میں جنگلوں میں درندوں کے ساتھ رہتا رہا

 

ڈاکٹر سلیم خان

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا پہلا مرحلہ جیسے تیسے  بغیر کسی بڑے ناخوشگوار واقعہ کے پورا ہوگیا ۔ اس دوران امریکہ نے براہِ راست حماس سے بات چیت  کرکے اپنے یرغمال چھڑایا ۔ ایسے میں نیتن یاہو نے دوسرے مرحلے سے قبل  ایک تا دوماہ کی توسیع طلب کی ۔ حماس نے اس سے راضی نہیں ہوا مگر  توقع تھی کہ امریکہ معاملہ   سلجھا دے گا  لیکن  اچانک اسرائیل نے زور دار ہوائی حملہ کر دیا ۔ سحری کے وقت بغیر کسی وارننگ کے سو سے زیادہ جنگی جہازوں سے بمباری کرکے279 معصوم بچےسمیت   429 شہید 530 لوگوں کو  زخمی کردیا۔ اسرائیل نے اس بار حماس کی  غیر فوجی قیادت کو نشانہ بنا تے ہوئے غز ہ میں حکومت کی نگران کمیٹی کے سربراہ عصام الدعلیس، حماس کے سیاسی بیورو کے رکن یاسر حرب، وزارت انصاف کے انڈر سیکرٹری، احمد الحطا، وزارت داخلہ کے انڈر سیکرٹری میجر جنرل محمود ابو وطفہ اور انٹرنل سیکورٹی سروس کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بہجت ابو سلطان  کوشہید کردیا۔ ان کے علاوہ اسلامی جہاد کے ناجی ابو سیف عرف ابو حمزہ  نےبھی  اپنےخاندان کے متعدد افراد کے ساتھ جام  شہادت نوش کیا ۔

آزمائش کی گھڑی میں حماس نےیہ  بیان دیا کہ  "ہم اپنےعوام، سرزمین اور اپنے مقدس مقامات کے دفاع کے لیے ثابت قدمی اور شہادت کی تمنا کے ساتھ دشمن کی جارحیت میں شہید ہونے والے رہنماؤں کی شہادت پر سوگ کا اعلان کرتے ہیں‘‘۔  فلسطینی عوامی  قائدین کا یہ عظیم گروپ لوگوں کے ساتھ ثابت قدمی، استقامت اور یکجہتی کے ساتھ  دشمن کے ساتھ نبرد آزما  رہا ۔ اس نے اپنے لوگوں کی خدمت، ان کی سلامتی اور سماجی استحکام کو مضبوط بنانے میں انتھک محنت کی شاندار مثال قائم  کی۔‘‘ حماس نے زور دیا کہ یہ جرائم فلسطینی عوام کی خواہش یا ان کی قیادت اور مزاحمت کے ساتھ ان کی مضبوط یکجہتی کو نہیں توڑسکیں گے۔ یہ جارحیت ہماری قوم کے عزم اور ثابت قدمی کو مزید مضبوط کرے گی۔حماس کے مطابق  امریکی انتظامیہ کا یہ اعتراف کہ اسے صہیونی جارحیت کے بارے میں پیشگی مطلع کر دیا گیا تھا  فلسطینیوں کے نسل کشی میں شراکت داری کا ثبوت ہے۔ واشنگٹن کی لامحدود سیاسی اور فوجی مدد نے امریکہ کوغزہ میں خواتین اور بچوں کے قتل عام کاجرم میں برابر کا شریک ہے۔

