۱۷؍مارچ کے دھرنے کا پیغام: سفر ہے شرط مسافر نواز بہترے

مولانا حکیم محمود احمد خاں دریابادی
رکن عاملہ آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
ایک طرف چند مسکین صورت، درویش صفت، کمزور، بے سروسامان بندگان خدا کی جماعت،……….. دوسری طرف کرّوفر والا، متکبر، متمرد، ستم پیشہ، ظالم، بےمروت، طوطاچشم، فرعون صفت سربراہِ حکومت، جس کے قبضے میں ایک طرف لشکروسپاہ ہیں وہیں دولت، قوت، کے خزانے بھی ہیں جو زمین پر اس طرح چلتا ہے جیسے سارے جہاں کے سر اس کے قدموں کے نیچے ہوں، اور وہ ان سروں پر اپنے قدم رکھ کر ان پر احسان کررہا ہو ـ وہ جب بولتا ہے تو لفظ لفظ سے تکبر کی غلاظت پھوٹتی ہے، سانس سانس سے احساس برتری کا تعفن ابلتا ہے، اس کے پاس ہر طرح کے کارندے ہیں کچھ بڑے کچھ چھوٹے، …………. بڑے اس کے آس پاس ہیں کچھ بڑے دور ریاستوں میں ظلم کے ایجنٹ کے طور پر تعینات ہیں، چھوٹے کارندے ہر شہر، ہر گلی نکڑ پر بکھرے ہوئے ہیں ـ یہ سب کے سب تکبر وتمرد، ظلم وستم، بدکلامی وبدزبانی میں اپنے سربراہ کے نقش قدم پر ہیں بلکہ بعض آگے بڑھے ہوئے بھی ہیں ـ۔

ان چھوٹے بڑے تمام فرعونوں نے مل کر ملک بھر میں جبرو جور کا بازار سجا رکھا ہے، کمزوروں کا جینا مشکل ہے، مسلمانوں پر تو ستم کی یلغار ہے، ماب لنچنگ، مکانوں کی مسماری، مساجد وشعائر اسلام پر بلڈوزنگ تو ہوہی رہی تھی، اب مدارس پر تالہ بندی اور اوقاف پر قبضے کی سازش بھی ہورہی ہے، باقاعدہ قانون بن رہا ہے تاکہ مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ آسان ہوجائے ـ گویا اب مسلمانوں پر قانون کے دائرے میں ظلم ہوگا، یا یوں کہہ لیجئے اب مسلمانوں پر ظلم کرنا قانونی طور پر جائز ہوجائے گا ـ ۔

ایسے حالات میں چند بے بس، مسکین، بے سروسامان قسم کے بزرگ اللہ کا نام لے کر اٹھے، اعلان کیا کہ ہندوستان ایک دستوری جمہوری ملک ہے، یہاں دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر ستم کا مقابلہ کیا جائے گا ـ کچھ کرم فرماوں نے مضحکہ بھی اُڑایا کہ غیر دستوری ظلم کا مقابلہ دستور کے دائرے میں ………. ؟؟ واہ! لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں!! ……… دراصل مذاق بھی لوگ کمزور کا ہی اُڑاتے ہیں، شہزور کا تو نام سننتے ہی بعض کا وضو ٹوٹ جاتا ہے ـ ۔

ظاہر ہے کمزوروں کے پاس نہ جاہ وحشم ہے نہ لشکروسپاہ، دولت کے خزانے ہیں نہ افرادی طاقت، بس ایک ہی دولت ہے وہ ہے اللہ پر توکل، اس پر بھروسہ، اور اس کی خدائی پر یقین ! ……….. اسی بھروسے اور یقین کے سہارے ایک تاریخ مقرر ہوئی ۱۰ مارچ، جب تاریخ متعین ہورہی تھی تب بھی کچھ اندرونی حلقوں سےہی چند حوصلہ شکن باتیں سامنے آئی تھیں، مگر آیت ” فاذا عَزمتَ فَتوکَل عَلی اللہ ” کے پیش نظر تاریخ طے ہوگئی، آگے بعض حالات کی وجہ سے کئی تاریخیں بدلیں، اس دوران بھی تمسخر کرنے والوں نے اپنا حق ادا کیا،……….

