رمضان المبارک کے شب و روز

 

مولانا انیس الرحمن قاسمی

نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل

 

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ سایہ فگن ہوچکا ہے، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری انسانیت کے لیے اس ماہ کو خیر و برکت کا ذریعہ بنائے! یہ مہینہ قرآن کریم کے نزول کا مہینہ ہے، جو ساری انسانیت کے لیے سراپا ہدایت اور رحمت ہے، جسے اللہ نے اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا، اس ماہ میں مسلمانوں کو قرآن پاک کی تلاوت، تراویح کے اہتمام کے ساتھ قرآنی تعلیمات و ہدایات پر عمل کرنے کا عہد بھی کرنا چاہئے۔ اسی طرح قرآن کریم کے ادارے اور تعلیم گاہوں کے قیام کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

 

یہ مہینہ دوسرے مہینوں کے مقابلہ میں سب سے افضل ہے، اور خصوصی انعام کا ہے، جس میں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار انوار و تجلیات کا ظہور ہوتا رہتا ہے اور انعام و اکرام کی خاص بارش ہوتی ہے، نفل عبادتوں کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھادیا جاتا ہے۔گویا کہ یہ مہینہ سراپا خیرو برکت کا ہے۔ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ سرکش شیاطین کو قید کر کے بندوں کو یکسوئی سے عبادت میں مشغول رہنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ہر آن اللہ کی رحمتوں سے دامن کو بھرنے کا موقع ملتا ہے، روزہ، تراویح،اعتکاف، تہجد، تلاوت قرآن، شب قدر، افطار و سحر ہر ایک کی فضیلت احادیث میں کثرت سے بیان کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کے مہینہ کے تین عشرے اللہ تعالیٰ کے تین مختلف انعام کے ہیں، پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا عشرہ مغفرت کا اور تیسرا عشرہ جہنم سے خلاصی کا ہے۔ اس ماہ کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم جیسی مقدس کتاب اس ماہ میں نازل کی، جس میں ساری کائنات کا خیر اور تمام انسانیت کی ہدایت موجود ہے۔

 

اس ماہ کرنے کے کام:

 

اس ماہ خاص طور پر مندرجہ ذیل کاموں کا اہتمام کرنا چاہئے۔

 

1۔روزہ

 

اس ماہ کی سب سے اہم اور بڑی عبادت روزہ کی ہے۔ جسے اللہ نے تمام عاقل بالغ اور صحت مند مردو عورت پر فرض کیا ہے۔ روزہ کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری پیدا کرنا ہے۔اس لیے ضروری ہے ہم روزہ کا اہتمام کریں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں:”اے ایمان والو ہم نے تم پر روزہ فرض کیا جیسا کہ تم سے پہلے کی امتوں پر فرض کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ“ (قرآن کریم)

 

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ایمان و احتساب کے ساتھ پورے مہینے کا روزہ رکھے اور قیام اللیل کرے اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں۔

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ وہ انسان بد بخت ہے جس کو رمضان کا مہینہ میسرہوا اور اس نے اس کا فائدہ نہ اٹھایا اور اللہ سے مغفرت کا پروانہ حاصل نہ کر سکا۔ اس لیے ہم سب کو چاہئے کہ رمضان کے مہینہ کا پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور اس مہینہ میں جو انعامات اللہ نے رکھے ہیں انہیں حاصل کریں۔

 

علماء نے لکھا ہے کہ روزہ کی قدرت کے باوجود جو شخص بلا عذر کے روزہ نہ رکھے، وہ فاسق و فاجر اور بدترین شخص ہے۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری رحمتوں اور شفقتوں کے باوجود روزہ نہ رکھنے والوں پر ممبر شریف پر قدم رکھتے ہوئے لعنت فرمائی اور جبرئیل امین علیہ السلام نے اس پر آمین کہا۔

 

2۔تراویح

 

