غداران قوم یا منافق

ممتاز میر
۸ جون ۱۹۶۷ کو جب مصر اور اسرائیل کی جنگ جاری تھی مصر کے ساحلوں کے سامنے موجود امریکی جہاز USS Liberty کو اسرائیلی بمبار طیاروں نے بمباری کرکے اور آبدوزوں نے تارپیڈو کرکے اسے تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔وہ ایک جاسوس جہاز تھا اور وہ جنگ کو مونیٹر کر رہا تھا۔جہاز کو غیر معمولی نقصان پہونچا ۔عملے کے ۳۷ ۔افراد مارے گئے تھے اور بچے ہوئے ۸۲۔ افراد کسی طرح جہاز کو بچا کر محفوظ جگہ لے جانے میں کامیاب ہوئے تھے۔امریکہ پہونچ کر عملے کے بچے ہوئے افراد نے جو عوامی بیانات دئے اس میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے جانتے ہوئے بھی کہ یہ امریکی جہاز ہے ہمیں تباہ کرنے کی کوشش کی ۔وہ ۳ دنوں سے ہماری ریکی کر رہے تھے۔مگر امریکی حکومت اس بات پر اصرار کرتی رہی کہ یہ ایک غلطی تھی ۔ایک حادثہ تھا۔یہ پورا واقعہ ۷۰؍۸۰ کی دہائی کے ایک سینیٹر جان فنڈلے نے اپنی کتاب They Dare To Speak Out(اردو ترجمہ شکنجہء یہود کے نام سے ہے ۔اور یہی نام درست ہے)میں درج کیا ہے ۔مسٹر پال نے یہ واقعہ بہت باریک تفصیلات کے ساتھ یہ بتانے کے لئے درج کیا ہے کہ امریکہ پر یہودیوں کی گرفت کا کیا عالم ہے۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ امریکہ میں یہودیوں کی باطنی حکومت قائم ہے۔وہاں کے صدور تو ان کے آلے ہوتے ہیں۔الا یہ کہ کوئی کیتھولک صدر بن جائے۔بالکل ایسا ہی حال پاکستان کا بھی ہے ۔بلوچستان اور کے پی کے میں آج جو کچھ ہو رہا ہے یہ سارا کیا دھرا امریکہ اور پرویز مشرف کا ہے۔مگر الزام طالبان پر لگانا حکومت کی مجبوری ہے ۔سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ طالبان کیوں پاکستان میں خلفشار مچانا چاہیں گے؟کیا اس طرح ان کے راستے بند نہ ہوں گے؟ کیا اس طرح ان کی تجارت میں مشکلات پیش نہ آئیں گی؟اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ امریکہ ان کے پاس کوئی ایسا اسلحہ چھوڑ گیا ہے جو کسی دوسری جگہ ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے ۔اگر ایسا ہوتا تو وہ خود کیوں نہ لے کر چلا جاتا ۔امریکہ افغانستاں میں وہ اسلحہ چھوڑ گیا جو خود اس کے لئے بھی لے جاناآسان نہ تھا۔اسے افغانستان چھوڑ کر بھاگنے کی جلدی تھی اور یہ بڑے بڑے اسلحے لے جانے کے لئے انھیں کھول کر پرزوں میں تبدیل کرنا پڑتا۔
مسلمانوں کی حالیہ تاریخ میں تین ملٹری چیف جو سرابراہ مملکت بھی بنے ،غداران قوم تھے یا جنھیں منافق بھی کہا جا سکتا ہے ۔(۱)مصطفیٰ کمال اتاترک(۲)جنرل پرویز
