آسان و مسنون نکاح: سعادت کا راستہ، رسومات کا خاتمہ

(مثالی نکاح کے چند عملی نمونے)
از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی، بھوپال
16 فروری 2025ء کو علی الصبح ضلع ودیشہ کے قصبہ سئو میں واقع مدرسہ ضیاء العلوم سے احقر کو مولانا سعید صاحب قاسمی کا فون آیا کہ 20 فروری کو مدرسہ میں ایک اصلاحی مجلس منعقد ہورہی ہے اور مجلسِ شوریٰ میں بھی آپ کو شریک ہونا ہے۔ چنانچہ حسبِ حکم، احقر وہاں حاضر ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ پوری مسجد کھچا کھچ لوگوں سے بھری ہوئی ہے، جن میں زیادہ تعداد علماء کرام کی تھی۔
جب مجلس کی دوسری نشست مکمل ہوئی تو حضرت مفتی عبدالرشید صاحب مدظلہ العالی نے آواز لگاکر فرمایا کہ جن کا نکاح ہونا ہے وہ آگے آجائیں۔ چنانچہ دو نوجوان آگے بڑھے: ایک مولوی محمد اسلام قاسمی ولد سمیع اللہ خاں صاحب، بھوپال، اور دوسرے قاری اویس سلمہ ولد قاری ادریس صاحب، قصبہ سئو، ودیشہ۔ حضرت مفتی صاحب نے دونوں کا نکاح پڑھایا۔ بعد ازاں آپ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاحِ معاشرہ کمیٹی کی جانب سے جاری ملک گیر "آسان و مسنون نکاح” مہم کی ستائش کرتے ہوئے فرمایا کہ بورڈ کا یہ قدم قابلِ تقلید ہے۔ ہمیں اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
حضرت مفتی صاحب نے مزید فرمایا کہ اسلام میں نکاح نہایت آسان ہے، مگر افسوس کہ ہم نے خود اسے مشکل بنا دیا ہے۔ جب کسی شخص کا نکاح کا ارادہ ہو، تو سب سے پہلے کسی دین دار گھرانے کی دیندار لڑکی کا انتخاب کرے، پھر اس کے گھر والوں سے مل کر معاملہ طے کرے، اور پھر انتہائی سادگی کے ساتھ مسجد میں، آداب و احترام کا خیال رکھتے ہوئے نکاح کی تقریب منعقد کرے۔ مہر مقرر کرے اور حتی الامکان بیوی سے پہلی ملاقات سے قبل مہر ادا کرے۔ نکاح کے بعد جب رخصتی ہو جائے اور شبِ زفاف بھی گزر جائے، تو مسنون طریقے پر ولیمہ کرے، جس میں نمود و نمائش کی نیت نہ ہو، بلکہ محض اتباعِ سنت مقصود ہو۔ اس پورے عمل میں رسوم و رواج سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے، کیونکہ شادی جتنی سادگی کے ساتھ ہوگی، اتنی ہی زیادہ خیر و برکت کا سبب بنے گی۔
مگر افسوس کہ نکاح کا طریقہ اس قدر آسان ہونے کے باوجود، آج ہمارے معاشرے میں اسے ایک مشکل ترین عمل بنا دیا گیا ہے۔ رشتہ طے کرنے سے لے کر شادی کی تقریب تک، قدم قدم پر ایسی رسومات ادا کی جاتی ہیں جن میں مال و وقت دونوں کا بے جا ضیاع ہوتا ہے۔ شادی بیاہ میں غیر ضروری رسومات اور جہیز کی لین دین نے امت کے ہزاروں گھرانوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ بالخصوص مالداروں کی شادیوں میں ہونے والی فضول خرچیاں اور غیر ضروری لین دین کی وجہ سے غریب گھرانوں کی ہزاروں بیٹیاں جہیز کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔
اسی طرح کی ایک سادہ اور مسنون نکاح کی اطلاع داسپارہ، اتر دیناج پور، مغربی بنگال سے 22 فروری 2025ء کو موصول ہوئی، جہاں مفتی مصطفیٰ صاحب کی صاحبزادی کا عقدِ مسنونہ نہایت سادگی کے ساتھ عمل میں آیا۔ اس شادی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ دلہن کی رخصتی کے لیے محض چھ افراد آئے تھے، اور نکاح پر بہت کم خرچ آیا۔ آج کے دور میں، جہاں لاکھوں روپے صرف مہنگے لباس، پرتکلف کھانوں اور غیر ضروری تزئین و آرائش پر خرچ کیے جاتے ہیں، وہاں اس کم خرچ شادی نے ثابت کر دیا کہ اگر نیت خالص ہو اور دین کو ترجیح دی جائے، تو شادی کو ہر ممکن حد تک آسان بنایا جا سکتا ہے۔ اس نکاح کی ایک اور نمایاں بات یہ تھی کہ کسی بھی قسم کی فوٹوگرافی یا ویڈیو گرافی نہیں کی گئی۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاحِ معاشرہ کمیٹی کی جانب سے "آسان اور مسنون نکاح” کے نام سے جو بیداری مہم چلائی گئی تھی، الحمدللہ، اس کے حوصلہ افزا نتائج آج بھی ملک کے کونے کونے میں ظاہر ہورہے ہیں۔ نکاح میں سادگی برکت کا سبب ہے، جبکہ فضول خرچی اور رسومات فقر و پریشانی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے گھروں میں مسنون نکاح کو رواج دیں تاکہ یہ مبارک طریقہ نسل در نسل منتقل ہو۔
دورِ حاضر میں جہیز مسلم معاشرے کے لیے ایک ناسور بن چکا ہے، جس سے نجات حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ بدقسمتی سے، معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اسے اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا ہے اور اس لعنت سے خود کو آزاد نہیں کروانا چاہتا۔ جس طرح عیدالاضحیٰ کے ایام میں بیل بچھڑوں کی قیمتیں لگائی جاتی ہیں، بعینہ یہی صورت حال شادی کے وقت لڑکوں کی ہوتی ہے۔ کئی جگہ دعوتیں اڑا کر اور بنتِ حوا کی تذلیل کرکے محض سامانِ آرائش و زیبائش کے مکمل نہ ہونے یا کچھ کم ہونے کی بنا پر رشتہ مسترد کر دیا جاتا ہے۔
اگر ہم نے ان غیر شرعی رسم و رواج اور فضول خرافات کو ترک نہ کیا اور شریعت کے مطابق نکاح نہ کیا، تو اس کے نتیجے میں بڑے فتنے جنم لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج زمین پر فتنہ و فساد عام ہے۔ جب ہم نے نکاح میں سنت کو چھوڑ دیا اور غیروں کی روش اختیار کرلی، تو انجام یہ ہوا کہ مسلم لڑکے غیر مسلم لڑکیوں سے اور مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کرنے لگیں۔ العیاذ باللہ!
یہی وقت ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں اور اپنی آئندہ نسل کے لیے ایسا اسلامی ماحول فراہم کریں، جہاں نکاح کو دنیاوی نمود و نمائش کے بجائے ایک مقدس عبادت کے طور پر اپنایا جائے۔ اگر نکاح کو مشکل بنایا جائے گا، تو حرام کے دروازے کھلیں گے، اور اگر نکاح آسان ہوگا، تو معاشرے میں پاکیزگی اور عفت عام ہوگی۔ اس لیے ہمیں نکاح کو ہر ممکن حد تک سادگی سے انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
لہٰذا، موجودہ حالات میں ”آسان اور مسنون نکاح“ مہم کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم گھر گھر جاکر لوگوں کو اس کی اہمیت سمجھائیں۔ اس سے مسلم معاشرے میں سادگی اور آسانی کے ساتھ نکاح کو انجام دینے کا مزاج بنے گا، اور نکاح جیسی عظیم سنت کو حقیقی روح کے ساتھ زندہ کیا جا سکے گا۔ ان شاء اللہ!
Comments are closed.