنا غلط ہے۔
• اس رات خاص طور پر ایصالِ ثواب کو ضروری قرار دینا۔

4. قبرستان سے متعلق غیر شرعی اعمال
• قبرستان میں چراغاں کرنا یا وہاں روشنیوں کا اہتمام کرنا۔
• یہ عقیدہ رکھنا کہ اس رات مرحومین کی روحیں گھروں میں آتی ہیں۔
• کسی فوت شدہ شخص کے گھر جانا اور اسے شبِ برأت کا لازمی حصہ سمجھنا۔

5. دیگر بدعات اور غیر اسلامی رسومات
• گھروں میں چراغاں کرنا اور مساجد کو سجانا۔
• نئے کپڑوں کا لین دین کرنا یا کسی خاص لباس کو ضروری سمجھنا۔
• بیری کے پتوں سے غسل کرنے کو لازم سمجھنا۔
• اس رات “عرفہ” کے نام سے ایک رسم کو منانا، جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں۔
• آتش بازی کرنا، جو کہ سراسر فضول خرچی اور اسراف ہے۔

 

یہ تمام غیر شرعی اعمال دین میں اضافہ (بدعت) کے زمرے میں آتے ہیں، جن کی کوئی بنیاد قرآن و سنت میں موجود نہیں۔ نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام ؓ اور سلف صالحینؒ سے ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا، ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ان غیر اسلامی رسومات سے اجتناب کرے اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی تلقین کرے۔

شبِ برأت کو حقیقی معنوں میں گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس رات کو توبہ، استغفار، نوافل، تلاوتِ قرآن اور اللہ سے تعلق مضبوط کرنے میں صرف کریں، اور ان تمام غیر شرعی رسومات سے اپنے معاشرے کو پاک کرنے کے لیے بھرپور کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ہر قسم کی بدعات سے محفوظ رکھے۔ آمین

Comments are closed.