بالآخر ۱۷ مارچ ۲۰۲۵ کو دہلی کے جنتر منتر پر احتجاج ہوا، واقعی ہمتِ مرداں مددِ خدا کا نظارہ سامنے آیا، نہ صرف ملت اسلامیہ کے تمام مکاتب فکر کے نمائندے پُرجوش انداز میں شریک ہوئے بلکہ حکمراں ٹولہ اور اُن کی حواری پارٹیوں کو چھوڑ کر ملک کی تقریبا تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی، سب نے مسلمانوں کے مطالبات کی تائید کی اور ہرسطح پر تعاون کا وعدہ کیا ـ اس احتجاج کے کئی فائدے ہوئے، سب سے بڑا فائدہ تویہ کہ گزشتہ چند سالوں کے دگرگوں حالات کی وجہ سے عام مسلمانوں میں جو احساس بے بسی پرورش پارہا تھا، جو آگے چل کر احساس کمتری، بزدلی اور کم ہمتی میں بھی تبدیل ہوسکتا تھا وہ کم ہوا ہے، دوسرے مسلم عوام کے اندر اپنی ملی قیادت کے سلسلے جو بدگمانی پنپ رہی تھی، لوگ سمجھنے لگے تھے کہ ہماری اعلی قیادت بزدلی کا شکار ہوگئی ہے، اس کوسڑک پر آنے سے خوف آتا ہے، اے سی میں بیٹھ کر محض کاغذی اعلان جاری کرتی ہے اور پسینے کی ایک بوند گرائے بغیر بس علامتی احتجاج کے فیصلے کرتی ہے، موجودہ احتجاج سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ قیادت محتاط تو ضرور ہے مگر بزدل نہیں ـ اسی کے ساتھ ساتھ حکومتِ وقت اور اس کے کارندے بھی متحیر ہیں کہ ہم نے اس قوم کو اتنا دبایا، کچلا، لنچ کیا، مکان گرائے، روزگار چھینا مگر یہ قوم تو پھر سے اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی نظر آرہی ہے ـ۔

ایسا نہیں کہ اس دھرنے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں ہوئی ہر قسم کے کارندے میدان میں اتارے گئے، راستے میں بہت سے شرکاء کو روکا گیا، حکومت کی گود نہیں بلکہ کاندھے پر بیٹھا ہوا جعلی نام نہاد میڈیا میدان میں آیا، جنتر منتر پر ہزاروں کا مجمع، ظاہر ہے اس میں سارے لوگ اتنے پڑھے لکھے یا سمجھدار نہیں ہوسکتے جو وقف بل کی خرابیوں پر تفصیلی روشنی ڈال سکیں، ایسے میں گودی رپورٹرز ڈھونڈ ڈھونڈ کر عام لوگوں کے منہ میں مائیک گُھسیڑنے کی کوشش کررہےتھے تاکہ کوئی ایک بندہ بھی کوئی کمزور بات کہدے تو اس کا بتنگڑ بناکر دن بھر کا مسالہ (مصالحہ) تیار کیا جاسکے، مگر الحمدللہ حالات نے ملک کےعام مسلمانوں کے اندر بھی وہ بصیرت پیدا کردی ہے کہ کس کے سوال کا جواب دینا ہے اور کس کو نظر انداز کرنا ہے، ( افسوس بعض قائد سمجھے والے حضرات کے اندر ابھی تک ایسی بصیرت پیدا نہیں ہوئی ہے، اسی لئے ہمیں روز نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے) جنتر منتر پر گودی رپورٹر دانت پیس رہے تھے، بس چلتا تو اپنی بوٹیاں نوچ ڈالتے، کوئی کچھ بولنے کو تیار نہیں تھا سب اسٹیج پر اشارہ کررہے تھے کہ وہاں سے جو کہا جارہا ہےوہ سنو،………. رپورٹر چیخ رہے تھے کہ سب کو منع کردیا گیا ہے کوئی کچھ بولنے کو تیار نہیں، کچھ نے تو باقاعدہ دھکا مکی بھی کرنے کی کوشش بھی کی تاکہ کچھ ہنگامہ ہی ہوجائے تو ہمیں نمک مرچ لگانے کا موقع ملے ـ مگر اللہ نے ان کی تمام کوششیں ناکام کردیں ـ ۔

ایک اور پینترا چلا گیا، ایک طرف جنتر منتر پر ہزاروں مسلمانوں کا دھرنا چل رہا تھا تو دوسری طرف دو گمنام افراد کو کچھ دور بیچ سڑک پر بیٹھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہزاروں مسلمانوں کے دھرنے کے مقابلے میں ہزاروں ہندو بھی وقف بل کی حمایت میں دھرنے کے لئے پہونچ گئے ہیں، سارا میڈیا سارے چینل ان دو لوگوں کو ہزاروں بتاکر نشر کرنے کے لئے پہونچ گئے، ایسا تاثر دیا گیا جیسے اب دو دھرنوں کے بیچ مقابلہ ہے، ……….. کمال یہ تھا کہ میڈیا کو ان کے نام بھی نہیں معلوم تھے، ایک رپورٹر نے ان کا نام پوچھا تب پتہ چلا، دونوں اناڑی تھے ایک طرف تو میڈیا ان کو دکھا کر ہزاروں افراد کا مجمع ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا، تو دوسری طرف اُن دو میں سے ایک کے منہ سے یہ نکل گیا کہ ہم صرف دو لوگ ہیں ـ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے، مگر بے حیاوں کو فرق نہیں پڑتا بغیر پاوں کے تشریف کے بل گھستے ہوئے چلتے ہیں ـ بزرگوں نے یہ بھی تو کہا ہے کہ ……. بے حیا باش ہر چہ خواہی کن ـ۔