اسرائیل کی داخلی سیاست سے جو لوگ واقف نہیں ہیں وہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ اچانک نتین یاہو پر یہ درندگی کا جنون کیوں سوار ہوگیا؟  امریکہ کے معروف ماہر معاشیات پروفیسر جیفری شاس نے نیتن یاہو کو گہرے کالے کتے سے تعبیر کیا تھا اور اس  ویڈیو کو اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر کرکے امریکی صدر نے بلا واسطہ اس کی   کی تائید کردی تھی۔ اسی درندہ صفت  خصلت نے نیتن یاہو سے یہ ظالمانہ حرکت کروائی ۔ یاہو کی پہلی مجبوری   اقلیتی سرکار ہے۔ اس کو  سہارادینے و الے امن کی دشمن جنگ پسند جماعتیں ہیں۔ یہ لوگ  جنگ بندی کے مذاکرات کی  مخالفت میں ایک  وزیر نے تو استعفیٰ تک دے ڈالالیکن امریکی دباو کے آگے سب دُم دبا کر بیٹھ گئےنیتن یاہو میں یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ ان انتہاپسند حامیوں سے دوٹوک انداز میں کہے کہ اگروہ  ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو    اپنا راستہ ناپیں انتخابات ہوں گے ۔ عوام نے دوبارہ منتخب کیا  تو اقتدار میں رہیں گے ورنہ حزب اختلاف میں بیٹھیں گے ۔

نیتن یاہو کے مزید دو پریشانیاںمیں اول تو اس کا پھر سے کامیاب ہونا ممکن نہیں  ہےکیونکہ ایک جائزے کے مطابق 70فیصد لوگ ۷؍اکتوبر کے حملے کے لیے اسے ذمہ دار مانتے ہیں اور  50 فیصد چاہتے ہیں کہ وہ استعفیٰ دے کر گھر چلا جائے یعنی کامیابی کا امکان مفقود ہے۔  دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بن یامین نیتن یاہو انتخاب ہارنے کے بعد گھر نہیں جیل جائے گا ۔  اس پر تین عدد مقدمات چل رہے ہیں ۔ ان میں سے ایک رشوت خوری اور دوسرا  دھوکہ  دہی کا ہے۔ تیسر ا مقدمہ اعتماد شکنی  کا ہے۔ ان تین مقدمات پر اسے دس سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ اسرائیل کی تاریخ میں وہ پہلا وزیر اعظم ہے کہ جس عہدے پر رہتے ہوئے مقدمہ چل رہا ہے۔اپنے آپ کو ان  زیر سماعت تین بڑے مقدمات سے بچانے کے لیے اس نے آئین میں تبدیلی کی  ناکام کوشش کی کیونکہ  لوگ سڑک پر نکل آئے۔یاہو کے ذریعہ  ان الزامات کو سیاسی انتقام قرار دینا کام نہ آیا ۔ پہلی بار عدالت میں پیش ہوا تو جنگ کے بہانے اسے ٹالنے کی کوشش کی مگر عدلیہ نے اس کی درخواست کو مسترد کردیا ۔

اس بار نیتن یاہو کو جس دن عدالت میں پیش ہونا تھا عدلیہ پر دباو ڈالنے کی خاطر اس روز یہ بہیمانہ بمباری کروادی۔ اس کے بعد اپنے کرپشن کیس میں گواہی ملتوی کروانے کے لیے غزہ پر وحشیانہ حملے کو جواز بنا کر کامیاب ہوگیا۔  اسرائیلی عدالت نے سیکیورٹی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے استغاثہ کی درخواست پر نیتن یاہو کی گواہی منسوخ کر دی۔ اس طرح اس نے صرف اپنا اقتدار قائم رکھنے کی خاطر  اتنے سارے بے قصور  لوگوں موت گھاٹ اتار دیا ۔ حماس نے حالیہ  اسرائیلی حملے کو ‘غدارانہ حملہ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے غزہ جنگ بندی معاہدے کو سبوتاژ کیا۔ فلسطینی اسلامی جہاد (پی آئی جے) نے بھی اسرائیل پر جنگ بندی کو جان بوجھ کر ختم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر اور وزیر دفاع اسرائیل کارٹز نے دھمکی دی ہے کہ تمام صہیونی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا تو غزہ پر جہنم کے دروازے کھول دیں گے، اس وقت تک بمباری جاری رہے گی، جب تک تمام اسرائیلی قیدی رہا نہیں ہوجاتےلیکن اگر یہ کارروائی جاری رہی تو حماس کے لیے قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار کران کی لاشیں واپس کرنے کا حق مل جائے گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کی خاطر عدلیہ سے مہلت لینے کے بعد   اسرائیل کی داخلی سکیورٹی ایجنسی شین بیت کے سربراہ رونن بار کو برطرف کردیا ۔ یہ ایک غیر معمولی   چونکانے والا اقدام تھاجس کا شدید ردعمل سامنے آیا ۔ بعض لوگوں نے اسرائیلی وزیر اعظم کے اس فیصلے کو حیران کُن قرار دیا کیونکہ  ماضی میں  ایسی  مثال نہیں ملتی۔نیتن یاہو نے رونن  کو ان کے عہدے سے برطرفی  کی وجہ اعتماد کے فقدان کو قرار دیا۔ اٹارنی جنرل گالی بہارو میارا نے وزیر اعظم سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’شن بیٹ کے سربراہ رونن بار کو برطرف کرنے کی کارروائی شروع نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس سے قبل  مذکورہ فیصلے کے حوالے سے پیش کیے جانے والے حقائق اور قانونی بنیادوں پر جواز کا مکمل جائزہ لیا جانا ضروری ہے، نیز اس وقت اس طرح کے فیصلے سے مفادات کے ٹکراؤ کا خدشہ ہے کیونکہ اسرائیل کی داخلی سکیورٹی کی ایجنسی شین بیت اس وقت وزیراعظم نتن یاہو اور قطریوں کے درمیان مالی معاملات سے متعلق ایک اہم نوعیت کی تحقیقات کر رہی ہے۔اسرائیلی حزب اختلاف نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دینے کا فیصلہ کیا ہے۔  