مشرف (۳)عبدالفتاح السیسی۔دہائیوں پہلے ایک پاکستانی ڈائجسٹ میں مصطفیٰ کما ل کا مختصر تعار ف شائع ہوا تھا۔صاحب تحریر کا یہ جملہ ملاحظہ کریں۔’’مصطفیٰ کمال کا دادا یہودی تھا جو بظاہر مسلمان ہو گیا تھا‘‘۔یہی بات عبدالفتاح السیسی کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے اس کی دادی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہودن تھی۔واللہ اعلم۔مگر اپنے محسن محمد مرسی کے ساتھ جو کیا اور اب مصریوں کے غزہ والوں کے ساتھ جو کر رہا ہے اس سے کچھ نہ سہی غدار قوم تو ثابت ہوتا ہے۔جنرل پرویز مشرف مہاجر تھا جسے نواز شریف نے ہی آرمی چیف بنایا تھا ۔پرویز مشرف نے معلوم نہیں کیوں کارگل جنگ شروع کی تھی وہ بھی سربراہ مملکت کے علم کے بغیر۔اور امریکہ کے حکم پر بند بھی کردی ۔شاید امریکہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلانا مقصود ہو۔چند ہزار ڈالروں کے عوض اپنے ملک کے شہریوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرتا رہا۔جس کی بنا پر ایک امریکی اخبار میںیہ کارٹون شائع ہوا کہ مشرف نامی کتے کی رسی ایک امریکی فوجی کے ہاتھ میں ہے اور وہ کتے کو حکم دے رہا ہے۔Go ,catch another ۔عافیہ صدیقی تو ایک معمولی عورت تھی ۔اس کا سیاست یا جنگ سے کوئی تعلق نہ تھا۔مشرف نے تو پاکستانیوں کے ہیرو ایمل کانسی کو بھی پکڑ کر امریکہ کے حوالے کردیا تھا ۔ایمل کانسی کے باپ کو دو ایف بی آئی ایجنٹوں نے پاکستان میں قتل کردیا تھا ۔ایمل کانسی باپ کا بدلہ لینے امریکہ گیا ۔ان دو ایف بی آئی ایجنٹوں کو ان کے ہیڈکوارٹر کے باہر قتل کیا اور بخیر و عافیت پاکستان پہونچ گیا ۔۷سال بعد پرویز مشرف نے اسے پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر دیا ۔مشرف کا سب سے بڑا ’’کارنامہ‘‘بابائے قوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو
Defame کرکے قوم سے ان کا رشتہ توڑنے کی کوشش کرنا تھا۔ پاکستانی اپنی نہاد میں ایک محسن کش قوم ہیں۔مشرف کے جانے کے بعد بھی حکمرانوں نے انھیں کوئی ریلیف نہ دیا۔وہ کسمپرسی کی حالت میں جیتے جیتے مرگئے۔وہ چونکہ شاعر بھی تھے اس لئے پاکستانیوں کے لئے ایک شعر چھوڑگئے۔
گزر تو خیر گئی ہے تری حیات قدیر؍ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے۔۔۔اس آئینے میں پاکستانیوں کو اپنی صورت دیکھتی رہنی چاہئے۔پھر لال مسجد کا معاملہ لیجئے۔ایک ملٹری چیف جو سربراہ مملکت بھی ہے وہ ایک مدرسے کو فتح کرنے کے لئے اس پر حملہ کرتا ہے ۔کیا کوئی مسلمان ایسا کر سکتا ہے؟شہید مولانا عبدالرشید کا خون بھی ہے جو پاکستانیوں کا پیچھا کر رہاہے۔
جب پرویز مشرف نے پورا پاکستان ایک فون کال پر امریکہ کے حوالے کر دیا توامریکی اسلحے کے ٹرک افغانستان براستہ پاکستان جانے لگے۔بیچ بیچ میں اخبارات میں خبریں آتیں کہ اسلحے سے بھرے امریکی ٹرک غائب بھی ہوجاتے ہیں۔مگر نہ امریکہ کان پر جوں رینگتی نہ پرویز مشرف کے ۔اور عام لوگ خوش ہوجاتے کے چلو کوئی تو ہے جو اسلحہ بردار ٹرک غائب کر دے رہا ہے ۔اس طرح طالبان کے خلاف جانے والے اسلحے میں کمی تو واقع ہوتی ہوگی۔پاکستان کی ’’ورلڈ فیمس ‘‘ ایجنسی ISI بھی اس کا پتہ لگانے سے قاصر رہی۔کیا ایسا ممکن ہے؟ اب یہ وہی گمشدہ ٹرک ہیں جو آج بلوچستان اور کے پی کے میں دہشت گردوں کے کام آ رہے ہیں۔