اللہ کا محبوب اور منظور نظر بننے کے لیے اعتکاف کیجیے

 

ڈاکٹر سراج الدین ندوی
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور
9897334419
رمضان کا آخری عشرہ دوزخ سے نجات کا عشرہ ہے۔ اس عشرے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا فیضان موسلا دھار بارش کی طرح برستا ہے۔ ہر پل دوزخ سے چھٹکارے کا اہتمام ہوتاہے۔ آخری عشرے میں سب سے بیش قیمت لیلۃ القدر (شب قدر) ہے۔ شب قدر کی تلاش کے لیے سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ انسان آخری عشرے میں مسجد ہی میں معتکف ہوجائے۔ اسی بنا پر اعتکاف کے لیے آخری عشرے کو متعین کیا گیا ہے ۔
اعتکاف کے لغوی معنیٰ ’’ کسی جگہ پر رکے رہنا اور ٹھہرنا ہیں۔‘‘ شریعت کی اصطلاح میں اعتکاف اس عبادت کو کہتے ہیں جس میں دنیوی کاموں سے الگ ہوکر آدمی ایسی مسجد میں جا بیٹھے جس میں پنج وقتہ نماز کا اہتمام ہوتا ہو۔
اعتکاف کے ذریعہ انسان دنیا داری سے الگ ہوجاتا ہے، دنیا کی آلائشوں سے محفوظ رہتاہے، ہر وقت اللہ کے ذکر میںلگا رہتاہے، اس لیے اس کا دل ایمان سے منور ہوتاہے۔ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے محبت پیدا ہوتی ہے۔نبی کریم ﷺ ہر سال اعتکاف فرماتے تھے، بزرگان دین نے بھی اعتکاف کی پابندی کی ہے یہاں تک کہ اعتکاف رمضان کاحصہ بن گیا ہے۔
اعتکاف کی مثال ایسی ہے کہ جیسے آپ کے دروازے پر کوئی سائل اور فقیر آکر بیٹھ جائے اور کہے کہ میں جب تک نہ جائوں گا جب تک کہ آپ مجھے کچھ دے نہیں دیں گے اور وہ سائل آپ کے دروازے پر پڑا رہے ،آپ کی خوشامد کرے ،آپ کے پائوں پکڑے ،آپ کے سامنے روئے ،ہاتھ پھیلائے ،دامن پسارے تو آپ کتنے ہی سخت دل ہوں ،آپ اس کو ضرور کچھ دیں گے ۔اللہ تعالیٰ جو رحمان و رحیم ہے ،جو ہم سے ستر مائوں کے مقابلے زیادہ محبت کرتا ہے ،پھر اس سے آپ کیوں نہ امید کریں کہ وہ آپ کو اپنے در سے ضرور کچھ دے گا۔اللہ کا محبوب اور منظور نظر بننے کے لیے اعتکاف سب سے زیادہ کارگر نسخہ ہے ۔
احادیث میں اعتکا ف پر اجر عظیم کی بشارتیں دی گئی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’ جس نے رمضان میں دس دن اعتکاف کیا اس نے گویا دو حج اور عمرے کیے۔‘‘(شعب الایمان للبیہقی)
نبی کریم ﷺ ہر سال اعتکاف فرماتے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آپؐ کاانتقال ہوگیا۔ آپؐ کے بعد آپ ؐکی ازواج نے اعتکاف کا معمول قائم رکھا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں:۔
’’ ایک بار نبی کریم ﷺ رمضان کے عشرۂ اخیرہ میں اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔‘‘ (ترمذی)
اعتکاف کے آداب و شرائط بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں :
’’ اعتکاف کرنے والے کے لیے یہ سنت ہے کہ کسی مریض کی عیادت کے لیے نہ جائے، نہ نماز جنازہ کے لیے مسجد سے باہر نکلے، نہ عورت سے صحبت کرے، نہ بوس و کنار کرے، نہ اپنی ضروریات کے لیے مسجد سے باہر جائے سوائے ان ضروریات کے جو ناگزیر ہوں۔ اعتکاف روزہ رکھ کر ہونا چاہیے اور ایسی مسجد میں ہونا چاہیے جس میں پانچوں نمازیں باجماعت ہوتی ہوں۔‘‘ (ابوداؤد)
مردوں کااعتکاف مسجد ہی میں ہوسکتا ہے ۔گھر پر کسی حال میں نہیں ہوسکتا ،لاک ڈائون میں بھی نہیں ،اس لیے کہ اعتکاف کے ساتھ مسجد کی شرط قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے ۔فرمایا گیا:
وَلَا تُبَاشِرُوْہُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ (البقرہ 187)
’’اور تم جب مسجد میں اعتکاف کی حالت میں رہو تو مباشرت نہ کرو۔‘‘
اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں
اعتکاف واجب
کسی نے یہ منت مانی کہ میرا فلاں کام ہو جائے تو میں ایک دن یا دو دن کا اعتکاف کروں گا اور اس کا کام ہو گیا۔ یہ اعتکاف واجب ہے اور اس کا پورا کرنا ضر وری ہے۔ یاد رکھیے کہ اعتکاف واجب کے لئے روزہ شرط ہے۔ بغیر روزہ کے اعتکاف واجب صحیح نہیں ہے۔(در مختار)