شن بیٹ کے سربراہ کی برطرفی نےنیتن یاہو کو ایک نئی مشکل میں پھنسا دیا ہے کیونکہ اس فیصلے کے جواب میں رونن بار نے  یہ کہہ کر    نیتن یاہو کی تردید کی کہ  ’وزیراعظم کی ذاتی وفاداریاں شین بیٹ  کےقانون اور مفاد عامہ کے منافی ہیں۔‘ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایجنسی کی تحقیقات میں 7 ؍اکتوبر کو اندرونی ناکامیوں کے ساتھ  حکومت اور وزیر اعظم کی پالیسیوں میں مسائل کا بھی انکشاف ہوا۔‘28 فروری 2025 کو اسرائیلی فوج نے حماس  کے حملے پر اپنی پہلی سرکاری رپورٹ جاری کی تو اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی دفاعی افواج ’اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے کے مشن میں ناکام رہی ہیں۔‘19 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اسرائیلی فوج کی ان ناکامیوں کا ذکر ہے جن کے سبب 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور فلسطینی گروہوں نے 251 شہریوں کو یرغمال بنایا گیا۔

یہ  چونکانے والی سرکاری رپورٹ اس سوال پر کوئی گہری گفتگو نہیں کرتی  کہ ’اگر ہم غلط ہوئے تو کیا ہو گا؟‘رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 7 اکتوبر کو فوج کا غزہ ڈویژن ’کئی گھنٹوں کے لیے شکست کھا گیا تھا‘ اور وہ نہ حملے کو سمجھ پائے اور نہ یہ فیصلہ کر پائے کہ اس سے نمٹنا کیسے ہے؟اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ھرزی ہلیوی نے یہ  رپورٹ اپنے کمانڈرز کو پیش کی اور کہا کہ وہ ان تمام ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل ھرزی ہلیوی گذشتہ مہینے حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر چکے ہیں اور انھوں نے اس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھامگراسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے اس حوالے سے کہا تھا کہ ریاستی سطح پر ایسی انکوائری غزہ جنگ کے مکمل خاتمے کے بعد ہی ممکن ہو پائے گا۔ اس طرح غزہ میں حالیہ بمباری کی تین اہم وجوہات میں ایک نیتن یاہو پر مقدمہ، دوسرا شن بیٹ کے سربراہ کی برطرفی اور تیسرے  ناکامی کی رپورٹ ہے ۔ بدقسمتی سے ان داخلی مسائل سے نیتن یاہو کے اقتدار کو لاحق خطرات اوراس کے اندر اقتدار کی ہوس نے غزہ کے بے قصور فلسطینیوں  پریہ بمباری  کروائی ہے۔ بقولآفتاب شمسی؎

میں جنگلوں میں درندوں کے ساتھ رہتا رہا                         یہ خوف ہے کہ اب انساں نہ آ کے کھا لے کوئی

 

Comments are closed.