وقف بل، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جدوجہد اور زمینی حقیقتیں

ایڈوکیٹ اسامہ ندوی
ہندوستانی مسلمانوں کو اس وقت ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ سرکار نے اپنی روایتی پالیسی کے تحت وقف کی جائیدادوں کو ہڑپنے اور ان کے نظم و نسق کو کنٹرول میں لینے کے لیے ایک نیا قانون بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس مقصد کے تحت پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا گیا، جس کا بنیادی ہدف مسلمانوں کے دینی و ملی اثاثے کو کمزور کرنا اور وقف کی خودمختاری کو ختم کرنا ہے۔
ایسے نازک حالات میں ایک جانب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر ملی تنظیمیں ہیں جو عملی میدان میں اس بل کے خلاف مسلسل کوششیں کر رہی ہیں، تو دوسری طرف کچھ افراد محض الفاظ کی جنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان ستم گروں کو قیادت کے بیان یا لب و لہجے پر اعتراض ہے لیکن وہ اس بات کو بھول رہے ان کے اعتراض یا بیجا تنقید سے پہلے ضروری ہے کہ جدوجہد کے اصل پس منظر کو سمجھا جائے اور زمینی حقائق کا ادراک کیا جائے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھیکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے وقف بل کے خلاف ایک مضبوط مزاحمتی مہم چلائی ہے۔ ملک بھر میں اس قانون کے ممکنہ خطرات کو اجاگر کیا گیا، منبر و محراب سے لے کر علمی و سماجی حلقوں تک اس پر بات کی گئی، اور یہی وجہ ہے کہ آج پورے ملک میں اس کے خلاف شعور پیدا ہو چکا ہے۔ یہ سب محض اتفاقی نہیں بلکہ مستقل اور سنجیدہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔
*وقف بل کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جدوجہد کا خلاصہ*
*شعور بیداری* مہم: پورے ملک میں کروڑوں لوگوں کو ایک موقف پر لانا آسان اور معمولی کام نہیں ہے، لیکن بورڈ کی قیادت اس میں کامیاب رہی۔ دستخطی مہم، عوامی خطابات، سیاسی پارٹیوں سے بات چیت—یہ سب اسی مقصد کے تحت کیا گیا کہ لوگوں میں اس بل کی حقیقت اور اس کے خطرات کو واضح کیا جائے۔
*سماج کے مختلف طبقوں کی شمولیت*: کسی بھی تحریک کی کامیابی کا ایک اہم عنصر یہ ہوتا ہے کہ اسے "زبانِ خلق” بنا دیا جائے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس تحریک میں علمائے کرام، ملی تنظیموں، مختلف مسلکوں کے افراد، سماجی کارکنان، وکلا، ممبرانِ پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں، غیر مسلم سماجی قائدین اور سیکولر طاقتوں کو شامل کیا۔ اس ہمہ گیر شمولیت نے جمہوری اداروں کو اس مسئلے پر سوچنے پر مجبور کر دیا، اور حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں کئی دہائیوں بعد ایسی عوامی تحریک دیکھی گئی ہے۔
*موقف کی پختگی*: بورڈ اپنے موقف پر پوری طرح جما رہا اور کسی بھی طرح کی اندرونی یا بیرونی سازش کو اپنی تحریک پر اثر انداز ہونے نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا اعتماد بورڈ پر مزید مضبوط ہوا اور وہ اس قیادت کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔
*ہمہ مسلکی اتحاد*: اس تحریک میں عملی طور پر ہمہ مسلکی اتحاد کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ عمومی طور پر اتحاد کسی مشترکہ دشمن یا مشترکہ ہدف کے تحت پروان چڑھتا ہے، اور بورڈ نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملی اتحاد کی ایک عملی شکل پیش کی۔
*ملک گیر تحریک*: اس تحریک نے پورے ملک میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو جوڑنے کا کام کیا۔ مختلف طبقات اور گروہوں کو بورڈ کے نام اور کام سے واقفیت حاصل ہوئی، اور وہ اس کی قیادت کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔
*یہ سب کچھ ہونے کے باوجود اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو اس جدوجہد کا کیا فائدہ؟*
یہ سوال بظاہر عام ہے، لیکن اس کا جواب اصولی اور فکری بنیادوں پر بہت واضح ہے۔ دینی تحریکوں اور ملی جدوجہد کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ انجام پر نہیں بلکہ جدوجہد پر ہے۔ اگر اخلاص اور درست طریقہ کار کے ساتھ کوشش کی گئی ہو، تو وہی حقیقی کامیابی ہے۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر بڑی تبدیلی فوری طور پر نظر نہیں آتی۔ تحریکیں وقتی نتائج کے لیے نہیں چلائی جاتیں بلکہ قوموں کے شعور کو بلند کرنے، انہیں اپنے حقوق کے لیے کھڑا کرنے اور اجتماعی مزاحمت کی فضا بنانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ یہی اس تحریک کا بھی سب سے بڑا حاصل ہے۔
جو لوگ محض تنقید برائے تنقید میں مصروف ہیں، انہیں یہ سوچنا چاہیے کہ آیا وہ خود میدان میں آ کر کسی عملی قدم کے لیے تیار ہیں یا نہیں؟ اگر واقعی اس معاملے میں سنجیدگی ہے، تو محض الفاظ کی حد تک محدود رہنے کے بجائے عملی اقدام کی راہ اپنائی جائے۔ ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ تنقید ہی اصل مقصد ہے، جبکہ قوم اس وقت تعمیری اور دانشمندانہ جدوجہد کی متقاضی ہے۔
Comments are closed.