اعتکاف سنت موکدہ
یہ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں کیا جاتا ہے ،یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبنے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہو جائے تو تیسویں رمضان کو سورج ڈوبنے کے بعد یا انتیسویں رمضان کو چاند ظاہر ہونے کے بعد مسجد سے نکلے۔ یاد رہے کہ یہ اعتکاف’ سنت موکدہ کفایہ ‘ہے ۔یعنی اگر محلہ کے سب لوگ چھوڑ دیں گے تو سب آخرت کے دن جواب دہ ہوں گے اور اگر ایک آدمی نے بھی اعتکاف کر لیا تو سب آخرت کی پکڑسے بری ہو جائیں گے۔ اس اعتکاف میں بھی روزہ شرط ہے ۔(در مختار)
اعتکاف مستحب
اعتکاف مستحب یہ ہے کہ جب کبھی بھی دن یا رات میں مسجد کے اندر داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرے جتنی دیر مسجد میں رہے گا،اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ نیت کے لئے صرف دل میں اتنا خیال کر لینا اور منہ سے کہہ لینا کافی ہے کہ میں نے خدا کے لئے اعتکاف مسجد کی نیت کی۔(فتاویٰ عالمگیری)
اعتکاف صحیح ہونے کی شرطیں
اعتکاف صحیح ہونے کے لیے درج ذیل شرطیں ہیں:
۱- مسلمان ہونا۔
۲- غسل کی حاجت سے پاک ہونا۔
۳- عاقل ہونا۔
۴- نیت کرنا۔
۵- ایسی مسجد میں اعتکاف کرنا جس میں جماعت ہوتی ہو۔ (عورت اپنے گھر میں اس جگہ اعتکاف کرے جہاں نماز پڑھتی ہو۔)
۶- واجب اعتکاف کی ادائیگی کے لیے روزہ بھی شرط ہے۔
مکروہات ِ اعتکاف
اعتکاف میں درج ذیل چیزیں مکروہ ہیں:
٭ بالکل خاموش رہنا اور خاموش رہنے کو عبادت سمجھنا۔یعنی ضرورت کی بات بھی نہ بولنا۔بلکہ انسان اپنی ضرورت کی بات بولے،لوگوں کو وعظ و نصیحت بھی کرسکتا ہے۔
٭ مسجد میں سامان لاکر خرید و فروخت کرنا۔
٭ لڑائی جھگڑا یا بے ہودہ باتیں کرنا۔
مفسدات اعتکاف
٭ بغیر کسی عذر کے قصداً مسجد سے نکلنا۔
٭ کسی عذر سے باہر نکل کر ضرورت سے زیادہ ٹھہرنا۔
٭ بیماری یا خوف کی وجہ سے مسجد سے باہر نکلنا۔
جن صورتوں میں مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے:
٭ پاخانہ پیشاب کے لیے نکلنا ۔
٭ فرض غسل کے لیے نکلنا۔
٭ جمعہ کی نماز کے لیے نکلنا۔
٭ اذان کہنے کے لیے اذان کی جگہ تک نکلنا۔
رمضان کے ہر لمحے کو اپنے حق میں نعمت ِ خداوندی سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھائیے۔ برائیوں سے کنارہ کش ہوکر نیکیوں کو پروان چڑھائیے۔ کوشش کیجیے کہ آپ کا پورا رمضان گناہ سے بچ کر نیکیاں سمیٹے ہوئے بسر ہو تاکہ باقی گیارہ مہینے بھی آپ اسی طرز پر گزار سکیں۔ صلحاء امت کا تجربہ بتاتا ہے کہ آدمی کا رمضان جس حالت میں گزرتا ہے بقیہ سال بھی اسی حالت میں گزرتا ہے۔ اس لیے کوشش کیجیے کہ آپ کا یہ مہینہ زہد و طاعت، جمعیت خاطری، دعوت دین کے لیے سعی وجہد، صبر وعزیمت اور خدمت وغم خواری میں گزرے تاکہ باقی ایام بھی پُرسکون اور دعوت ِ دین کا کام کرتے ہوئے بسر ہوسکیں۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ قیامت کے دن روزہ سفارش کرے گا اور کہے گا۔ : اے پروردگار میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے اور دوسری لذتوں سے روکے رکھا، اے خدا تو اس شخص کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور خدا اس کی سفار ش قبول فرمالے گا۔ (مشکوٰۃ)
رمضان کے آخری عشرہ میں سب سے کٹ کر اپنے مالک کے ہو رہئے، اس کے حضور سجدے کیجیے، توبہ و استغفار کیجیے، گناہوں پر ندامت و پشیمانی کااظہار کیجیے، اس کی تسبیح و تقدیس میں مصروف رہیے، اس کی قربت و رحمت طلب کیجیے، اس کے دامن ِ عفو میں پناہ تلاش کیجیے، اپنے شب و روز اپنے خدا کے سامنے روتے ہوئے گزاریے اور پھر دیکھیے کہ آپ کا رحیم وکریم پروردگار کس طرح آپ کو اپنے سایۂ شفقت میں پناہ دیتا ہے۔

 

Comments are closed.