جیسے ہی رمضان المبارک کا چاند نظر آجائے، اسی وقت سے رمضان المبارک کی اہم عباد تیں شروع ہوجاتی ہیں، رمضان المبارک کی عبادتوں میں خاص عبادت تراویح اور قیام اللیل ہے۔ بیس رکعت نمازتراویح سنت موکدہ ہے، جو بندوں کو اپنے رب سے قریب کرنے میں خاص تاثیر رکھتی ہے۔ فرائض و سنن کے علاوہ اس مخصوص نماز کی بیس رکعتوں میں چالیس سجدوں کا اضافہ اور ان کے درمیان دعاؤں کا اہتمام، اور نما ز کی حالت میں قرآن کریم کا پڑھنا اور سننا اللہ تعالیٰ کا عظیم تحفہ ہے، جو لوگ عبادتوں کی لذت اور قرآن کریم کی عظمت اور تراویح کی نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قربت چاہتے ہیں، وہ اس نماز کا خاص اہتمام پورے مہینے کریں۔ یہ جان لینا چاہئیے کہ تراویح کی نماز پورے مہینے پڑھنا مسنون ہے، ایک قرآن ختم کرنا الگ سنت ہے اور پورے ماہ تراویح کا اہتمام کرنا الگ سنت ہے۔ بہت سے لوگ جلد ی جلدی میں چند دنوں میں ایک ختم قرآن کر کے تراویح کی نماز سے اپنے آپ کو دور کرلیتے ہیں اور دوسری سنت کی ادائیگی سے محروم رہ جاتے ہیں۔جو کسی بھی حال میں مناسب نہیں ہے۔

 

 

 

3۔ تلاوت قرآن کریم

 

رمضان المبارک کا مہینہ قرآن کریم کے نزول کا مہینہ ہے، اس ماہ کا قرآن کریم اور اللہ کی دوسری نازل کردہ آسمانی کتا بوں کے ساتھ خاص مناسبت ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:”رمضان وہ مقدس مہینہ ہے، جس میں ہم نے قرآن نازل کیا“(قرآن کریم) اور ایک جگہ ارشاد فرمایا:”ہم نے اس کو شب قدر میں نازل کیا۔“

 

اسی لیے اللہ کے رسول علیہ السلام سے لے کراب تک تمام صلحاء،علماء اور اللہ کے نیک بندوں نے تلاوت قرآن کے لیے اس ماہ میں اپنے آپ کو وقف کیا ہے، خاص بات یہ ہے کہ عام دنوں میں قرآن کریم کے ایک حرف کی تلاوت پر کم از کم دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے، اور رمضان المبارک میں ستر گنا اس کا اجر بڑھ جاتا ہے۔ غور کریں کہ پورے ختم قرآن پر کتنی نیکیاں اللہ تعالیٰ قرآن پڑھنے والوں کے نامہئ اعمال میں درج کرتا ہے، اس لیے گھر میں قرآن کریم کے پڑھنے کا خاص اہتمام اور شوق و ذوق پیدا کریں۔مرد اور عورتیں اور بچے سب کے سب قرآن کریم کی تلاوت میں دیوانہ وار لگ جائیں۔

 

4۔ اعتکاف

 

رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کی اہم سنت ہے، یہ سنت موکدہ علی الکفایہ ہے، ہر محلہ سے چند لوگوں کو ضرور اعتکاف کا اہتما م کرنا چاہئے، اگر محلہ میں سے کسی نے بھی مسجد میں اعتکاف نہیں کیا تو پورے محلہ والے سنت کے چھوڑنے والے قرار پائیں گے۔اعتکاف کرنے والا گویا اپنے آپ کو اپنے رب کی چوکھٹ پر ڈال کر اس کی پناہ میں جگہ لینے کی کوشش کرتا ہے اور آغوش رحمت میں آنے کی فریاد کرتا ہے۔ نتیجتاً وہ اپنے محبوب کو پا لیتاہے اور اس کی رحمتوں کا حقدار بن جاتا ہے۔

 

5۔دعا واستغفار کی کثرت

 