اور یہ سب پرویز مشرف اور امریکہ کی ملی بھگت کے نتائج ہیں۔ممکن ہے جب اندر کا یہ حال ہو تو کچھ پڑوسی بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہوں۔کون ہے جو موقع دیکھ کر چوکا نہیں مارتا۔مگر باہر والے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک اندر ہی سے مواقع نہ ملیں۔پاکستانیوں نے شاید آج تک نہ سوچا ہو کہ نواب اکبر بگٹی کو کیوں مارا گیا تھا ۔۔پاکستان اور بلوچستان کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کرنے کے لئے۔
آج پاکستانی فوج نے پورے ملک کو فتح کر رکھا ہے ۔سیاست پر ان کا قبضہ ہے ۔تجارت پر ان کا قبضہ ہے ۔معیشت و معاشرت پر ان کا قبضہ ہے ۔مگر پاکستان کے باہر شکست ان کے قبضے میںہوتی ہے۔بنگلہ دیش میں یہ ہارے ۔کشمیر میں ہارنا تو ان کا معمول ہے۔اور اپنی ہار کا بدلہ وہ سیاست دانوں سے لیتے ہیں۔مگر سیاست داں کون سے اچھے ہیں؟ایک بار نواز شریف نے واقعی فوج کو اکھاڑنے کی کوشش کی تھی مگر بازی الٹ گئی تو وہ ایسے پسپا ہوئے کہ ڈیل کرکے وہ پاکستان ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔اس وقت ان کے پاس پاکستان کا نیلسن منڈیلابننے کا موقع تھا۔کاش کے وہ استقامت دکھاتے ۔آج ان کے اور ان کے خاندان کے پاس فوج کے پاؤں چھونے کے سوا چارہ نہیں۔عمران خان ریاست مدینہ بنانے کے دعوؤں کے ساتھ اٹھے تھے ۔ان کے دماغ میں یہ تھا کہ By Hook Or Crook ایک بار اقتدار میں تو آجاؤں پھر سب سے نپٹ لوں گا ۔اسلئے وہ فوج کو گالیاں دیتے ہوئے فوج ہی کے بل پر اقتدار میں آئے۔مگر کیا ہوا؟بین الاقوامی فورموں پر دھانسو تقریریں کرکے مسلمانوں کے ایک بڑے حصے کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔مگر داخلی محاذ پر ان کا حال یہ رہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا ایکسٹنشن تک نہ رکوا سکے ۔ہاں ،یہ ماننا پڑے گا کہ فوج سے بگاڑ کے باوجود میدان چھوڑ کر نہ بھاگے نہ ڈیل کے لئے گڑگڑایا۔ممکن ہے وہ پاکستان کے نیلسن منڈیلا ثابت ہوں۔مگر توشہ خانہ جیسی چھچھوری حرکتیں اور ان کے یو ٹرن ان کی اخلاقی سطح کم کر دیتی ہیں۔
پاکستان کے مسائل کا حل وہی ہے جو ترکوں نے کیا تھا ۔عوام فوج کے خلاف بغاوت کرکے اسے اتنا مارے کہ پورا اسٹرکچر نیا کھڑا کرنا پڑے۔موجودہ فوجی ہائی کمان تو پاکستان کو برباد کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہے ۔دنیا کا کونسا مسئلہ ہے جو مذاکرات کی میز پر حل نہ ہوسکتا ہو۔دنیا کا سب سے گرم مسئلہ غزہ اور اسرائیل کا اسے مذاکرات کی میز پر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہودی دنیا کی سب بڑی مفسد قوم ہے ورنہ اب تک یہ حل ہوگیا ہوتا۔آزربائجان ،آرمینیا کا مسئلہ مذاکرات کی میز پر حل کیا گیا۔روس یوکرین کے تعلق سے بھی کوششیں جاری ہیں۔مگر پاکستانی فوج ہر داخلی مسئلے کو طاقت سے ہی حل کرنا چاہتی ہے۔کیوں؟
……………………………………………………………………………………………………………………7697376137

Comments are closed.