’یہ بات بھی کمبخت نے اردو میں کہی ہے‘

شکیل رشید

بات یوگی آدتیہ ناتھ اُور اردو زبان کی ہوگی، لیکن اِس سے پہلے امریکی دانشور نوم چومسکی کی چند سطریں پڑھ لیں: ’’زبان محض الفاظ کا ملغوبہ نہیں، یہ ایک ثقافت، ایک روایت، سماجی وحدت ہے۔ یہ ایک پوری تاریخ ہے جو سماج کو وجود میں لاتی ہے۔‘‘ مذکورہ سطریں، فیس بک کے سرحد پار کے ایک دوست نفیس حیدر کی ایک پوسٹ سے نقل کی ہیں، اور یہاں اس لیے انہیں پیش کیا ہے کہ لوگ سمجھ لیں’ زبان کو زندہ رکھنے کا مطلب ایک سماج کو زندہ رکھنا ہے، زبان سے سماج وجود میں آتا ہے، اور زبان مٹنے سے وہ سماج، جس کی زبان مٹتی ہے، خود مٹ جاتا ہے، یا اپنی شناخت، اپنا وجود کھو دیتا ہے‘۔ تو، یہ سمجھ لیں کہ یوگی کا اُردو زبان پر حملہ، اور اردو کو ’کٹھ ملّوں‘ کی اور غیر ملک کی زبان قرار دینا، صرف ایک زبان پر حملہ نہیں ہے، یہ ایک ثقافت پر، ایک روایت پر، سماجی وحدت پر حملہ ہے۔ اور چون کہ یوگی یہ غلط فہمی پالے ہوئے ہیں، بلکہ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو اِس غلط فہمی میں مبتلا کر دیا گیا ہے، کہ اُردو مسلمانوں کی زبان ہے، لہذا اُن کا یہ حملہ، ان کے اپنے خیال سے مسلمانوں کی ثقافت پر، روایت پر اور سماجی وحدت پر کیا گیا حملہ ہے؛ لیکن یوگی کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ اُردو پر حملہ صرف مسلم سماج پر نہیں، ہندستان کی روایت پر حملہ ہے، وہ روایت جس کے محافظ فراق گورکھپوری تھے، اُسی گورکھپور کے جہاں کے مٹھ کے یوگی مہنت ہیں! یوگی کو پتا ہونا چاہیے کہ پنڈت دیا شنکر نسیم، نولکشور، چکبست، رائے سدھ ناتھ بلی فراقی، پنڈت آنند نارائن ملا، پریم چند، سدرشن، کرشن چندر اور نہ جانے کتنے ہندو کے شعرا اور ادبا نے اردو کی زلفیں سنواری ہیں، فراق صاحب نے تو ہندی کے مقابلے اُردو کا مقدمہ لڑا ہے، تو کیا یہ سب کے سب ’کٹھ ملّا‘ تھے! اور ہاں ساورکر بھی اُردو لکھتے پڑھتے تھے، لہذا یوگی کے لحاظ سے وہ بھی ’کٹھ ملّا‘ ہوئے۔ یوگی ایک ریاست کے، وہ بھی اترپردیش جیسی سب سے بڑی ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں، انہیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ اترپردیش کی راجدھانی لکھنٗو کا نام ’شستہ اور شیریں اُرود‘ کے لیے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ لکھنو کے رکشہ چلانے والے بھی ’آپ جناب‘ سے بات کرتے ہیں۔ لکھنو پہنچنے پر لکھا ملتا ہے کہ ’مسکرائیے کہ آپ لکھنٗو میں ہیں۔‘ اُردو ’کٹھ ملّاؤں‘ کی زبان نہیں ہے، اردو اس تہذیب کی زبان ہے، جِس سے یوگی ناواقف ہیں۔ ایک وزیراعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے اُردو زبان کے خلاف جو بدزبانی کی ہے، اُسے سُن کر ساری دنیا مہذب اور غیر مہذب کا فرق جان گئی ہوگی، پتا چل گیا ہوگا کہ پڑھ لکھ کر بھی کوئی جاہل کیسا ہوتا ہے، اور لوگوں کو یہ بھی خوب پتا چل گیا ہوگا کہ ایک آئینی عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص کے اندر مسلمانوں کے خلاف کس قدر نفرت، کراہت اور گھن بھری ہوئی ہے۔ وہ کیسے سارے سماج کو بے شناخت کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔ یوگی یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اُردو کے خلاف بول کر وہ ’واہ واہ!‘ بٹور لیں گے، لیکن سچ یہ ہے کہ اُردو کے خلاف بول کر انہوں نے صرف مذمت بٹوری ہے، اور مذمت کرنے والوں میں اچھی خاصی تعداد میں ہندو بھی شامل ہیں۔ یوگی نے جو تقریر کی اس میں آپ ایم پی سنجے سنگھ کے بقول دس اردو کے الفاظ شامل تھے۔ ایک شعر پڑھ لیجیے۔

اردو کو مٹا دیں گے ایک روز جہاں سے

یہ بات بھی کمبخت نے اردو میں کہی ہے

Comments are closed.