اس ماہ میں اللہ تعالیٰ روزہ داروں کی دعائیں کثرت سے قبول کرتا ہے، بلکہ فرشتوں کی ایک جماعت اسی کام پر مامور کر دی جاتی ہے کہ جو بھی روزہ دار مجھ سے مانگے آپ اس کی دعا پر آمین کہیں۔ خاص طور سے افطار کے وقت دعا کرنے کی بہت فضیلت آئی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے وقت دعا کا اہتمام کیا کرتے تھے۔کیوں کہ جب روزہ دار بھوک و پیاس کی حالت میں ہوتا ہے، کھانے کی اشتہا ء زوروں پر ہوتی ہے اور دسترخوان پر نگاہوں کے سامنے کھانے پینے کی چیزیں موجودہوتی ہیں مگر وہ اپنے خالق و مالک کی طرف سے اجازت کے انتظار میں غروب آفتاب تک بھوک کی شدت کو برداشت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو یہ ادا بہت پسند آتی ہے اور اس وقت اٹھے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھ لیتا ہے۔ اسی طرح سحری کا وقت بھی دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہو تا ہے۔ اس وقت بھی اہتمام کے ساتھ دعا کریں۔ دعا میں اس بات کا خیال رکھیں کہ امت مسلمہ اور عام انسانوں کی دنیوی اور اخروی فلاح کی دعا ضرور کریں، اس سے خود اپنے حق میں مانگی ہوئی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ دعا کے اول و آخر میں محسن کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف ضرور پڑھیں۔اسی طرح دن رات کی ہر چھوٹی بڑی عبادت سے فارغ ہو کر دعاؤں اور استغفار کی کثرت کریں، اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی اوراس کی رضااور اس کی خوشنودی کے مقام جنت کی طلب کریں اور دوزخ کی آگ سے پناہ مانگیں۔ ذکر و اذکار، درود شریف اور تلاوت کلام پاک کا خصوصی اہتمام کریں۔

 

6۔گنا ہوں سے اجتناب

 

روزہ کا مقصد تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا کرنا ہے، اس لیے ہر حالت میں روزہ، تراویح اور تلاوت قرآن کے ساتھ ہر قسم کے گناہ کے کاموں سے سخت پرہیز کریں۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ روزہ صرف بھوکے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تما م منع کی ہوئی چیزوں سے رکنے کا نام ہے۔ اس لیے ہم سب کو اپنے جسم کے تمام اعضاء کو گناہ سے بچانے کا اہتمام کرنا چاہئے، تاکہ روزہ کی عبادت مکمل ہو سکے۔

 

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بہت سارے روزے دار ایسے ہیں، جنہیں بھوکے رہنے کے علاوہ روزے کا کوئی فائدہ نہیں ملتا۔“ روزہ دار یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھے کہ روزہ صرف بھوکے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے، بلکہ بدن کے ہر حصہ کے لیے روزہ ہے۔“

 

اس لیے زبان سے نا پسندیدہ بات نہ نکالے، جھوٹ نہ بولے، چغلی و غیبت نہ کرے،بہتان تراشی اور گالی گلوج نہ کرے،کسی کو جھڑکے نہیں، کسی کو اپنی زبان سے تکلیف نہ پہونچائے، نا پسندیدہ چیزوں کی طرف نظر نہ کرے، بد نگاہی سے مکمل طور سے پرہیز کرے، ہاتھ سے کوئی گناہ کا کام نہ کرے، کسی کو پریشان نہ کرے، اپنے ہاتھ کے ذریعہ بندگان خدا کی تکلیف کا باعث نہ بنے، ناپسندیدہ جگہ پر قدم نہ رکھے، غرض کہ ہر طرح کے گناہ سے اپنے آپ کو باز رکھے۔ تاکہ روزہ کی برکت سے سارا وجود ایمانی اور نورانی بن سکے۔

 

 

 

7۔صدقات وخیرات،اہل مدارس اور دینی اداروں کی امداد

 

یہ مہینہ خیر خواہی، غم گساری اور ہمدردی کا مہینہ ہے، معاشرہ کے غرباء اور محتاجوں کی حاجت روائی اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کا حکم بہت سی احادیث میں وارد ہوا ہے۔ زکواۃ اور صدقہئ فطر کے علاوہ بھی نفلی صدقات و عطیات کا خاص اہتمام اس ماہ میں کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فطرتاً اور طبعاً داد و دہش کرنے والا اور سخاوت کرنے والا بنایا تھا، آپ کے دروازے سے کبھی کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوا، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں آپ کی سخاوت اور داد و دہش تیز چلنے والی ہواؤں سے بھی زیادہ ہو تی تھی۔

 

