جمعہ نامہ: یوم الفرقان  کا پیغام

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے:’’ اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تم سے (کفارِ مکہ کے) دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ و فتح کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ یقیناً تمہارے لئے ہے‘‘۔ غزوۂ بدر کے حوالے سے  یہاں پر جن دوگروہوں کا ذکر ہے ان میں سے ایک ابوسفیان کا تجارتی قافلہ  تھا۔  مکہ کے تمام قریشی اس میں  شریک تھے یعنی  اگر کسی کے پاس صرف ایک مثقال سونا تھا تو اُس نے بھی  اپنا حصہ ڈال دیا تھا۔ پچاس ہزار دینار(  سونے کا سکہ ) کی یہ  سرمایہ کاری عصرِ حاضر میں  ہزاروں کروڈ کے مساوی تھی  ۔ یہ قافلہ گویا قریش مکہ کی ایک تجارتی کمپنی تھی۔ قریش کی سب سے بڑی طاقت اُن کی اسی تجارت سے حاصل ہونے والا سرمایہ تھا، جس کے بل پر انھوں نے رسول کریم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیاتھا۔ اس تجارت سے حاصل ہونے والے منافع کے ذریعہ وہ مدینہ منورہ پر لشکر کشی کرکے اسلام کا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھا دینے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اس  لیےمذکورہ تجارتی قافلہ کی حفاظت  کی ذمہ داری  قریش کے ستر جوانوں  اورکئی  سرداروں پر تھی ۔  

سفر شام سےلوٹنے والے اس قافلہ کا مقابلہ کر کے قریش کی طاقت توڑ نے کی خاطر رسول ا کرم ﷺ نےاسے روکنے  کا ارادہ فرمایا ۔ ابو سفیان   کوقافلہ کے تعاقب کا اندیشہ ہوا تو انہوں  نے ضمضم بن عمر کو مکہ مکرمہ بھیج کر خطرے سے آگاہ کردیا ۔اس سے  پورے مکہ میں ہلچل مچ گئی اور تمام قریش مدافعت کے لئےکمر بستہ  ہوگئے۔ جو لوگ معذور تھے انھوں نے کسی کواور کو  اپنا قائم مقام بنا کر جنگ کےلئے تیار کیا اور صرف تین روز میں مسلمانوں کی 313نفری فوج کا مقابلہ کرنے کے لیےکیل کانٹوں سے لیس ایک  لشکرجرار تیار ہوگیا۔ اس میں ایک ہزار جوان دو سو گھوڑے اور چھ سوزرہیں اور ترانے گانے والی لونڈیاں اور اُن کے طبلے وغیرہ لے کر بدر کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ اس درمیان یہ خبر آئی کہ ابو سفیان کا قافلہ  تو ساحلِ دریا کے کنارے کنارے گزر گیا مگر مسلمانوں کی سرکوبی  کے لئے مکہ مکرمہ سے ایک لشکر جنگ کےلئے آرہا ہے۔ یہ دوسرا گروہ تھا ۔

ان دونوں میں سے ایک پر  فتح کی بشارت کے باوجود عام  مسلمانوں کے کیفیت اس طرح بیان کی گئی کہ:’’اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آجائے مگر اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کی فتح یابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت اور شان و شوکت کے) جڑ کاٹ دے‘‘۔اس وقت رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ فرمایاتو  حضرت ابو ایوب انصاریؓ اور بعض دوسرے حضرات نے عرض کیا کہ ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں اور نہ ہم اس قصد سے آئے ہیں۔ اس پر حضرت صدیقِ اکبرؓ کھڑے ہوئے اور تعمیل حکم اور جہاد کے لئے تیار ہونے کا اظہار کیا پھر حضرت مقدادؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :’’یا رسول اللہ ﷺ جو کچھ آپ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ملا ہے آپ اُس کو جاری کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ بخدا ہم آپ کو وہ جواب نہ دیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ ؑ کو دیا تھا۔  قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ہمیں ملک حبشہ کے مقام برک النعماد تک بھی لے جائیں گے تو ہم آپ کے ساتھ جنگ کے لئے چلیں گے‘‘۔

نبیؐ کریم  ﷺ نےخوش ہوکر ان کو دعائیں دیں اور مجمع کو خطاب کر کے فرمایا کہ لوگو مجھے مشورہ دو کہ اس جہاد پر اقدام کریں یا نہیں؟  حضرت سعد بن معاذ ؓ  سمجھ گئے کہ روئے سخن انصار کی جانب ہے  توعرض کیا  :’’یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ پر ایمان لائے اور اس کی شہادت دی کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں سب حق ہے اور ہم نے آپ سے عہد و پیماں کئے ہیں کہ ہر حال میں آپ کو اطاعت کریں گے۔ اس لئے آپ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ کا حکم ملاہو اُس کو جاری فرمائیے قسم ہے اُس ذات کی جس نے آپ کو دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ہم کو سمندر میں لے جائیں تو ہم آپ کے ساتھ دریا میں گھس جائیں گے ہم میں سے ایک آدمی بھی آپ سے پیچھے نہ رہے گا۔ ہمیں اس میں کوئی گرانی نہیں کہ آپ کل ہی ہمیں دشمن سے بھڑا دیں۔ ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے کام سے ایسے حالات کا مشاہدہ کرائیں گے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ ہمیں اللہ کے نام پر جہاں چاہیں لے چلئے‘‘۔رسول اللہ ﷺ یہ سن کر بہت مسرور ہوئے اورکہا اللہ کے نام پر چلونیز یہ بشارت دی  کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ان دونوں جماعتوں میں سے ایک جماعت پر ہمارا غلبہ ہوگا۔

رب کائنات  نے اس  معرکۂ حق باطل کی غرض و غایت یہ بتائی :’’تاکہ حق کو حق ثابت کر دے اور باطل کو باطل کر دے اگرچہ مجرم لوگ ناپسند ہی کرتے رہیں۔‘‘  اس کا پس منظر ہے۔ میدانِ جنگ میں ابوجہل نے فیصلہ کی دعا کی تھی:”اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق قرابت کو زیادہ کاٹنے والا اور غلط حرکتیں زیادہ کرنے والا ہے اسے توآج توڑ دے۔اے اللہ ! ہم میں سے جو فریق تیرے نزدیک زیادہ محبوب اور زیادہ پسندیدہ ہے آج اس کی مدد فرما۔ اس کے جواب میں فرمانِ قرآنی ہے :’’ اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیااب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے، ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی اللہ مومنوں کے ساتھ ہے‘‘ اس عظیم کامیابی کے بعد اہل ایمان کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ:’’ اے ایمان لانے والو، جب  کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو گیاور اللہ اور اس کے رسُول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی صبر سے کام لو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ مسلمانانِ ہند نے متحد ہوکر اوقاف کے معاملے میں جنتر منتر پر احتجاج کیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس اقدام میں خیر و برکت عطا فرمائے اور  سارے عالم کے مسلمانوں کو اتحادو اتفاق سے غلبۂ دین کے لیےصبرو استقامت کے ساتھ  جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

Comments are closed.