وقف ترمیمی بل: مسلمانوں کی املاک پر قبضے کی منظم حکومتی سازش؟

ازقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین
بھارت کی تہذیب، جو صدیوں سے رنگا رنگ ثقافتوں اور عقائد کی آمیزش سے پروان چڑھی ہے، آج ایک گہرے بحران سے دوچار ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نغمے اب نفرت کے شور میں دبتے جا رہے ہیں، اور جمہوری اقدار کی بنیادیں متزلزل ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس بحران کا ایک تازہ ترین اور تشویشناک مظہر ہے، وقف ترمیمی بل، جس نے مسلمانوں کی مذہبی املاک کے مستقبل پر ایک سیاہ پردہ ڈال دیا ہے۔ یہ بل، جسے حکومت اصلاحات کا خوشنما عنوان دے کر پیش کر رہی ہے، درحقیقت ایک منظم سازش کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کی صدیوں سے محفوظ وقف املاک پر قبضہ جمانا ہے۔
وقف املاک، مسلمانوں کے لیے محض جائیدادیں نہیں ہیں، بلکہ ان کی مذہبی، سماجی اور ثقافتی شناخت کا ایک اٹوٹ حصہ ہیں۔ یہ وہ امانتیں ہیں جو نسل در نسل مسلمانوں نے اللہ کی راہ میں وقف کیں، تاکہ ان سے مساجد، مدارس، یتیم خانے اور دیگر فلاحی ادارے قائم کیے جا سکیں۔ یہ املاک نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی زندگی کا مرکز ہیں، بلکہ ان کی سماجی اور تعلیمی ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ایسے میں، ان املاک پر کسی بھی قسم کا حکومتی تسلط مسلمانوں کے لیے ایک گہرا روحانی اور جذباتی صدمہ ہے۔
وقف ترمیمی بل، بظاہر وقف املاک کے انتظام کو بہتر بنانے اور بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ لیکن اس بل کے مندرجات اور اس کے نفاذ کا طریقہ کار، حکومت کی نیک نیتی پر شدید سوالات اٹھاتے ہیں۔ بل کے تحت، حکومت کو یہ اختیار مل جائے گا کہ وہ وقف بورڈز کو تحلیل کر سکے، ان کے ممبران کو معطل کر سکے، اور وقف املاک کی خرید و فروخت اور انتظام و انصرام میں براہ راست مداخلت کر سکے۔ یہ اختیارات، جو بظاہر نگرانی اور احتساب کے لیے ہیں، درحقیقت حکومت کو وقف املاک پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔
مسلم کمیونٹی کے خدشات بے جا نہیں ہیں۔ موجودہ بی جے پی حکومت کی مسلم مخالف پالیسیوں اور فرقہ وارانہ ایجنڈے سے کون واقف نہیں؟ یہ حکومت، جس کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر رکھی گئی ہے، مسلمانوں کو ہر محاذ پر کمزور کرنے اور ان کی شناخت کو مٹانے کے درپے ہے۔ وقف ترمیمی بل، اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔ جس عجلت اور غیر شفافیت کے ساتھ یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جا رہا ہے، اور جس طرح مسلم نمائندوں اور ماہرین کی آراء کو نظر انداز کیا گیا، اس سے حکومت کی نیت پر شک اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔
یہ بل، جو حال ہی میں جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے آیا ہے، ابھی قانون کی شکل اختیار کرنا باقی ہے۔ لیکن اس کی مجوزہ شکل ہی مسلمانوں کے دلوں میں خوف اور بے چینی پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ دہلی کے جنتر منتر پر مسلمانوں کا دھرنا، اسی خوف اور بے چینی کا مظہر ہے۔ یہ دھرنا، محض ایک احتجاج نہیں، بلکہ ایک پکار ہے، ایک فریاد ہے، جو بھارتی جمہوریت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے بلند کی گئی ہے۔ یہ دھرنا اس بات کا اعلان ہے کہ مسلمان اپنی مذہبی املاک پر قبضے کی سازش کو خاموشی سے برداشت نہیں کریں گے، اور اپنے حقوق کے لیے ہر ممکن حد تک جدوجہد کریں گے۔
یہ محض املاک پر قبضے کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور شناخت پر براہ راست حملہ ہے۔ وقف املاک، مسلمانوں کے لیے عبادت گاہوں، تعلیمی اداروں اور فلاحی مراکز کی بنیاد ہیں۔ ان املاک پر حکومتی کنٹرول کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمان اپنی مذہبی اور ثقافتی زندگی کو اپنی مرضی سے نہیں گزار سکیں گے، اور ان کی آنے والی نسلیں اپنی میراث سے محروم ہو جائیں گی۔ یہ ایک ثقافتی نسل کشی کی کوشش ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کی جڑوں سے کاٹ کر ایک بے شناخت اقلیت میں تبدیل کر دینا ہے۔
یہ بل، بھارتی سیکولرازم کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج ہے۔ بھارت کا آئین تمام شہریوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ وقف ترمیمی بل، ان آئینی ضمانتوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اگر حکومت اس بل کو قانون بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہ نہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی، بلکہ یہ بھارت کے سیکولر ڈھانچے کو بھی کمزور کرے گا، اور ملک میں مذہبی منافرت اور عدم اعتماد کی فضا کو مزید بڑھاوا دے گا۔
حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ آگ سے کھیل رہی ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی املاک پر قبضے کی کوشش، ملک میں ایک ایسا لاوا ابال سکتی ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کو، بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے، اس متنازعہ بل کو واپس لے، اور مسلم کمیونٹی کے ساتھ بامعنی مذاکرات شروع کرے۔ صرف افہام و تفہیم اور باہمی اعتماد کے ذریعے ہی اس مسئلے کا کوئی منصفانہ اور پائیدار حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
بھارت کی روح، کثرت میں وحدت کی روح ہے، رواداری اور بھائی چارے کی روح ہے۔ اس روح کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام مذہبی گروہوں کے حقوق کا احترام کیا جائے، اور کسی بھی گروہ کو یہ محسوس نہ ہو کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ وقف ترمیمی بل کا معاملہ، بھارتی ریاست اور معاشرے کے لیے ایک امتحان ہے۔ کیا بھارت اس امتحان میں کامیاب ہوگا، یا نفرت اور تقسیم کی سیاست کے آگے گھٹنے ٹیک دے گا؟ یہ سوال آج ہر انصاف پسند اور امن دوست بھارتی شہری کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔

 

Comments are closed.