اس پُر اثر احتجاج کی دھمک بین الاقوامی طور پر بھی محسوس کی گئی، کئی ممالک میں خبریں چلی ہیں، تجزئیے شایع ہوئے ہیں ـ ہماری موجودہ حکومت نے فی الحال یہ تو کیا ہے کہ وقف ترمیمی بل جو اس پارلیمانی اجلاس کے ابتدائی دنوں میں پیش ہونے والا ہے اُس کو آخری دنوں کے لئے موخر کردیا ہے ـ اب دیکھنا کہ حکومت ہوش کے ناخن لیتی ہے یااکثریت وقوت کے زور پر ظلم جبر کی ایک نئی تاریخ رقم کی جائے گی اور مسلم اوقاف داستانِ پارینہ ہوجائیں گے ـ ………. اس موقع پر حکمراں ٹولے کے ساتھ بیٹھے وہ دوغلے سیاست داں بھی یاد رکھے جائیں گے جو بظاہرمسلمانوں سے یکجہتی کا دعویٰ کرتے ہیں ـ ۔

مسلمان اپنے حقوق کی حفاظت اور بازیابی کے لئے پہلے بھی کوشاں رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا ـ ۱۷ مارچ کے دھرنے کا یہ پیغام سب کو نوٹ کرکے رکھ لینا چاہیئے ـ ……….. باقی حکومتِ وقت کے لئےبھی یہ نصیحت ہے کہ سابقہ فرعونوں کا انجام یادرکھو، وقت ایک سا نہیں رہتا،ایسا نہ ہوکہ بعد میں پچھتانے کا بھی موقع نہ ملے ـ………… آج بہت دنوں پہلے سنی ہوئی ڈاکٹر عزیز احسن کی نظم کے چند بند یاد آگے، آپ بھی دیکھ لیں اور آمین کہدیں ـ۔

پھر ہو فرعون، غرقِ نیل کہ پھر
اس نے موسیٰؑ کو جان کر بے کس
جبر کا سلسلہ بڑھایا ہے
پھر وہ تیری زمین پر مولا!
سرکشی کے نئے عزائم سے
مومنوں کو مٹانے آیا ہے

پھر وہی معرکہ بپا ہے یہاں
جس میں فرعون با سپاہ و حشم
شمعِ دیں کو بجھانے نکلا تھا
اور موسیٰؑ کو تو نے نصرت کی
بہجتِ بے پناہ بخشی تھی

ہے تعاقب میں لشکرِ شیطاں
تاکہ قوت سے ہر مسلماں کو
تیری دنیا میں یوں مٹا ڈالے!
پھر کہیں خیر کا نشاں نہ رہے
اور اعدائے دین کا لشکر
خیر کے سب چراغ گل کر دے!

اب مسلماں نویدِ نصرت کی
آس میں تیری سمت تکتا ہے
میرے مولا! اسے وہ نصرت دے
جیسی نصرت کہ قومِ موسیٰؑ کو
تو نے بخشی تھی مصر میں پہلے!

میرے اللہ واسطہ تجھ کو
تیری عظمت کا، تیری قدرت کا
تیرےجبَرُوت،تیری سَطْوَت کا
رفعت و صولت و جلالت کا
تیری اس بے پناہ طاقت کا
جس نے ہر عہد کے شاطیں کو
عبرتوں کا نشاں بنایا ہے
ظلم کی ہر فصیل کو تو نے
اپنی قدرت سے خود ہی ڈھایا ہے
متکبر کو خاک میں تو نے
منتقم بن کے خود مٹایا ہے

آج پھر نیل کے کنارے پر
پیروانِ رسول کے پیچھے
ایک فرعونِ وقت آیا ہے
فوج میں اس کی ہر سپاہی کی
نیَّتِ بد سے تو بھی واقف ہے!
تو اسے غرقِ آب کر مولا!
جلد اس کا حساب کر مولا!

بخش قوت، ہر اک مسلماں کو
تاکہ تیری زمین پر اب یہ!
رایتِ دینِ حق بلند کرے
اور جبر و ستم کے دروازے
ساری انسانیت پہ بند کرے!
ایسا ماحول اب میسر ہو
جس کو رحمت تری، پسند کرے

والسلام
محمود احمد خاں دریابادی
۱۹ مارچ ۲۰۲۵ شب ایک بجے

Comments are closed.