اس لیے ہم سب کو چاہئے کہ اپنے آس پاس کے غرباء اور ضروت مندو ں کا خاص خیال رکھیں، روزہ داروں کو افطار کرانے کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے، ا س لیے ضرورت مند روزہ داروں کو حتی الوسع افطار ضرور کرایا کریں، دروازے پر جو بھی سائل آئے اس کی کچھ نہ کچھ امداد کیا کریں۔ خاص طور پر دینی مدارس کے ذمہ داران اس موقع پر اداروں کے مالی تعاون کے لیے آتے ہیں، ان سے خوش خلقی کا برتاؤ کریں اور جہاں تک ممکن ہو اداروں کا تعاون کریں۔کیوں کہ خاص طور سے ہمارے ملک میں دینی مدارس، تعلیمی اور فلاحی ادارے محض اہل خیر کے تعاون اور توکل علی اللہ کے سہارے چلتے ہیں۔ ان کا وجود اس ملک میں مسلمانوں کے لیے اللہ کی بڑی نعمت ہے، ان کی تعمیر و ترقی، تحفظ و استحکام پر ملت کی بقا موقوف ہے، اس لیے ان کا تحفظ اور ان کے استحکام کی دعا کرنا او ر اس کے لیے عملی تدبیر اپناناہم سب کا فریضہ ہے۔ اس لیے اس ماہ میں ان اداروں کا خاص خیال رکھیں۔اپنے دروازے پر پہونچنے والوں کے ساتھ اکرام کا معاملہ کریں اور نبوی طریقہ سے پیش آئیں، ڈانٹ ڈپٹ اورتحقیر و تذلیل سے اپنے آپ کو بچائیں۔ان کی حوصلہ افزائی کریں، ان کے کاموں کو سراہیں اور اپنی دعاؤں میں ان سب کو یاد رکھیں۔ مدارس اسلامیہ، ملی اور مذہبی جماعتیں دین کے قلعے ہیں، ان کا تحفظ اور تعاون حد درجہ ضروری ہے۔ اس لیے دل کھول کر ان اداروں کی مدد کریں، اداروں کی طرف سے آنے والے محصلین اور سفراء کا اکرام کریں۔ نیز غریبوں، یتیموں، مسکینوں اوربیواؤں کا بھی خاص خیال رکھیں۔

 

8۔ صبر وتحمل

 

بھوک پیاس کی حالت میں اکثر لوگ تناؤ اور ڈانٹ ڈپٹ اور غصہ جیسی عادتوں کے شکار ہو جاتے ہیں، روزہ داروں کو ہر وقت اپنے روزہ کا خیال رکھنا چاہئے اور روزہ کا ایک بڑا ادب اور خیال یہ ہے کہ کوئی غصہ دلائے بھی تو غصہ میں نہ آئیں، صبر و تحمل اور برداشت سے کام لیں۔ بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ ایسے موقع پر سامنے والے سے عاجزی سے یہ کہیں کہ بھئی مجھے عبادت میں رہنے دو میں روزے سے ہوں، اور اپنے روزہ کو خراب نہ کریں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے رمضان کے مہینے کو صبر کا مہینہ بھی فرمایا ہے۔ اور اس ماہ میں اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرمی کرنے اور ان کے کام کے بوجھ کو ہلکا کرنے کا حکم فرمایا ہے۔

 

9۔تمام امور میں اخلاصِ نیت

 

رمضان المبارک کی تمام عبادتوں میں اللہ کی رضا، اس کی خوشنودی مقصود ہو، ہر طرح کے نام و نمود اور نمائش و دکھاوے سے اپنے اعمال کو بچائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نیتوں کے اعتبار سے عمل کا ثواب طے فرماتا ہے۔ اہل ثروت حضرات زکواۃ و صدقات کی ادائیگی میں نام و نمود سے خاص طور سے اپنے آپ کو بچائیں۔

 

الغرض اس مہینہ کا ہر لمحہ بڑا قیمتی ہے، ان قیمتی لمحات کی قدر کرنی چاہئے، اللہ کی رحمت ا س مہینہ میں جس طرح بے پناہ برستی ہے، اس طرح کسی اور مہینہ میں نہیں برستی، ان رحمتوں سے اپنے دامن مراد کو بھر نا چاہئے، کاہلی، سستی، نفس پروری، اور بے کار کاموں میں اتنا سنہرا موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ اپنے آپ کو روزہ کے علاوہ خیر کے کاموں میں، نماز و تلاوت، ذکر و تراویح، تہجد، اعتکاف،صدقات و خیرات، ضرورت مندوں کی مدد،حاجت مندوں کی حاجت روائی وغیرہ میں مشغول رکھے، تب جا کر روزہ کا اصلی حق ادا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو رمضان المبارک کی برکتوں اور اپنی خاص رحمتوں سے مالا مال فرمائے اور اس مبارک مہینے کی قدردانی نصیب فرمائے، آمین یارب العالمین۔

 

Comments are closed.